کویت کی مسجدیں

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

 امسال رمضان المبارک میں ایک عشرہ کویت میں گزارنے کا موقع ملا _ وہاں کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو برس سے عمومی اجتماعات بند تھے ، اب ان کا آغاز ہوا ہے تو تحریک اسلامی کے ذمے داروں کی خواہش ہوئی کہ میں ان کے درمیان کچھ وقت گزاروں ، تاکہ احباب کو کچھ تحریک ملے اور ان کی تربیت ہو، روزانہ کبھی دو ، کبھی تین پروگرام ہوتے تھے _ وہاں کی بہت سی مساجد میں نماز ادا کرنے کا موقع ملا _ کچھ مساجد قدیم تھیں ، تقریباً 70 برس پرانی ، کچھ نئی ، خوب صورت طرزِ تعمیر کا نمونہ _ ان میں المسجد الکبیر شاید سب سے بڑی ، عالی شان اور خوب صورت ہے۔ یہ تمام مساجد وزارۃ الاوقاف کے ماتحت ہیں اور ان کا نظم بہت عمدہ ہے _ ان مسجدوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی _ ان کی جن چیزوں نے متاثر کیا وہ درج ذیل ہیں :

 ہر نماز اول وقت میں ہوتی ہے _ وقت شروع ہوتے ہی اذان ہوتی ہے ، اس کے 10 یا 15 منٹ کے بعد جماعت کھڑی ہوتی ہے۔ نظام الاوقات کے اسکرین بورڈ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ جماعت کھڑی ہونے میں کتنے منٹ باقی ہیں اور اگلی جماعت کتنے گھنٹے کے بعد ہوگی؟

 ہر مسجد میں قرآن مجید کے نسخے بڑی تعداد میں نظر آئے _ طاقوں میں سجے ہوئے نہیں ، بلکہ پوری مسجد میں پھیلے ہوئے _ چھوٹے سائز کے ، اوسط سائز کے اور بڑے سائز کے بھی _ رحلیں چھوٹی بھی اور اونچی بھی ، جن پر مصحف رکھ کر ، کرسی پر بیٹھ کر تلاوت کی جاسکے _ مختلف زبانوں میں تراجم قرآن بھی نظر آئے۔

 تلاوتِ قرآن کرنے والوں کا انداز بھی جدا جدا نظر آیا _ کوئی قعدہ کی پوزیشن میں بیٹھ کر تلاوت کررہا ہے ، کوئی کھمبے ، دیوار یا فرشی کرسی سے ٹیک لگاکر ، کوئی کرسی پر بیٹھ کر _ امام کے برابر میں میز کرسی کا نظم ہے ، جس پر بیٹھ وہ کسی نماز کے بعد درس دیتا ہے۔

 ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی تو وہاں خطبہ اردو زبان میں سن کر تعجب ہوا _ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جن علاقوں میں اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں اردو میں خطبۂ جمعہ کا نظم کیا گیا ہے۔

 کویت میں وزارتِ اوقاف کی جانب سے ‘جالیات’ کا نظام منظور شدہ ہے ، یعنی دیگر ممالک کی دینی تنظیموں کو اپنی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے _ بعض مساجد ان کے انتظام میں دے دی گئی ہیں ، جن میں وہ اپنے پروگرام کرسکتے ہیں _ وزارتِ اوقاف اور ان جالیات کے درمیان اچھا ربطِ باہمی ہے _ وزارتِ اوقاف کے ایک پروگرام میں شرکت کرنے کا موقع ملا تو وہاں مختلف جالیات کے ذمے داروں سے ملاقات ہوئی۔

 تمام مسجدیں ایر کنڈیشنڈ ہیں _ جگہ جگہ ٹشو پیپر کے ڈبے اور پانی کی بوتلیں وافر مقدار میں فراہم ہیں _ افطار کے لیے کھجوریں بھی ہیں _ باہر پارکنگ کا اچھا نظم ہے _ حمام اور وضو خانے بڑی تعداد میں اور صاف ستھرے ہیں _ مسجد کی عمارت سے متصل دوسری عمارت امام ، مؤذن اور مسجد کے عملہ کے لیے ہوتی ہے ۔

 وہاں تراویح کی 8 رکعتیں پڑھنے کا معمول ہے (گنتی کی چند مساجد میں 20 رکعت پڑھی جاتی ہے) امام بہت خوش الحانی ، تجوید اور ترتیل سے ساتھ ہر رکعت میں قرآن مجید کی چند آیات پڑھتا ہے _ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ختمِ قرآن کا رواج نہیں)تراویح کے بعد وتر کی تین رکعتیں دو سلام سے پڑھی جاتی ہیں _ تیسری رکعت میں دعائے قنوت کے ساتھ دیر تک اور بھی دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔

 ایک خاص بات یہ دیکھی کہ ہر مسجد میں خواتین کے لیے علیٰحدہ نظم ہے _ وہ جمعہ ، تراویح اور بعض دیگر نمازوں کے لیے مسجد آتی ہیں _ ان کا باب الداخلہ الگ ہے اور ان کے مرکزی دروازے پر ‘مصلّی النساء’ لکھا ہوا ہے _ کسی طرح کا اختلاط اور بے پردگی نہیں ہوتی _ یہ دیکھ کر خیال آیا کہ کاش برِّ صغیر کے مسلمانوں نے بھی اسی طرح ہر مسجد میں خواتین کے لیے نظم کیا ہوتا _ جب اللہ کے رسول ﷺ نے خواتین کو مسجدوں میں آنے کی اجازت دی ہے اور مردوں کو صراحت سے منع کیا ہے کہ وہ انہیں مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں تو فتنہ اور اندیشہ کے نام پر ان کے مسجد میں آنے کو مکروہ تحریمی کہنے کا انہیں کیا حق پہنچتا ہے؟ مسجدوں میں خواتین کے لیے علیٰحدہ انتظام نہ کرنا انہیں مسجدوں سے روکنا ہی تو ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com