ابتدائی طبی فراہمی کی تعلیم اور فرسٹ ایڈ کونسل آف انڈیا

ڈاکٹر نعیم احمد

بنیادی طبی امداد یعنی فرسٹ ایڈ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دراصل سوال ہی میں پوشیدہ ہے۔ بنیادی طبی امداد سے مراد حادثے کے فورا بعد دی جانے والی ایسی طبی امداد جو اگر مکمل طور پر حادثے کے نقصانات کو زائل نہ بھی کر سکے تو بھی کم از کم مزید نقصان سے بچنے کا موثر ذریعہ ہو۔ بنیادی طبی امداد کی تعلیم کے فقدان کے سبب کئی روزمرہ کے ہونے والے چھوٹے موٹے حادثات بھی اکثر جان لیوا ثابت ہوجاتے ہیں۔ مثلاً سڑک حادثات، کسی کی رگ کا کٹ جانا، کسی درجہ آگ میں جلنا، حلق میں کسی چیز کا پھنس جانا، جسم کے کسی حصے پر چوٹ لگنا وغیرہ۔

 اس عہد میں دنیا اپنے تمام تر طول و عرض سمیت ایک چھوٹے سے گاؤں کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے؛ جس میں کسی ایک کنارے پر رہنے والے شخص کا، دوسرے کنارے پر رہنے والے شخص کو جاننا بالکل بھی تعجب خیز نہیں۔ اس گاؤں (گلوبل ولیج) کی شکل میں سمٹی دنیا میں لمحہ بہ لمحہ ہونے والے واقعات کی خبریں سوشل میڈیا اور دیگر ذرایع ابلاغ کی وجہ سے لمحے کے دسویں حصے میں ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہیں اور ان خبروں کے تیزی سے پھیلنے کے سبب آج دنیا کا ہر وہ شخص جو عالمی مسائل پر کسی نہ کسی درجے کی گہری نظر رکھتا ہے؛عالمی سطح پر ہر ملک کو درپیش عمومی مسائل سے واقف ہے۔ ان عمومی مسائل میں ایک بڑا ہی توجہ طلب مسئلہ بنیادی طبی فراہمی کی کمی کا ہے جس کے سبب آئے دن ہمیں مختلف ذرائع ابلاغ میں اس طرح کے جملے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ “فلاں سڑک پر حادثے کا شکار شخص بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگیا۔” پاکستان میں ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے والے نجی ادارے ‘امن فاؤنڈیشن’ سے منسلک ڈاکٹر سید وہاج جنیدی کا کہنا ہے کہ اگر کھانا کھاتے ہوئے کسی کے حلق میں کوئی چیز پھنس جائے، کسی کی کوئی اہم رگ کٹ جائے یا کوئی غلطی سے کوئی زہریلی چیز پی لے تو بہت آسانی سے اس کی جان بچائی جا سکتی ہے؛ بشرطیکہ متاثرہ شخص کے آس پاس کوئی فرسٹ ایڈ جانتا ہو۔ ڈاکٹر جنیدی کا خیال ہے کہ عام لوگوں میں ابتدائی طبی امداد سے متعلق معلومات بہت کم ہے اور حادثے کے بعد سے اسپتال لانے تک کے عرصے کے دوران میں متاثرہ شخص کو طبی امداد دینے کے بارے میں ہمارے عام ڈاکٹروں کو بھی مناسب تربیت نہیں دی جاتی۔

ان باتوں کو پڑھ کر بخوبی اس چیز کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ ابتدائی طبی فراہمی کی معلومات کا عام ہونا کس قدر ناگزیر ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی اور کبھی پوری نہ والی انسانی خواہشات کے سبب روز افزوں اونچی عمارتوں اور نجی سواریوں کی تعداد میں بڑھوتری دیکھنے کو مل رہی ہے، جس کے سبب کئی ایسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جو اب ہمارے لیے عام اور روزمرہ کا حصہ بن چکی؛ لیکن ان کے نتائج نہایت خطرناک ہیں، مثلاَ بڑھتی ہوئی آبی آلودگی؛ صوتی آلودگی؛ فضائی آلودگی، اوزون تہہ میں لطافت کا پیدا ہونا، سڑک حادثوں کی کثرت وغیرہ! ان مسایل میں سے بعض مسایل تمام دنیا کو یکساں درپیش ہیں لیکن اگر بات کی جائے ٹریفک کی تو ترقی یافتہ ممالک نے اپنے کارکنان کی مضبوط گرفت اور شہریوں کی حساسیت کے سبب اس پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے؛ مگر ترقی پذیر ممالک اب تک اس بندش سے آزاد نہ ہوسکے ت و آئے دن کئی کئی لوگ ان سڑک حادثوں کی نذر ہوکر جان گنوا بیٹھتے ہیں یا پھر شدید زخمی ہوجاتے ہیں۔ اور صرف سڑک حادثے ہی نہیں بلکہ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے موٹے حادثات بھی مناسب روک تھام اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب اس کثرت سے رونما ہونے اور اتنے افسوس ناک نتائج کا سبب بنتے ہیں کہ آس پاس موجود اشخاص کی کم علمی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ایک اسکول یا کالج میں کسی بچے کو کچھ ایسے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے اور اساتذہ کو فرسٹ ایڈ کی معلومات حاصل نہ ہو، اس کا نتیجہ عبرت آموز ہوسکتا ہے اور بچے کی جان بھی جاسکتی ہے، بصورتِ دیگر اساتذہ فرسٹ ایڈ کی تعلیم سے واقف ہوں تو ان اثرات کو بخوبی مٹا سکتے ہیں اور بچے کو فرسٹ ایڈ دے سکتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ فرسٹ ایڈ کے ماہر ہوں تو وہاں ہائیجین مکمل اعتبار سے برقرار رکھا جاسکتا ہےاور کئی طرح کی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ اگریہی تعلیم گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ پھیل جائے تو ہر اگلی گلی میں رہنے والے لوگوں کو کئی طرح کی چھوٹی بڑی بیماریوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

 بھارت اپنے سن آزادی سے اب تک ترقی کی مسلسل جدوجہد میں لگا ہوا ہے اور اس جدوجہد میں بہت حد تک کام یاب بھی رہا؛ حالاں کہ اس ترقی کی رفتار نہایت سست ہے اور خاصے طور پر شعبئہ صحت متاثر ہے۔ کرونا کی پہلی لہر کے دوران ملک گیر لاک ڈاؤن کے سبب مزدوروں کی تکالیف ہوں یا دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سینکڑوں اموات، بھارت کے شعبئہ صحت پر تنقید بجا ہے اور ماہرین اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر شباب عالم کا کہنا ہے کہ جس طرح سے فوجی سرحد پر ملک بھر کی حفاظت کرتے ہیں، اسی طرح فرسٹ ایڈ یعنی بنیادی طبی امداد کی تعلیم اس وبائی دور میں مددگار ثابت ہوسکتی تھی ۔ ان کے نزدیک اس کا فائدہ یہ تھا کہ بنیادی طبی تعلیم چوں کہ انسان کو ابتدائی امور میں ہی چوکنا کر دیتی ہے، وہ ابتدائی مراحل میں ہی کسی تکلیف کے اثرات کو ختم کردیتا ہے اور مات دیتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب عوامی سطح پر اس کی تعلیم نہیں ہوتی ہے لوگ اپنے آپ کسے خطرے کو محسوس نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسے دور کرنے کی کوئی ترکیب ان کو سوجھ سکتی ہے۔ ڈاکٹر شباب عالم نے بھارت میں فرسٹ ایڈ کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ”فرسٹ ایڈ کونسل آف انڈیا” نام سے ایک ادارہ ۲۰۱۷؁ء میں قائم کیا ۔ اس ادارہ کا مقصد عوامی سطح پر لوگوں کو ابتدائی مراحل میں کسی تکلیف یا بیماری سے لڑنے کے لئے قابل بنانے کے علاوہ اس فن کے ماہرین کو ایک جائز نام دینا ہے؛ یعنی سند۔ فرسٹ ایڈ کونسل آف انڈیا ایک آٹونامس ادارہ ہےاور ڈاکٹر شباب عالم اس کے بانی اور صدر ہیں۔ اس ادارے میں کئی طرح کے لوگ خدمات انجام دیتے ہیں۔ کچھ انتظامی امور دیکھتے ہیں اور کچھ تعلیمی اداروں تک فرسٹ ایڈ کی اہمیت کی آواز پہنچاتے ہیں۔ کچھ عوامی سطح پر لوگوں تک اپنی آواز پہنچاتے ہیں کہ وہ فرسٹ ایڈ کی تعلیم حاصل کریں۔ فرسٹ ایڈ کے لئے اس ادارےنے حال تک چار کورسز تیار کیے ہیں۔سرٹیفیکیٹ برائے فرسٹ ایڈ ٹریٹمینٹ، فرسٹ ایڈ سپیشلسٹ ڈپلوما کورس، یوگ اینڈ نیچرل ٹریٹمینٹ ڈپلوما کورس اور جن سوستھا رکشک ڈپلوما کورس۔ سرٹیفکیٹ کورس چھ ماہ کا ہے اور بقیہ تین مکمل ایک سال کے؛ اور شرط یہ ہے کہ پڑھنے والے نے کسی منظور شدہ بورڈ سے بارہویں کی ہو۔ جہاں تک ان کورسز کے مضامین کا تعلق ہے تو ہمارے عزیز ڈاکٹر اینڈیو کا خیال کا ہےکہ فرسٹ ایڈ کی تعلیم کے لیے یہ جامع مضامین ہے۔ ان میں کسی چیز کی کمی ہے اور نہ زیادتی۔ ڈاکٹر کوثر صاحبہ کہتی ہیں کہ یوگ کے معاملے میں غلو سے کام لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ” یوگ ضروری ہے، پڑھانا چاہیے لیکن مضامین میں اس کی تعداد قدرے زیادہ ہے۔ یہ غلوآمیز ہے، لیکن مجموعی اعتبار سے فرسٹ ایڈ کونسل آف انڈیا کے یہ کورس نہایت مفید اور جامع ہے۔” اگر یہ خیالات بھارت میں عام ہوجائیں تو مفلوج شدہ شعبئہ صحت کو مزید پامال ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com