جمہوریت کیا ہے؟

محمد افسر علی
یوم جمہوریہ ہندوستان کی ایک قومی تعطیل ہے جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے،اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا منسوخ کر کے اس دن دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا،اور دستور ہند کی عمل آوری ہوئی۔
دستور ساز اسمبلی نے دستور ہند کو 26 نومبر 1949ء کو اخذ کیا،اور 26 جنوری 1950ء کو تنفیذ کی اجازت دے دی۔ دستورِ ہند کی تنفیذ سے ہندوستان میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا۔ ہندوستان میں عوامی تعطیلات کی اہم اور لازمی تین تعطیلات میں سے ایک یوم جموریہ ہے، دیگر دو تعطیلات یوم آزادی، اور گاندھی جینتی ہیں۔
قارئین کرام !
اگرچہ ہندوستان 15 اگست1947ءکو برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا تھا، لیکن 26 جنوری 1950ء کو ہندوستانی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ اس دن ہندوستان کے آئین کا نفاذ کیا گیا،اور ہندوستان ایک خود مختار ملک اورمکمل طور پر ایک جمہوری ملک بن گیا،جس کاخواب ہمارے قائدین،لیڈران اور اکابر نے دیکھا تھا،اپنے خون جگرسے گلستاں کی آبیاری کی تھی،اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لئےجام شہادت بھی نوش کیاتھا-
ہمارا خوں بھی شامل ہے یہاں کی مٹی میں
ہمیں بھی یاد کرلینا جب چمن میں بہار آئے
چنانچہ آئینی نفاذ کے دن کے طور پر 26 جنوری کوبطور یاد گار منانے کے لئے طے کیا گیا۔
یہ دن آزادی اور جمہوریۂ ہند کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے،لہٰذا اس دن ہمارا ملک ’’ایک جمہوریہ‘‘ہونے کے ناطے اسے بطورتقریب مناتاہے۔
آبادی کے لحاظ سے ہندوستان، دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی، غیرمذہبی جمہوریت ہے۔ اس کے دستورکی کچھ اہم خصوصیات ہیں۔ آئین ہندنے یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کے لئے خود مختار بنایا ہے اور ہندوستانی عوام کوسرچشمۂ اقتدار و اختیار مانا ہے، جسے صاف الفاظ میں دستورکی تمہیدمیں بیان کر دیا گیا ہے۔ دستور نے پارلیمانی طرزکی جمہوریت کے سامنے کابینہ کواپنے فیصلے، قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لیے جوابدہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلاتفریق مذہب و ملت ’’ایک مشترکہ جمہوریت‘‘ میں پرو دئےگئے ہیں۔ اس میں مذہب کی اہمیت کابھی اعتراف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا، اس لئے دستورکی 42 ویں ترمیم کی روسے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے، جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پورا موقع مل سکتا ہے.
محترم قارئین!
آئین کی رو سے ہر ہندوستانی شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب حاصل ہے۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب، تمدن، زبان کو قائم رکھیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کریں,اس غرض کے لیے اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں، ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے کے لیے مجبورنہیں کیا جا سکتا، جو کسی مذہب کی تبلیغ و اشاعت پر خرچ کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اوقاف، مساجد، مدارس کی جائیداد اور ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ اسی طرح شخصی آزادی کاتحفظ، متعدد دفعات کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کسی شخص کو صرف اسی وقت سزادی جاسکتی ہے کہ لگایاگیا الزام، قانون کی نگاہ میں جرم بھی ہو۔ چنانچہ کسی شخص کو مقدمہ چلائے اورصفائی پیش کئے بغیر کسی قسم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔
مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا، لیکن جو دہشت گرد گرفتار ہوتا ہے، وہ مسلمان ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس الزام میں گرفتار ہونے والے تو سارے مسلمان نہیں ہوتے، البتہ بری ہونے والے مسلمان ہوتے ہیں۔ 16 سالہ محمد عامر خان کو 1996 میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 14 سالوں کے بعد اسے عدالت نے بے گناہ قرار دیا۔ اسی طرح ایک نہیں، کئی مسلمان عدالت سے باعزت بری کئے گئے۔ دستور کی دھجیاں اڑا کر ناجائز گرفتاریوں کا جو آج سلسلہ جاری ہے،ا قلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالہ سے جوصورت حال ہے، اس کا اندازہ ستمبر 2012 میں جاری ’’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘‘ (این سی آر بی) کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے (جس کا حوالہ اسی پارلیمانی اجلاس کے دوران راجیہ سبھا میں سابق مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے بھی دیا تھا)
یہ اصول ایسے نمونے پیش کرتے ہیں، جن پرعمل کرکے، جب کہ زبردست قوت نافذہ کی بھی فراوانی ہو، ایک منظم سماج کی بنیادپڑسکتی ہے,دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے یہ اصول کافی ہیں، لیکن زمینی حقیقت اس سلسلہ میں ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے
اے کاش ! ایساہوتا کہ پھر اس ہندوستان میں ان قوانین اور اصول کی پاسداری کرنے والے حکومت سنبھالتے
اور فرقہ پرست طاقتوں کو ہندوستان سے انگریزوں کی طرح مار بگھاتے

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا –
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا –

SHARE