حجاب معاملہ: کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سریم کورٹ جائے گی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا بیان 

موتیہاری: (فضل المبین)  ہندوستان کے مشہور و معروف عالم دین ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ان دنوں بہار دورے پر ہیں۔  آج وہ مشرقی چمپارن کے ڈھاکہ پہنچے جہاں مقامی علماء ، ائمہ ، دانشوروں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ۔

وہیں مولانا نے علاقہ کے مختلف مدارس کا معائنہ بھی کیا ۔ اس سلسلہ میں وہ ڈھاکہ جامع مسجد کے امام و خطیب مولانا نذر المبین ندوی کے گھر پر بھی تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے ان کے جواں سال بیٹے بدر المبین (مرحوم)  کے انتقال پر تعزیت مسنونہ پیش کیا اور وہیں رات کا قیام بھی کیا ۔

اس موقع پر انہوں نے نمائندہ سے تفصیلی گفتگو کی انہوں نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے سلسلہ میں جو فیصلہ دیا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے مغائر ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بورڈ اس معاملہ کو لیکر اپنے وکلاء سے بات کی ہے اور بہت جلد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوگا ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے شریعت کے بعض احکام میں تساہل سے کام لیتے ہیں جیسے نماز نہیں پڑھتے ہیں اور روزہ نہیں رکھتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں، پھر یہ کہ اپنی پسند کا لباس پہننا اور اپنی مرضی کے مطابق جسم کے بعض حصے کو چھپانا اور بعض حصوں کو کھلا رکھنا ہر شہری کا دستوری حق ہے، اس میں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی پابندی ، فرد کی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے گروہ موجود ہیں ، اور بہت سے مواقع پر وہ اپنی مذہبی علامتوں کا استعمال کرتے ہیں، خود حکومت بھی بعض مذہبی فرقوں کے لیے ان کی خصوصی علامتوں کو استعمال کی اجازت دیتی ہے، یہاں تک کے ان کے لیے ہوا بازی کے قانون میں ترمیم بھی کی گئی ہے، ایسی صورت حال میں مسلمان طالبات کو حجاب کے استعمال سے روکنا مذہب کی بنیاد پر تفریق کی شکل قرار پائے گی ، پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حد تک ہے اور جو معاملہ ہائی کورٹ گیا ہے وہ اسکولوں کا نہیں، کالج کا تھا، اس لیے ضابطہ کے مطابق انتظامیہ کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں تھا ۔

انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہر سطح لڑکیوں کے اعلیٰ تعلیم کا انتظام و اہتمام کریں جس کا معیار اونچا ہو ۔

انہوں نے نئی تعلیمی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کے ذریعے تیار کی گئی نئی تعلیمی پالیسی پورے ملک کو تباہ کرنے والا ہے جسے مودی حکومت 2024 تک ملک کے تمام اسکولز و مدارس میں نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے ہر قیمت پر ہمیں روکنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور اس کے لیے مسلمانوں کو ذہنی طور پر اس کے مقابلہ کی تیاری کر لینی چاہئے اور نئی قومی تعلیمی پالیسی کا سنجیدگی سے مطالعہ کر کے اس کی خامیوں اور برے اثرات کے اندیشوں سے اقتدار کو بروقت واقف کرا دینا چاہیے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو نئی تعلیمی پالیسی تیار کی ہے اس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے عقیدے پر حملے کیے گئے ہیں، ہمارے بزرگوں کی خدمات کو فراموش کر دیا گیا ہے، ایسی تعلیمی پالیسی جس میں دوسرے عقیدے کو نظر انداز کیا گیا ہے تاکہ نئی نسل اپنے بزرگوں اور آبا و اجداد کی قربانیوں سے واقف نہ ہو سکے۔ ایسی پالیسی ملک میں کسی بھی صورت میں نافذ نہیں کی جانی چاہیے، یہ نئی پالیسی پورے ملک کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com