دارالعلوم دیوبند اور اردو زبان

مولوی فاروق اعظم قاسمی

۱۸۵۷۷ء کی ہزیمت کے بعددارالعلوم دیوبند اسلامیانِ ہند کے لیے نشأة ثانیہ ثابت ہوا اور اس عرصے میں اس نے اپنی دینی، علمی ، قومی اور ملی خد مات کی بنا پر دنیا بھر میں شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ بلا شبہ قیامِ دارالعلوم دیوبند کا مقصد مسلمانوں کے بکھرے ہوئے شیرازے کو یکجا کرنا اور اسلامی تشخص کے ساتھ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا جس میں اسے کامیابی ملی؛ لیکن اسی کے متوازی دارالعلوم نے بہت سے ایسے کارنامے بھی انجام دیے جس کے لیے وہ معروف نہیں ہے ۔ یہ امر مبنی بر حقیقت ہے کہ اس عظیم ادارے نے زبان و ادب کے میدان میں بھی غیر معمولی کردار ادا کیا ہے بہ طور خاص اردو زبان کی توسیع و ترویج اور تحفظ و بقا کی خاطر اس کی شعوری کوششوں سے اردو زبان کا کوئی بھی انصاف پسند مورخ انکار نہیں کر سکتا؛ لیکن افسوس! ہنوز ایسے مورخ کا انتظار باقی ہے۔
اہلِ نظر اس نقطے سے بہ خوبی واقف ہیں کہ کوئی بھی زبان ایک د ن میں زبان نہیں بن جاتی۔ اس کے پیچھے صدیوں کا وقت اور کروڑوں انسانی اذہان کی مشترکہ جد و جہد کار فرما ہوتی ہے۔ انسانی ضروریات کے پیشِ نظر اشارات کا صوتیات میں اور صوتیات کا لفظیات کے روپ میں ڈھل کر مسندِ قرطاس پر براجمان ہونے کا نام زبان ہے ۔ زبان کی حیثیت درخت کے تنے کی سی ہے اور ادب اس کی شاخیں ، پتے اور پھول و پھل ہے؛ جب تک کسی زبان کی بنیاد مضبوط نہیں ہو جاتی اس وقت تک ادب کا تصور محال ہے؛ اس لیے زبان کا درجہ ادب سے مقدم ہے ۔
قدیم دلی کالج (مدرسہ غازی الدین) کے دو فاضل اور مولانا مملوک علی نانوتوی کے شاگرد سر سید احمد مرحوم اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دو الگ الگ ادارے قائم کیے ۔ بہ ظاہر دونوں اداروں کی نوعیت تعلیمی تھی اور دونوں کے بنیادی مقاصد بھی تقریباً ایک تھے یعنی مسلمانوں کو ہرطرح کی پسماندگی سے باہر نکالنا ، خواہ دینی ، تعلیمی پسماندگی ہو یا معاشی یا پھر کسی حد تک سیاسی بھی؛ البتہ منزل تک پہنچنے کے راستے دونوں کے الگ الگ تھے ۔ دونوں کے طریقہائے کار اور ترجیحات میں فرق تھا ۔جس طرح علی گڑھ کی اسلامی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اسی طرح دیوبند کی لسانی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
دیوبند کا دائرہٴ کار بہت وسیع ہے۔ دین و مذہب اور اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ سماج و سیاست کے باب میں بھی اس ادارے کا نمایاں کارنامہ رہاہے ۔ اس سلسلے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ، شیخ الہند مولانا محمود حسن ،مولانا محمد میاں منصور انصاری ، مولانا عبید اللہ سندھی ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ،محدثِ عصر علامہ انور شاہ کشمیری ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی ،مفتی محمد شفیع عثمانی ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، مفتی کفایت اللہ، علامہ سید مناظر احسن گیلانی ،مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی ، مولانا سید محمد میاں دیوبندی، مولانا منت اللہ رحمانی ، قاری محمد طیب قاسمی اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی وغیرہ کے نام انتہائی روشن اور قابلِ ذکر ہیں ۔
اردو ذریعہٴ تعلیم:
دیوبند اور اس کے ہم نصاب مدارس جن میں سے تین ہزار مدارس تو باضابطہ رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے ممبر ہیں۔ اول روز سے ان تمام مدارس کا ذریعہٴ تعلیم اور دفتری زبان اردو ہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی جملہ تحریری کاروائی آغاز سے آج تک اردو ہی میں ہوتی ہے۔کتب خانہ ، محاسبی ، دفترِ تعلیمات اور دیگر دفاتر کے سرکلر، تمام اعلانات اور الف سے یا تک تمام کاغذی کاروائی اردو زبان ہی میں ہوتی ہے ۔ اسی طرح سہ ماہی ، ششماہی ،سالانہ اور داخلے کے امتحانات پھر ان کے تمام سوالات کے پرچے اردو زبان ہی میں ہوتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ دارالعلوم کی سیکڑوں صوبائی و ضلعی انجمنوں کی پنچانوے فی صد سرگرمیاں اردو ہی میں انجام پاتی ہیں ۔ ان انجمنوں کی سرگرمیوں کی تین بنیادی شاخیں ہوتی ہیں : ہفتہ وار تقریری پروگرام، مطالعہ ( لائبریری) اور دیواری پرچے۔
اردو زبان کی قرأت کے حوالے سے بات کی جائے تو یونیورسٹیوں کے مقابلے میں بہت حوصلہ افزا ہے۔ دارالعلوم میں اردو زبان کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ یہاں ننانوے فی صد اخبارات و رسائل اردو زبان ہی کے پڑھے جاتے ہیں؛ ممکن ہے دہلی سے شائع ہونے والے بعض اردو اخبارات آپ کو دہلی میں نہ ملیں یا تاخیر سے ملیں؛ لیکن دیوبند ، بہ طورِ خاص دارالعلوم کے ارد گرد دکانوں پرعلی الصباح اردو کے تمام معروف اخبارات آپ کو دستیاب ہوں گے ۔
اردو کا عام استعمال:
کسی بھی زبان سے محبت اور اسے ترویج دینے کا اندازہ اس زبان میں تعلیم و تعلم کے ساتھ عوامی مقامات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے؛ چناں چہ دیوبند کے سائن بورڈ کی زبان ، مختلف پروگراموں کے بینرز کی زبان ، اساتذہ کے ناموں کی تختیوں(نیم پلیٹس) کی زبان ، سڑکوں کے ناموں کی زبان اور مزاروں کے کتبوں کی زبان اردو ہی ہے ۔ اسی کے ساتھ یہاں کے کلینڈر ، مُہر، شادی اور دیگر تقریبات کے دعوت نامے بھی اردو زبان میں ہوتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر بھی دیوبند کے بہت سے فضلاء موجود ہیں۔ نیوز پورٹل، بلاگ، ٹیوٹر ، فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ پر بڑی خوش اسلوبی سے اردو کا استعمال ہو رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات بغیر کسی حجاب اور جھجھک کے اردو کی اس خدمت میں مصروف و منہمک ہیں۔ اردو زبان سے دیوبند کے لگاؤ کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ دیوبند نے اردو کی جو خدمت کی یا کررہا ہے اس کی بنیاد صلہ ٴ و ستائش کے بجائے خلوص پر ہے ۔ اردو سے دیوبند کایہ تعلق کسی مجبوری کی بنیاد پر نہیں؛ بلکہ اختیاری اور شعوری ہے ۔ یہاں کے فضلاء اردو شان سے بولتے ہیں نہ کہ لاجے شرمے۔ یہاں اردو دانوں کے بیچ اردو پروگراموں میں اردو موضوع پر اگر گفتگو کا موقع ہوتا ہے تو اردو زبان ہی میں گفتگو کی جاتی ہے نہ کہ انگلش یا کسی اور زبان میں ۔ مولانا عبدالحمید نعمانی نے بڑی اچھی اور سچی بات کہی ہے : ” مدارس میں کم از کم یہ تضاد دیکھنے میں نہیں آتا ہے کہ اردو والے کے سامنے کسی اور زبان میں اظہارِخیال کیا جائے ۔ خالص اردو کے فروغ کے لیے قائم اداروں کے پروگراموں میں انگریزی و دیگر زبانوں میں تقریر یا مقالے کی خواندگی پوری سعادت مندی سے کی جا رہی ہے ۔“ ( ماہنامہ ’اردو دنیا ‘ نئی دہلی ، مئی ۲۰۱۳ء، ج: ۱۵، ش: ۵)
 اردو زبان کو ذریعہٴ تعلیم بنانے ہی کا صدقہ ہے کہ دیوبند نے جہاں اردو کو ہر لمحے اپنے ساتھ رکھا اسی طرح ملکی و عالمی سطح پر بھی اس زبان کی آبیاری کی۔ملک کے طول و عرض اور ایسے خطے سے آنے والے طلبہ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہوتی تھی انھیں بھی دیوبند نے اردو زبان کا عمدہ تحفہ عطا کیا ۔ تعلیم کا میڈیم جو زبان ہوتی ہے اس کی ترقی کی رفتار یا اس کی ترویج و اشاعت کے امکانات کس قدر روشن ہوتے ہیں ، اس نکتے کو سمجھنا موجودہ عہد میں زیادہ مشکل نہیں ۔
اردو کی قومی حیثیت:
دارالعلوم کی شہرت و مقبولیت کے پیشِ نظر ملک کے گوشے گوشے سے تشنگانِ علم و معرفت جوق در جوق یہاں آنے لگے ۔ یہ طلبہ اپنی مادری زبان : بنگلہ ، تمل ، ملیالم ، کنڑ ، تلگو ، کشمیری، اڑیا ، گجراتی ، آسامی ، مراٹھی پشتو، فارسی اور انگریزی وغیرہ بولنے کے با وجود دیوبند سے اچھی خاصی اردو سیکھ کر جاتے؛ بلکہ اس میں مہارت پیدا کر کے اپنے وطن لوٹتے ہیں پھر اردو کی روشنی ان علاقوں میں پھیلے بغیر نہ رہتی۔آج اگر ان علاقوں میں اردو بولنے یا سمجھنے والے ہیں تو اس میں ایک بڑا حصہ دیوبند کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانوی کی ’بہشتی زیور‘ کا ذکر کیے بغیر بھی بات نہیں بنتی۔ حضرت تھانوی کی یا ان کی نگرانی میں تیار کردہ ، مسلم خواتین کا یہ ایک معروف و مقبول انسائیکلو پیڈیا ہے۔ ملکی سطح پر ہی سہی اردو زبان کی توسیع و ترقی میں اس کتاب کا بھی بڑا اہم رول رہا ہے ۔ اسے بیٹیوں کو جہیز میں دینے کو عقید ت مندی کا نام تو دیا جا سکتا ہے؛ لیکن اپنے مشمولات کے پیشِ نظر اردو زبان میں مسلم عورتوں کی روز مرہ کی ضروریات کے بہ طور بلا شبہ یہ ایک انمول تحفہ ہے اور گزشتہ ایک سو سترہ اٹھارہ برسوں سے اس خدمت پر بلا کسی وقفے کے مامور ہے۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ا س کا آغاز اردو کے حروف تہجی سے ہوتا ہے؛ تا کہ جو اردو سے ناواقف بھی ہو تو اردو سیکھ کر اس کتاب سے فائدہ اٹھا سکے ۔ بہشتی زیور کے بارے میں عارف اقبال لکھتے ہیں: ” بہشتی زیور (۱۳۲۰ھ) نسائی ادب میں بلا شبہ اپنے وقت کی اہم کتاب ہے جو تقریباً ۱۱۶ برس قبل شائع ہوئی تھی جس کی اشاعت تسلسل کے ساتھ آج تک ہو رہی ہے ۔ اس کتاب کو اپنے عہد کی خواتین کا انسائیکلو پیڈیا کہا جا سکتا ہے ۔“ ( سہ ماہی ’ اردو بک ریویو ‘ دہلی ، اپریل تا ستمبر ۲۰۱۳ء ، مشترک شمارہ)
حضرت تھانوی  کے علاوہ شیخ الہند مولانا محمود حسن  ، کا ترجمہ ٴ قرآن ( مدینہ پریس بجنور ، ۱۹۲۳ء) مفتی شفیع عثمانی  کی تفسیر ’ معارف القرآن ‘ ( ۱۹۷۲ء کراچی ) مولانا ثناء اللہ امرتسری  کی ’تفسیرثنائی، مولانا منظور نعمانی کی ’ اسلام کیا ہے؟ (۱۹۵۲ء ) مفتی کفایت اللہ  کی تعلیم الاسلام اور مولانا محمد میاں دیوبندی  کی ’ دینی تعلیم کا رسالہ ‘ وغیرہ انتہائی مقبولِ عام و خاص ہیں ۔ ان سب کی زبان اردو ہی ہے اور گزشتہ نصف یا نصف صدی سے زیادہ عرصے سے شائع ہو رہی ہیں اور تا حال جاری و ساری ہیں ۔
اسی طرح دیوبند کی تاسیس کے چند سال بعد ہی یہاں بیرون ِ ممالک سے بھی طلبہ کی آمد شروع ہو گئی تھی۔ دارالعلوم میں قیام کے دوران نہ صرف یہ کہ وہ طلبہ اردو بولنا سیکھ جاتے تھے؛ بلکہ اس زبان کے عمدہ خطیب ، بہترین قلمکار اور غیر اردوداں بستیوں میں اس زبان کی تبلیغ کا شاندار کارنامہ بھی انجام دیتے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
دارالعلوم میں اردو کے ذریعہٴ تعلیم ہونے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا بہ قولِ حقانی القاسمی : ”دیگر لسانی معاشروں سے تعلق رکھنے والے بھی اردو زبان میں ہی تعلیم پاتے ، چاہے ان کا تعلق برمی ، بنگلہ ، کنڑ ، تمل ، تلگو ، گجراتی ، مراٹھی زبان سے ہو؛ مگر مدارس کے طلبہ اردو زبان کے ذریعے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ “ ( ماہنامہ’ اردو دنیا ‘ نئی دہلی ، مئی ۲۰۱۳ء، ج: ۱۵، ش: ۵)
دارالعلوم دیوبند نے اپنے قیام کے چند برسوں بعد ہی مرکزیت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور ملک و بیرون ملک کے تشنگانِ علم و معرفت بڑی تیزی سے دیوبند آنے لگے تو ابتدا میں کتابوں کی ضرورت کی تکمیل دہلی اور لکھنٴو سے ہوتی رہی؛ لیکن طلبہ کی روز افزوں بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر درسی و غیر درسی کتابوں کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جانے لگی ۔
اردو کے اشاعتی ادارے:
اسی احساسِ ضرورت کی تکمیل کی غرض سے ابتدا میں مفتی شفیع عثمانی  نے’ دارالاشاعت‘ اور حضرت نانوتوی کے پوتے مولانا محمد طاہر قاسمی نے ’مطبع قاسمی‘کی بنیاد ڈال کر اشاعتی حوالے سے اردو کی ترویج و توسیع کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا۔پھر یکے بعد دیگرے کئی اشاعتی ادارے فضلائے دیوبند کے ہاتھوں قائم ہوئے اور اس سلسلے میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ۔ اسی کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ آزادیٴ ہند کے بعد دیوبند کے اشاعتی کتب خانوں کے ساتھ ان کے مالکان نے اپنے اپنے چھاپے خانے اور پریس بھی قائم کیے ۔ مولانا شوکت خان کا ’ نیشنل پریس‘ ،مولانا شوکت دیوبندی کا ’ آزاد پریس‘ اور قاضی انوار کا ’ محبوب پریس‘ انتہائی قابلِ ذکر ہیں ۔ ایسے ہی مولانا راشد عثمانی کا ’راشد اینڈ کمپنی ‘ ، مولانا اسحاق دیوبندی کا ’کتب خانہ رحیمیہ ‘ ،مولانا نعیم دیوبندی کا قائم کردہ ’کتب خانہ نعیمیہ‘ ، مولانا سید احمد کا ’کتب خانہ اعزازیہ‘ اور مولانا عامر عثمانی کا ’مکتبہ تجلی‘ وغیرہ کا شماردیوبند کے اولین اشاعتی اداروں میں ہوتا ہے، نہ صرف یہ کہ ان اداروں کو تقدم حاصل ہے؛ بلکہ اپنی کثرتِ اشاعت میں بھی معروف ہیں ۔موجودہ عہد میں مولانا ندیم الواجدی کا یاسر ندیم پریس اورفیصل مہدی صاحب کا یونین پریس بھی اہمیت کا حامل ہیں۔ اس وقت خاص طور پرمولانا ندیم الواجدی کا ’ دارالکتاب‘ ، مولانا صدرالزماں قاسمی کا ’ کتب خانہ حسینیہ ‘اور مولانا سید شاداب حسین قاسمی کا ’ اتحاد بک ڈپو‘ اپنی منصوبند ی کے ساتھ کتابوں کے معیار اور کثرتِ اشاعت کے لیے مدارس کے حلقوں میں خاصامشہور ہیں ۔
کچھ فضلا ایسے بھی ہیں جنھوں نے محض اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے کتب خانے قائم کیے۔ ایسے اداروں میں مولانا قاری رفعت قاسمی کا ’ مکتبہ رضی ‘ ، ’ مولانا نور عالم خلیل امینی کا ’ ادارہٴ علم و ادب‘، مولانا عبداللہ جاوید کا ’ ادارہٴ اسلامیات‘ ، مولانا انظر شاہ کشمیری  کا ’بیت الحکمت‘ مولانا جمال کا ’مکتبہ جمال‘، مولانا حسین احمد ہردواری کا ’ مکتبہ الاطہر‘، مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا ’مکتبہ البلاغ‘ اور مولانا ریاست علی بجنوری کا مکتبہ مجلس قاسم المعارف یا کاشانہٴ رحمت وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔ کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں سے مالکانِ ادارہ کی کتابوں کے ساتھ دیگر کتابیں بھی شائع ہوتی ہیں ۔ ایسے اشاعتی کتب خانوں میں مفتی سعید احمد پالن پوری کا ’مکتبہٴ حجاز‘ ، مفتی امین پالن پوری کا ’الامین کتابستان‘ ، قاری ابولحسن اعظمی کا ’مکتبہ صوت القرآن ‘ ، مولانا جمیل احمد سکروڈوی کا ’ مکتبہ البلاغ‘ مولانا ساجدقاسمی اور مولانا عبدالقدوس قاسمی کا ’ دارالمعارف ‘ اور مفتی محمد یوسف تاؤلوی کا ’مکتبہ فقیہہ الامت‘ قابلِ ذکر ہیں ۔
 ان کے علاوہ مکتبہ ملت ، زمزم بک ڈپو، مکتبہ مدنیہ، دارالاشاعت، سنابل کتاب گھروغیرہ کے مالکان بھی دیوبند ہی کے فضلاہیں ۔ ان اداروں کے علاوہ اور بھی کئی کتب خانے بہت اہم ہیں ان میں ، زکریا بک ڈپو، مکتبہ تھانوی اور فیصل پبلی کیشنز بڑی شہرت رکھتے ہیں ان کا بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ رشتہ دارالعلوم سے ضرور ملتا ہے۔
دارالعلوم کے بھی اپنے دو اشاعتی ادارے ہیں ایک ’مکتبہ دارالعلوم‘، دوسر ا’ شیخ الہند اکیڈمی‘ ( جو در اصل دارالعلوم کا ایک تحقیقی اور تربیتی شعبہ ہے) ہے۔ ان اشاعتی اداروں سے شائع ہونے والی کتابوں کا اسی فی صد یا اس سے بھی زائد حصہ اردو زبان میں ہوتا ہے ۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ تقریباً ستر فی صد کتابوں کا تعلق درسیات ( مدارس)سے ہوتا ہے اور تیس فی صد میں علمی ، تاریخی ، سوانحی ، اصلاحی اور ادبی موضوعات سے متعلق کتابیں ہوتی ہیں ۔ ادبی کتابوں میں سب سے زیادہ غیر افسانوی نثری کتابیں شائع ہوتی ہیں ۔ مثلاً : سوانح و سیرت ، سفرنامے، خاکے اور مکتوبات ۔ اس کے بعد شعری مجموعوں کا نمبر آتا ہے اور افسانہ ، ناول اور ڈرامے سے متعلق کتابوں کی اشاعت ایک آدھ فی صد ہی ہوپا تی ہے۔ ان مطابع اور پریسوں اور اشاعتی اداروں نے اردو کتابیں چھاپ کر ملک و بیرونِ ملک کے چپے چپے تک پہنچانے کا جو عظیم کام انجام دیا ہے، اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اردو اورخوش نویسی:
اسی طرح خطاطی کے ذریعے بھی دیوبند نے اردو زبان سے لوگوں کو قریب کیا ہے ۔ ویسے تو براہِ راست زبان و ادب سے اس فن کا تعلق نہیں ،یہ فنونِ لطیفہ کی ایک شاخ ہے تاہم اس کا سرا زبان و ادب سے بھی ضرور ملتا ہے۔
 دارالعلوم دیوبند میں طلبہ کے اندر خوش نویسی کی قوت پیدا کرنے کی غرض سے ۱۹۴۷ء میں ’شعبہٴ خوشخطی ‘ کا قیام عمل میں آیا ۔ (تاریخِ دارالعلوم دیوبند ج : ۱،ص : ۱۳۲)اس شعبے نے طلبہ کے اندر خوش نویسی کا شوق پیدا کرنے کے علاوہ بہ طورِ فن کے بھی اس سلسلے کو آگے بڑھا یا۔ مولانا یوسف عظیم آبادی، مولانا اسلام قاسمی ، مولانا ساجد الاعظمی ، انیس صدیقی، سابق صدرِ شعبہ مولانا نیاز الدین اصلاحی، مولانا کفیل الرحمن اورشعبہٴ مذکور کے موجودہ صدر مولانا عبد الجبارقاسمی وغیرہ ایسے بے شمار فضلا نے خطاطی(Callygraphy)کا فن سیکھ کر دنیا بھر میں اپنے نام کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے نام کوبھی روشن کیااور ساتھ ہی اردو زبان کے حسن کو بھی دو بالا کیا ۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے فن کا شاہکار پیش کر کے اردو رسمِ خط کے حسن میں زبر دست اضافہ کیا اور اس کی روشنی و خوشبو پوری دنیا میں پھیلائی ۔ ملک و بیرون ممالک کی بے شمار مساجد کی پیشانیوں پر ان کی خطاطی کے اعلیٰ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک اہم نام طارق ابنِ ثاقب کا ہے۔ کولکاتا ، گجرات اور پونے وغیرہ کی درجنوں مساجد کے علاوہ امریکہ ، افریقہ اور کناڈا تک میں ان کے فن کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اس فن کے ذریعے بھی اردو نے دور دراز کا سفر طے کیا ، اجنبیوں کو خود سے قریب کیا اور قلب و نظر کی تسکین کا سامان بھی بہم پہنچایا ۔
اردو اورطب ِ یونانی :
طبِ یونانی کا عربی و فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی بڑا گہرا رشتہ رہا اور ہے ۔ اس فن کی بہت سی کتابیں اسی زبان میں لکھی گئیں اور اس کا ذریعہٴ تعلیم بھی اردو کو بنایا گیا ۔ایسے ہی ہندوستان کے بہت سے اطباء نے اپنے دیگر طبی امور بھی اسی زبان میں انجام دیے؛ بلکہ ان کے تجویزی نسخے کل بھی اردو میں ہوتے تھے اور آج بھی نسخے کی زبان اردو ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ طبِ یونانی کی تما م دواؤ ں کے نام فارسی یا عربی نما اردو میں ہوتے ہیں اور اس کی تیار کردہ دواؤں اور دیگر ٹانکوں پر جلی حرفوں میں متعلقہ دواؤں کے نام اردو زبان میں بھی درج ہوتے ہیں ۔ ہمدرد اور ریکس (دوا کمپنی) وغیرہ کی مصنوعات سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وضاحت سے طبِ یونانی کا اردو زبان سے تعلق کا بخوبی علم ہو جاتا ہے ۔
دیوبند نے اپنے قیام کے صرف ۱۳ سال بعد۱۸۷۹ ء میں طب کی تعلیم کا آغاز کر دیا تھااور ۱۸۸۴ء میں طب کا با ضابطہ شعبہ قائم ہوا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب نہ ہمدرد دوا خانہ (۱۹۰۶ء) قائم ہوا تھا اور نہ ہی جامعہ ہمدرد ( ۱۹۸۹ء) ۔ ۱۹۵۵ ء میں دارالشفا کی علیٰحدہ عمارت تعمیر ہوئی اور ۱۹۶۳ء میں دارالعلوم دیوبند میں مستقل جامعہ طبیہ کا قیام عمل میں آیا ۔اس جامعہ کا ذریعہٴ تعلیم اردو زبان تھا اور نظری و عملی ساری کاروائی بھی اسی زبان میں ہوتی تھی ۔مختلف شعبہ جات کے لحاظ سے دیوبند کی صد سالہ خدمات کے ضمن میں سید محبوب رضوی مرحوم نے جامعہ طبیہ کے فضلا کی تعداد ۲۸۸ درج کی ہے ۔ ( تاریخِ دارالعلوم دیوبند ج : ۱، ص: ۴۴۵)دارالعلوم کے ایک ابتدائی دور (۱۳۰۰ھ) کے نابینا فاضل حکیم عبدالوہاب جو حکیم نا بینا سے معروف تھے ، ڈاکٹر مختار انصاری مرحوم کے بڑے بھائی تھے ، دہلی سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی ، بڑے ماہر نباض تھے، علم النبض پر ” اسرارِ شریانیہ “ نامی ایک معرکہ آرا کتاب تحریر کی ۔ ( تاریخِ دارالعلوم دیوبند ج : ۲، ص: ۶۱)اسی طرح ایک اور فاضلِ دیوبند ،مولانا سعید الرحمن اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ کے بڑے بھائی حکیم عزیز الرحمن نے بھی ۲۳ سال دارالعلوم دیوبند میں طب کا درس دیا اور ’ امراضِ صدر ‘ ،’کتاب الرحمت‘اور بارہ سو صفحات پر مشتمل دو ضخیم جلدوں میں اردو انگلش طبی لغت جیسی قیمتی تصانیف کے ذریعے طبِ یونانی اور اردو کو ہم رشتہ کیا ۔( پسِ مرگ زندہ ، نور عالم خلیل امینی، ادارہٴ علم و ادب دیوبند، (۲۰۱۰ء دوسرا اڈیشن، ص: ۹۱۱ ) ان فضلاء نے جہاں ایک طرف ملک بھر میں عوامی خدمات انجام دیں وہیں بالواسطہ یا بلا واسطہ اردو زبان کے فروغ میں بھی ان کا اہم حصہ رہا ۔
اردوکی عالمی حیثیت:
دیوبند نے نہ صرف یہ کہ ملک کے غیر اردو معاشرے تک اردو کی روشنی پھیلائی؛ بلکہ عالمی سطح پر بھی دیوبند نے اپنے فضلاء کے ذریعے اردو کی خوشبو کو دنیا بھر میں بکھیرنے کا روشن کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس سلسلے میں اس کے کئی محرکات ہیں ۔ سب سے پہلے تو دیوبند کا ذریعہٴ تعلیم اردو ہے جس کے نتیجے میں بلا کسی امتیاز کے یہاں کا ہر فاضل خواہ ہندوستانی ہو غیر ہندوستانی اردو بولنے، پڑھنے ، سمجھنے اور لکھنے پر قادر ہوتا ہے یا کم از کم بولتا اور سمجھتا تو ضرور ہے ۔ دوسری بنیادی وجہ دیوبند کے ذریعے عالمی تبلیغی تحریک کابرپا ہونا ہے ۔ اس عالمی تحریک نے عملی طور پر اردو زبان کو جو عالمگیریت عطا کی ہے، اس سے شاید دیگر تحریکاتِ اردو بھی محروم ہیں ۔گزشتہ نوے سالوں سے اس تحریک نے دنیا بھر کے محلے محلے اور گلی گلی میں تبلیغ ِ اسلام کا ایک انقلابی کارنامہ انجام دیا ہے اور ساتھ ہی اردو کو ایک عمومیت بھی عطا کی۔ ”جنوبی افریقہ میں اردو “ کے تحت پروفیسر حبیب الحق کے حوالے سے حقانی القاسمی نے لکھا ہے : ”ڈربن میں پانچ عظیم مراکز ہیں جہاں اردو زبان ذریعہٴ تعلیم ہے ۔درجنوں مدارس ہیں جن کے اساتذہ زیادہ تر ہندوستانی مدارس ، مثلاً دیوبند ، راندیڑ ، ڈابھیل کے فارغین ہیں۔“ (دارالعلوم دیوبند : ادبی شناخت نامہ، حقانی القاسمی ، آل انڈیا تنظیم علمائے حق ،نئی دہلی، ۲۰۰۶ء ،ص : ۴۸)
اس سلسلے میں پروفیسر سعود عالم قاسمی نے بھی اپنے مشاہدے کا ذکر کیا ہے ۔ ہندوستانی مدارس کے فضلاء کی دینی ، تعلیمی ،ثقافتی ، معاشی ، سیاسی اور لسانی سرگرمیوں کو بیان کرتے ہوئے وہاں کے چار معروف مدارس : ’دارالعلوم زکریا‘ جو ہانس برگ ، ’ جامعہ اسلامیہ ‘ آزاد ول جوہانس برگ ، ’دارالعلوم مسیح الامت ‘ روشنی جوہانس برگ اور ’دارالعلوم‘ نیو کاسل کا بہ طورِ خاص تذکرہ کیا ہے ۔ اسی ضمن میں وہ لکھتے ہیں : ” ان مدارس میں ابتدائی تعلیم سے لے کر دورہ ٴ حدیث ، افتاء اور تخصص فی الحدیث کی تعلیم ہوتی ہے ، یہاں کے مقامی طلبہ کی مادری زبان اردو نہیں ہے؛ مگر حدیث پڑھنے والے تمام طلبہ کو پہلے اردو زبان سیکھنی ہوتی ہے ۔ان مدارس کے بیشتر اساتذہ دارالعلوم دیوبند یا دارالعلوم کراچی کے فضلاء ہیں اور یہ عربی کے ساتھ اردو میں تعلیم دیتے ہیں ۔“ (اردو کے فرغ میں مدارس کا کردار ، مرتب : عبدالمعید قاسمی ،فلاح المسلمین الٰہ داد پور سمیتی ،فتح پور ، ۲۰۱۳ء ، ص: ۴۱-۴۰) اسی طرح اردو کے حوالے سے دیوبند کا فیض یوروپی ممالک ، برطانیہ ، امریکہ اور سعودی عرب وغیرہ میں بھی پہنچا اور آج بھی دیوبند کے فضلاء اردو کی روشنی دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں ۔
فاضلِ دیوبند مولانا محمد الیاس کاندھلوی جو جماعتِ تبلیغ کے بانی ہیں ۔ ان کی اس تحریک نے بھی اردو زبان کو دنیا بھر میں رابطے کی زبان بنانے کا نا قابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے ۔ اس وقت فضلائے دیوبند کے ہاتھوں قائم ہونے والی کسی بھی تحریک میں سب سے فعال اور اردو زبان کو استعمال کرنے والی بین الاقوامی جماعت یہی ہے ۔ جو ۱۹۲۷ء سے باضابطہ مصروفِ کار ہے۔ حقانی القاسمی رقم طراز ہیں: ” اس ضمن میں محمد الیاس کاندھلوی  کی عالمی تبلیغی تحریک کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے زبان کی حد تک اردو کے فروغ میں اردو کی باضابطہ تنظیموں ، اداروں سے زیادہ فعال اور نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ صرف ایشیا ، افریقہ نہیں؛ بلکہ یوروپی ممالک میں بھی اردو کے تہذیبی لسانی چراغ کو روشن رکھا ہے ۔ پروفیسر حبیب الحق ندوی کے بہ قول : ” ۱۹۶۴ء میں جنوبی افریقہ میں تبلیغی جماعت کی تحریک شروع ہوئی۔ اس کا پہلا اجتماع ۱۹۶۴ء میں شہر ڈربن میں منعقد ہوا ۔ ۱۹۷۲ء تک لاکھوں کے مجمعے میں تمام تقاریر اردو زبان میں ہوتی رہیں “۔ (دارالعلوم دیوبند : ادبی شناخت نامہ، ص :۴۸)
اسی طرح اس جماعت کاایک عوامی نصاب تیار کرنے کے لیے مولانا محمد الیاس کاندھلوی  نے اپنے لائق و فائق برادر زادہ شیخ الحدیث مولانا زکریا کو حکم فرمایا ، جس کی تعمیل میں ” فضائلِ اعمال “ وجود میں آئی ، جو اردو زبان میں ہے اور اسلوب و انداز کے لحاظ سے انتہائی آسان بھی۔ اس کتاب میں عوام کو برے اعمال سے نفرت اور اچھے اعمال کی رغبت دلائی گئی ہے ۔ گرچہ دنیا کی اہم زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں؛ تاہم اس کے اردو وَرژن ( نسخہ) کی نہ تو اہمیت میں کوئی فرق پڑا اور نہ ہی اس کی تعدادِ اشاعت میں کسی قسم کی کوئی کمی آئی۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسے کوئی بھی اشاعتی ادارہ چھاپ سکتا ہے ۔
” دورِ حاضر میں اردو زبان کی کثیر الاشاعت تصانیف“ کے زیرِ عنوان عارف اقبال صاحب نے لکھا ہے : ” اس (فضائلِ اعمال) کا عالمی شہرہ ہے ، اس کا ترجمہ متعدد بین الاقوامی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ دورِ حاضر میں قرآن مجید کی اشاعت کے بعد غالباً یہ دوسری کثیر الاشاعت کتاب ہے “۔ (سہ ماہی ’ اردو بک ریویو ‘ دہلی ، اپریل تا ستمبر ۲۰۱۳ء ، مشترک شمارہ)
اردو کا تحفظ و بقا:
جس طرح دیوبند نے علمی ، تعلیمی ، تبلیغی ، ملی اور سیاسی تحریک میں اردو زبان کو ترجیح دی اور نظری و عملی ہر دو حوالوں سے اردو کو دیگر زبانوں پر مقدم رکھا اور اس کے تحفظ و بقا کے لیے تعمیری اور مثبت کوششیں کیں، اسی طرح ہندوستان کی آزادی کے بعد جب فرقہ پرست ذہنیت کی طرف سے اردو کے لیے ملک کی زمین تنگ کی جانے لگی تو ایسے برے وقت میں بھی دیوبند اور اس کے خوشہ چینوں نے نہ صرف یہ کہ اردو زبان کو اپنے گلے کا ہار بنائے رکھا اور اس کی صحت پہ کوئی خراش آنے نہیں دیا؛ بلکہ تحریکی طور پر بھی اس کے حقوق کی بازیابی کے لیے علمِ جہاد بلند کیا۔ دیوبند کے فاضل ، ممتاز عالمِ دین اور معروف مصنف و سیاست داں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی  نے پارلیامنٹ کے اندر بھی اور اس سے باہر بھی اردو زبان کو انصاف دلانے کے لیے پوری قوت سے آواز اٹھائی اور آخری دم تک اس کے لیے لڑتے رہے ۔ ۱۹۵۱ء میں انجمن ترقی اردو کے تحت یوپی کے گورنر سے اردو کے حقوق کے مطالبے کا موقع ہو یا ۱۹۵۴ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی دستخطی مہم ہو یا پھر ڈاکٹر تارا چند کی زیرِ صدارت ۱۹۵۸ء کی اردو کانفرنس ہو ،پوری چاق چوبندی کے ساتھ مولانا سیوہاروی ہر جگہ کھڑے رہتے اور ہر حال میں حاضر رہتے ۔ بہ قول ابرار احمد اجراوی کہ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۱ء تک انجمن ترقی اردو کی دہلی شاخ کے ممبر رہے اور کسی میٹنگ سے کبھی غیر حاضرنہ رہے؛ یہاں تک کہ اس کی آخری میٹنگ (۲۵ نومبر ۱۹۶۱ء) میں شدید بخار و کھانسی کے با وجود کمبل اوڑ ھ کر حاضر ہوئے ۔ (ادب امکان ، ابرار احمد اجراوی، مہتاب پبلی کیشنز، نئی دہلی، ۲۰۱۴ء ،ص: ۱۹۷)
ابراراجراوی نے معروف ناقد اور انجمن ترقی اردو ہند کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری آل احمد سُرور کے حوالے سے لکھا ہے : ” اردو تحریک میں مولانا لیڈر کی حیثیت سے نہیں ، سپاہی کی حیثیت سے انجمن کا کام کرتے تھے ، جہاں مولانا کی ضرورت محسوس ہوئی بھیج دیا ، جہاں دقت ہوئی مولانا نے سلجھا دی ، جہاں اختلاف ہوا مولانا کی وجہ سے دور ہو گیا “ ( روزنامہ ” الجمعیة “ مجاہد نمبر (۱۹۶۳ء) ص: ۱۳۲، بحوالہ ادب امکان ، ص: ۱۹۹) اردو کے تحفظ و بقا اور ترویج و اشاعت کے لیے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کے جذبہٴ خلوص اور غیر معمولی جد و جہد کو نظر کرنا خلافِ انصاف ہے ۔
تصنیف و تالیف:
اسی کے ساتھ فضلائے دیوبند نے اپنی گراں قدر تصنیفات سے بھی اردو زبان کے ذخیرے کو مالا مال کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ دیوبند کی تصنیفات کا بیشتر حصہ مذہبیات اور اسلامی علوم سے متعلق ہیں؛تاہم تصانیف کا تیس فی صد حصہ ایسا بھی ہے کہ جو عوام سے ہم رشتہ ہے ۔ پھر اس طرح کی کتابوں کا پنچانوے فی صدحصہ بھی اردو زبان ہی میں ہے ۔
دارالعلوم کی صد سالہ کارکردگی کے ضمن میں سید محبوب رضوی نے فضلائے دیوبند میں مصنّفین کی مجموعی تعداد (۱۱۶۴) بتائی ہے؛ جب کہ اعلیٰ پایے کے مصنفین کی تعداد (۲۷۶) درج کی ہے۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند ، ج: ۱، ص : ۴۴۶۔۴۴۵)
قرآنیات ، حدیث ، فقہ ، فلسفہ ٴ وتصوف ، تاریخ و سیرت اور ادب و لغت کے موضوع پر ایک سے بڑھ کر ایک کتابیں لکھی گئیں؛ لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں بھی دیوبند کے فضلا نے سیکڑوں کی تعداد میں کتابیں تحریر کیں ۔ ان میں بعض کتابیں اپنے موضوع کے اعتبار سے متنوع اور منفرد بھی ہیں اور بعضوں کو تو عالمی شہرت بھی حاصل ہوئی ۔ مولانا صادق علی بستوی کی غیر منقوط منظوم سیرت ”داعیِ اسلام“ ، مولانا یاسر ندیم کی ” اسلام اور گلو بلائزیشن “اورڈاکٹر رشید احمد جالندھری کی ”برطانوی ہند میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم اور دارالعلوم دیوبند “ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔
صحافت:
ہفت روزہ ’ الہلال‘ ( ۱۹۱۲ء) ، ہفت روزہ ’ البلاغ‘ ( ۱۹۱۵ء) اور ہفتہ وار ’ ہمدرد ‘ (۱۹۱۳ء) وغیرہ ابھی پردہٴ عدم میں ہی تھے کہ حضرت شیخ الہند نے اپنے دو شاگردوں : مولانا مقبول الرحمن سرحدی اور مولانا شوکت علی بنگالی کو آزادیِ ہند کی غرض سے چین کے محاذ پر روانہ کیا ۔ ان دونوں حضرات نے شنگھائی کی سیرت کمیٹی کے تحت اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اوریہیں سے ۱۹۰۵ء میں چینی اور اردو زبان کا ایک مشترک ماہنامہ ” السین “ جاری کیا جو ۱۹۰۹ء تک جاری رہا ۔(صحافت پابندِ سلاسل، ضمیر نیازی، اردو ترجمہ: اجمل کمال، ایجوکیشنل پریس ، کراچی ،۱۹۹۴ء ، ص: ۳۳۸ ) چین میں اسے اردو زبان کی پہلی اذان کہا جا سکتا ہے۔
دارالعلوم کی عمر جب اڑتالیس ہو گئی اور اس نے ۱۹۱۴ء میں اپنے آرگن ماہنامہ ” القاسم“ اور ۱۹۱۵ء میں ماہنامہ ” الرشید “ نکالنے کا فیصلہ کیا تو ا ن ماہناموں کو فارسی یا عربی زبان میں نہیں نکالا؛بلکہ ان کی زبان شعوری طور پر اردو ہی تھی؛ جب کہ اس وقت دارالعلوم میں چوٹی کے عربی و فارسی کے اسکالر موجود تھے۔
دیوبند نے دیگر موضوعات کے ساتھ صحافت کو بھی اپنی دلچسپی کا موضوع بنایا ہے اور اس راہ سے بھی اردو زبان کی زبر دست خدمات انجام دی ہیں ۔ یہاں کے فضلا نے نہ صرف یہ کہ عملی طور پر اردو صحافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا؛ بلکہ انھوں نے اردو صحافت کو ایک نیا رنگ و آہنگ بھی عطا کیا۔ اس کے ذریعے یہاں کے فضلاء نے ملک کی آ زادی میں غیر معمولی کردار ادا کیا اور ساتھ ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی دیوبند کے ان صحافیوں کا غیر معمولی حصہ رہا ہے ۔مولوی سید ممتاز علی (م:۱۹۳۶ء) مولانا مظہر الدین شیر کوٹی (م:۱۹۳۸ء)شائق احمد عثمانی (م:۱۹۷۸ء) مولانا حامد الانصاری غازی (۱۹۹۲ء) علامہ تاجور نجیب آبادی (م: ۱۹۵۱ء) مولانا سعید احمد اکبر آبادی (م: ۱۹۸۵ء) مولانا عبدا لوحید صدیقی (۱۹۸۱ء) مولانا عامر عثمانی (م: ۱۹۷۵ء) اور مولانا محمد منظور نعمانی(م: ۱۹۹۷ء) وغیرہ کو بالترتیب ’تہذیب ِ نسواں ‘، لاہور ، سہ روزہ ’ الامان ‘ دہلی ، روزنامہ ’عصرِ جدید‘ کلکتہ ، سہ روزہ ’ مدینہ‘ بجنور ، ماہنامہ’مخزن‘ و’ ادبی دنیا‘ لاہور ، ماہنامہ ’برہان‘ دہلی ، ہفت روزہ ’ نئی دنیا ‘ دہلی ، ماہنامہ ’ تجلی‘ دیوبنداور ماہنامہ ’الفرقان‘ بریلی و لکھنوٴ وغیرہ کے ذریعے کو ن نہیں جانتا ۔ ان صحافیوں نے اپنے اپنے اخبارات و رسائل کے ذریعے اردو صحافت کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ آبِ زر سے لکھے جانے قابل ہے ۔ اس کے علاوہ ہند و پاک اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دیوبند کے فضلاء کی ادارت میں نکلنے والے اخبارات و رسائل کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے جو ایک مستقل موضوع کا متقاضی ہے اوراس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ؛بلکہ اب تو گزشتہ چند سالوں سے فضلائے دیوبند نے عملی صحافت کے ساتھ ساتھ نظری صحافت میں بھی اپنی دلچسپی کا مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔دیوبند کے فضلاء میں اس وقت اردو صحافت کے منظر نامے پر مولانا اسرار الحق قاسمی ، مولانا عبد الحمید نعمانی ، مولانا ندیم الواجدی ، حقانی القاسمی ، یوسف رام پوری، عبد القادر شمس ، عابد انور ، وارث مظہری اور شہاب الدین ثاقب وغیرہ کے نام انتہائی نمایاں ہیں ۔ اسی طرح سے گزشتہ تین چار برسوں میں نئے فضلاء کا رجحان اردو صحافت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھا ہے ۔ محمد نجیب قاسمی ، غفران ساجد قاسمی ، نایاب حسن قاسمی ،شاہنواز بدر قاسمی ، شمس تبریز قاسمی ،نازش ہما قاسمی اور راحت علی صدیقیوغیرہ نوجوان نسل کی عمدہ مثال ہیں ۔
اردو اور تحریکِ آزادیِ ملک:
دیوبند نے درس و تدریس اور تصنیف و تبلیغ کے ساتھ تحریکِ آزادی اور میدانِ کارزار میں بھی اردو کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا ؛ چناں چہ جب شیخ الہند مولانا محمود حسن  نے اپنے جانباز شاگردوں اور ہم نواؤں کے ذریعے تحریکِ آزادی ٴ ہند کی پہلی اور آخری عالمی تحریک ” ریشمی رومال“ کا آغاز کیا تو اس کا سارا خاکہ اردو زبان ہی میں تیار کیا گیا تھا ۔اس تحریک کے زیرِ اثر چین میں ماہنامہ ” السین “ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ،کے علاوہ ٹوکیو جاپان سے مولانا برکت اللہ بھوپالی نے The Islamic Fraternity (1910-1912) اور ان ہی کے ذریعے امریکہ سے ” غدر“ اور فرانس سے چودھری رحمت علی پنجابی نے ” الانقلاب“جاری کیا جو متعلقہ خطے کی علاقائی زبانوں کے ساتھ اردو زبان کے مشترک اخبار و رسائل تھے ۔گر چہ ان اخبارات کی روشنی زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہو پائی، اس کے با وجود یہ اخبار صحرا میں اذان دینے اور اندھیرے میں چراغ جلانے میں ضرور کامیاب رہے ۔ اس سلسلے میں مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم نے ریشمی کپڑے پر جو تین خطوط تحریر فرمائے تھے ارد و زبان ہی میں تھے ۔ان کے خطوط کا اصل مقصدمکہ میں قیام پذیر حضرت شیخ الہند کو خطہٴ افغانستان کی سیاسی صورتِ حال سے آگاہ کرنا تھا ۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی مادری زبان سندھی تھی ، وہ فارسی کے علاوہ عربی زبان سے پوری طرح واقف تھے ، ان زبانوں میں بھی وہ خط لکھ سکتے تھے اور شیخ الہند اسے سمجھ بھی سکتے تھے ، اس کے باوجود مولانا سندھی نے عربی فارسی کی بجائے اردو ہی کو ترجیح دی ۔ اس عمل کو غیر شعوری کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛ بلکہ یہ عین شعوری اور منصوبہ بندی کے ساتھ اختیار کیاگیا ایک اہم قدم تھا ۔
لغت نویسی:
لغت نویسی میں بھی دیوبند کا بڑا اہم حصہ ہے ۔ لغت نویسی کے لیے کس قدر صلاحیت اور علمی لیاقت درکار ہوتی ہے، اس سے اہلِ نظر اچھی طرح واقف ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں کی ایک لغت بھی ایسی نہیں ہے جو خالص اردو میں ہو ؛تاہم لطف کی بات یہ ہے کہ فضلائے دیوبند کی تصنیف کردہ ہر لغت کا تعلق اردو زبان سے ضرور ہے اور وہ لغات اردو دانوں ہی کے لیے لکھی بھی گئی ہیں ۔خواہ وہ لغت قرآنی ہو یا حدیثی، فقہی ہو یا ادبی یا پھر طبی۔اس سلسلے میں مولانا ابوالفضل عبد الحفیظ بلیاوی ( م: ۱۹۷۱ء) کی ’مصباح اللغات‘ ،قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی کی ’قاموس القرآ ن‘ و ’بیان اللسان ‘ حکیم عزیر الرحمن کی ارد و ۔انگلش ’ میڈیکل ڈکشنری‘ (دو جلدیں) اور سہ لسانی ’انگریزی۔عربی ۔اردو ڈکشنری ‘ ، مولانا وحید الزماں کیرانوی کی ’ القاموس الوحید ‘ (دوجلدیں)، ’ القاموس الجدید‘ اور ’ القاموس الاصطلاحی ‘ ایسے ہی معاصر لغات میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی ’ قاموس الفقہ ‘ (پانچ جلدیں) اور مولانا ندیم الواجدی کی ’ القاموس الموضوعی‘ وغیرہ بہت مقبول و معروف ہیں ۔ غیر اردو دانوں کو اردو سے قریب لانے میں ان لغات کا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔
تراجم:
دیوبند نے تراجم کے باب میں بھی وسعت بھر حصہ لیا ہے؛ لیکن اس کا بیشتر حصہ عربی و فارسی کے ان ترجموں پر مشتمل ہے جو محض درسی ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔ ہاں کچھ ترجمے کو عمومیت ضرور حاصل ہے جن کا سرا عام اردو داں طبقے سے جا ملتا ہے ۔ جیسے قاضی سجاد حسین کا ’ مثنوی مولانا روم اور ’ دیوانِ حافظ ‘ کا ترجمہ ، مولانا محمد اسلم قاسمی کا چھ ضخیم جلدوں میں’سیرتِ حلبیہ‘ کا اردو ترجمہ اورمولانا ندیم الواجدی کا ’ احیاء العلوم ‘ کا طویل اردو ترجمہ اپنی نوعیت کا بے مثال کارنامہ ہے ۔ علاوہ ازیں قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی ، مولانا انظر شاہ کشمیری ،حکیم عزیزالرحمن ، مفتی کفیل الرحمن عثمانی، حقانی القاسمی اور مولانا نور عالم خلیل امینی وغیرہ کے نام اس باب میں انتہائی نمایاں ہیں۔
اردو یونیورسٹی :
دارالعلوم دیوبند اردو زبان کو عالمی حیثیت عطا کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہا ۔ اس کی شاندار مثال مولانا عبید اللہ سندھی کے ہاتھوں قائم کردہ کابل میں اردو کی پہلی یونیورسٹی ہے ، وہاں کا ذریعہٴ تعلیم بھی اردو تھا۔ افغانستان کے معروف محقق و دانشور پروفیسر عبد الخالق رشید نے ’ افغانستان میں اردو کی پہلی یونیورسٹی‘ کے زیرِ عنوان اپنے ایک مضمون میں اس کی تفصیل بیان کی ہے ۔ (دارالعلوم دیوبند : ادبی شناخت نامہ، ص : ۴۹)
ایسے ہی دیوبند ہی کے ایک فاضل مولانا اطہر بنگالی ہیں جو آج سے ایک سو سال (۱۳۳۸ھ) قبل یہاں سے فارغ ہوئے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے معروف عالم ِ دین اور مشہور ملی و سیاسی شخصیات میں تھے ۔ انھوں نے بنگلہ دیش کے کشور گنج کے علاقے میں دارالعلوم کے طرز پر ایک عظیم مدرسہ قائم کیا تو اس میں بھی ذریعہٴ تعلیم اردو زبان ہی کو قرار دیا ۔( تاریخِ دارالعلوم دیوبند ج : ۲، ص: ۱۴۰)جب کہ اہلِ نظر اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ بنگلہ دیش بننے کے پس پردہ دیگر اسباب و عوامل میں سے ایک اردو بنگلہ کا تنازع بھی تھا ۔ اس وقت بھی ڈھاکہ یونیور سٹی بنگلہ دیش میں شعبہٴ اردوکے ایک پروفیسر رشید احمد فاضل ِ دیوبند ہیں اور ہندوستان کے اردو کے اہم پروگراموں میں ان کی شرکت ہوتی رہتی ہے ۔
اسی طرح فضلائے دیوبند کے ذریعے ایران میں بھی اردو کا چراغ روشن ہے ۔وہاں کے بہت سے علماء اردو سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ پروفیسر سعود عالم قاسمی اپنے ایک مضمون ’ مدارس اور بیرونی ملکوں میں اردو زبان کی اشاعت ‘میں لکھتے ہیں : ” راقم نے ۲۰۱۱ء میں مشہد اور تہران کی زیارت کی ، وہاں متعدد ایسے علماء سے ملاقات ہوئی جو اردو زبان سے واقف تھے ۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جنھوں نے اردو سے فارسی زبان میں متعدد علمی کتابوں کے ترجمے کیے تھے ۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ حضرات دارالعلوم زاہدان کے تعلیم یافتہ ہیں ۔ اس مدرسے کو دارالعلوم دیوبند کے ایک قدیم فاضل مولانا عبدالعزیز قاسمی نے قائم کیا تھا ۔ یہاں فارسی کے علاوہ اردو زبان پڑھائی جاتی ہے ۔“(اردو کے فرغ میں مدارس کا کردار ، ص: ۳۹-۳۸ )
دیوبند نے اردو زبان کو عالمی زبان بنانے میں جو لا زوال کردار ادا کیا ہے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ۱۹۶۴ء میں ثقافت و سائنسی تحقیقات کے مرکزی وزیر پروفیسر ہمایوں کبیر جب دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے تو انھوں نے اپنی گفتگو میں دیوبند کی دیگر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی اردو خدمات کو بھی سراہا اور پوری قوت سے اپنے اس خیال کا برملا اظہار کیا : ”مجھے یہ معلوم ہو کر خوشی ہوئی کہ آپ کے یہاں ذریعہٴ تعلیم اردو زبان ہے ۔آپ کے یہاں جو طالبِ علم آتے ہیں ان کی زبان برمی ہو یا بنگالی ، وہ فارسی بولتے ہوں یا انڈونیشی ، انگریزی بولنے والے ہوں یا اور کوئی ان کی مادری زبان ہو ، آپ انھیں اردو میں تعلیم دیتے ہیں ، اس طرح پر آپ نے اردو کو بین الاقوامی زبان بنا دیا ہے ۔“ (تاریخ دارالعلوم دیوبند ، ج: ۱ ، ص : ۳۶۴)
تاریخ دارالعلوم کے مصنف سید محبوب رضوی مرحوم نے مذکورہ حقائق کی توضیح کرتے ہوئے فضلائے دیوبند کے دور رس اثرات کاذکر کیا ہے ۔اس ضمن میں انھوں نے جنوبی اور مشرقی افریقہ میں مقیم فضلائے دیوبند کے زیر ِ اثر وہاں کے اردو ماحول ، اردو مراسلت اور اردو اخبارات کے حوالے دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ”اس طرح دارالعلوم دیوبند نے اردو کے دائرے کو اپنے فضلا کے ذریعے سے دنیا کے تقریبا ً تمام ایشیائی و افریقی ممالک تک وسیع کر کے ہندوستان کی اس زبان کو بین الاقوامی زبان بنانے کا ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔“ (تاریخ دارالعلوم دیوبند ، ج: ۱ ، ص : ۳۶۶)
ان مختصر سطور سے بہ خوبی یہ علم ہوجاتا ہے کہ اردو کی توسیع و ترویج میں دارالعلوم دیوبند کا بھی اہم حصہ ہے اور بغیر کسی وقفے کے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اردو کی اس روشن خدمات سے انکارکوئی بھی منصف مزاج مور خ نہیں کر سکتا ہے؛ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حق ہے کہ آج تک اردو زبان کے ایسے مورخ کا زمانہ منتظر ہے ۔
ریسرچ اسکالر، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
مراجع :
۱- ادب امکان ، ابرار احمد اجراوی، مہتاب پبلی کیشنز، نئی دہلی( ۲۰۱۴ء)
۲- اردو کے فروغ میں مدارس کا کردار ، مرتب : عبد المعید قاسمی ،فلاح المسلمین الٰہ داد پور سمیتی ،فتح پور (۲۰۱۳ء )
۳- پسِ مرگ زندہ ، نور عالم خلیل امینی، ادارہٴ علم و ادب دیوبند ،(۲۰۱۰ء دوسرا اڈیشن)
۴۴-تاریخِ دارالعلوم دیوبند جلد اول ، سید محبوب رضوی ، ادارہٴ اہتمام دارالعلوم دیوبند (۱۹۹۲ء)
۵- تاریخِ دارالعلوم دیوبند ، جلد دوم، سید محبوب رضوی ، ادارہٴ اہتمام دارالعلوم دیوبند (۱۹۹۳ء)
۶- دارالعلوم دیوبند : ادبی شناخت نامہ، حقانی القاسمی ، آل انڈیا تنظیم علمائے حق ،نئی دہلی( ۲۰۰۶ء)
۷-صحافت پابندِ سلاسل، ضمیر نیازی، اردو ترجمہ: اجمل کمال، ایجوکیشنل پریس ، کراچی (۱۹۹۴ء)
۸- سہ ماہی ’ اردو بک ریویو ‘ دہلی ، اپریل تا ستمبر ۲۰۱۳ء ، مشترک شمارہ
۹- ماہنامہ’ اردو دنیا ‘ نئی دہلی ،
(بشکریہ: ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد:100 ‏، ربیع الاول 1438 ہجری مطابق دسمبر 2016

SHARE