یوپی کا دنگل!

خالد انور پورنوی المظاہری
رام مندرکی سیاست پھرسے شروع ہوگئی ہے، جنہیں مسلمانوں سے سخت نفرت ہے وہی مسلم عورتوں کے حقوق کی بات کرنے لگے ہیں، تین طلاق، گؤکشی، اور دیگر حساس موضوعات کے رتھ پر سوار ہوکر یوپی کا الیکشن جیتنے کیلئے تمام جائز و ناجائز حربوں کا استعمال شروع ہوچکا ہے، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گی یہ تو بعد کی بات ہے،لیکن ابھی سے اپنی حکومت کے سپنے لوگوں کو دکھانے میں لگے ہیں، نوٹ بندی کی مار جھیل رہے عوام کو خوش کرنے کیلئے وعدے پر وعدے کئے جارہے ہیں، مگر کیا ہوگا فیصلہ ؟ اس دنگل میں کون بازی مارے گا؟ یہ فیصلہ بھی آپ ہی کو کرنا ہے!
ویسے تو اترپردیش، پنجاب، گوا، اتراکھنڈ اور منی پورہ پانچ ریاستوں میں 4؍فروری سے 8؍مارچ تک انتخابات ہورہے ہیں، مگر لوگوں کیلئے سب سے زیادہ دلچسپ یوپی کا اکھاڑہ ہے، یہیں سے ملک کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، شاید اسی لئے ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد بھی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، ہم دیکھ کر حیران ہیں اور جن کے پاس روکنے کی طاقت ہے وہ خاموش نظر آتے ہیں۔
جمہوریت میں بے شک سر گنے جاتے ہیں، اور یہاں صرف اکثریت سے مطلب ہے، کوئی ضروری نہیں کہ جس پارٹی کی حکومت بن جائے وہ عوام میں بے حد مقبول بھی ہو، اسی لئے کچھ لوگ ووٹوں کی تقسیم سے بچنے کی اپیل کرتے ہیں، تو کچھ لوگ ووٹوں کی تقسیم کی فکر میں رہتے ہیں، اور 30 سے 40 فیصدی تک میں بآسانی ان کی حکومت بھی بن جاتی ہے، اور 60 سے زائد فیصدی ووٹ ردی کی ٹوکری میں!
اتنے بڑے جمہوری ملک میں انتخابی ایجنڈوں، دعوؤں کو دیکھ کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے، اقتدار کے حصول کیلئے پارٹی عوام کو لبھانے میں لگی ہے، دعوے پر دعوے کئے جاتے ہیں، اور عوام کی ہمدردی اور خیرخواہی کا ڈھول خوب بجتا ہوا سنائی دیتا ہے، مگر الیکشن تک، اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے تک، حکومت بننے کے بعد سمجھ میں آتا ہے یہ تو صرف انتخابی جملہ تھا، اور کچھ بھی نہیں۔
انتخابی موسم میں تو دلتوں کے گھر میں بھی بیٹھ کر لوگ کھانے کا نوٹنکی کرتے ہیں، اور اپنے سیاسی فائدہ کیلئے چھوا چھوت پر یقین رکھنے والے لوگ دلتوں سے گلا ملتے ہوئے بھی خوب دکھائی دیتے ہیں، کسانوں، مزدوروں اور ترقی کی رفتارسے بہت نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی فلاح اور ترقی کیلئے نئی نئی اسکیموں کا اعلان ہوتا ہے، اور خوب خوب ڈھنڈورا پیٹے جاتے ہیں، مگر افسوس کہ اس پر عمل کرنے کیلئے کسی کے پاس بھی حوصلہ نہیں ہے۔
اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں، کوئی بھی دودھ کا دھلا نظر نہیں آرہا ہے، ہر ایک کا دامن مسلمانوں، اقلیتوں، اور دلتوں کے خون سے داغدار ہے، ہاں کسی کو اس میں اول مقام حاصل ہے، کسی کو دوم، اور کسی کو تیسرا مقام، مگر سب نے مل کر گاندھی جی، بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ خان کے اس دیش میں ظلم و ستم کی ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ لکھتے ہوئے ہماری روح کانپ اٹھتی ہے، مگر پھر الیکشن آتے ہی وہ قوم کے ہمدرد ہوجاتے ہیں، اور قوم کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ بڑی آسانی سے انہیں معاف بھی کردیتی ہے۔
ہم مسلمانوں کا کیا؟ ہم تو اس دنگل میں ہیں ہی نہیں، اور نہ ہم اس لائق ہیں، صرف ووٹ دینے پر یقین رکھتے ہیں، اور اس پر بھی انتشار کا شکار ہیں، 70؍سالوں سے ہر کوئی ہمارا استحصال کرتا رہا ہے، اور ہم اپنے وجود اور تحفظ کی بھیک مانگتے رہے ہیں، ہاں! الیکشن کے موقع پر ہر پارٹیاں کاسہ گدائی لیکر مسلمانوں کے پاس ضرور پہونچ جاتی ہیں، اور ہم انہیں بڑی آسانی سے معاف بھی کردیتے ہیں، اور بغیر کسی ایگریمینٹ کے ووٹ جیسی قیمتی چیز کو ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔
صاف ستھری سیاست ہو، اچھے، سچے اور ایماندار شخص کا انتخاب ہو، یہ ایک سپنا ہے ہمارا اور اب نہیں لگتا ہے کبھی یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا، آج دیکھا جاتا ہے ووٹ مانگنے والے شخص پر ہزاروں مقدمات اور کیسیز درج ہوتے ہیں، چھوٹے موٹے نہیں، اتنے بڑے کہ پانچ سال سے زیادہ کی سزا تک ہوسکتی ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ وہ آستھا، عقیدہ اور مذہب کی بات کرتا ہے، آستھا اور مذہب کی بات سن کر بآسانی لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں، اچھے لوگ انتشار کے شکار ہوجاتے ہیں، اور کریمنل لوگ پارلیامنٹ اور اسمبلیوں میں پہونچ جاتے ہیں، ظاہر ہے جیتنے کے بعد عوام کی خیرخواہی ان کے پیش نظر نہیں ہوسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا یقیناً ہم خیر مقدم کرتے ہیں کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا غلط ہے، اور اس کی اجازت ایک جمہوری ملک میں نہیں دی جاسکتی ہے، مگر زمینی سطح پر اس پر عمل کب ہوگا؟ یہ دیکھنے والی بات ہے، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یقیناً بہتر حکومت کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے،مگر اب تک اس کے خلاف ہوتا آرہا ہے، اور آج بھی یوپی میں دیکھنے کو مل رہاہے، جبکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے زیادہ دن بھی نہیں گذرے ہیں، ایسے موڑ پر ہمارے سیاسی آقائیں اگر عدالت عالیہ کے فیصلہ کا احترام نہیں کرتے ہیں تو پھر عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ووٹ کی چوٹ سے بے لگام نیتاؤں کو لگام کسیں، اگر ایسا کرنے میں ہم اور آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقیناً اچھے رہنماؤں کا انتخاب ہوسکتا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کا کام یقیناً اُلو سیدھا کرنا ہے، اور اچھے دنوں کا خواب دکھاکر حکومت کی چابی حاصل کرنا ہے، اور بس، پھر پانچ سال موج، مستی، عیاشی، دنیا بھر کا سیر کرنا، اور کچھ بھی نہیں، اب جنتا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حساب مانگے، مہنگائی کم ہوئی؟ ریل کرایہ گھٹا؟ رشوت خوری کم ہوئی؟ کالا دھن واپس آیا؟بینکوں میں 15؍لاکھ آئے؟ بے روزگاری کم ہوئی؟ سالانہ دو کروڑ نوکریاں ملیں؟ نوٹ بندی سے دیش کو فائدہ ہوا؟ اگر انتخابی وعدوں کو ہم ہی بھول جائیں گے تو یقیناً ہمارا صرف استحصال ہوتا رہے گا۔
بات یقیناً سوچنے والی ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی ہے، مہنگائی آسمان چھونے لگی ہے یہ کوئی موضوع نہیں ہے، گاؤں، دیہاتوں میں ابھی تک بجلی نہیں پہونچی ہے، سڑکوں کی حالت خستہ ہے، اس جانب کوئی پہل نہیں، ہاں ان سارے مدعوں سے بھٹکانے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے رام مندر کا شوشہ ضرور چھوڑا جاتا ہے، اور ہم بھی بے وقوف ہیں کہ ترقی اور حکومتی کارگردگی کا حساب مانگنے کے بجائے کسی کے بھی بہکاوے میں آجاتے ہیں۔
اترپردیش ہندوستان کی بہت بڑی ریاست ہے، یہاں پر 80؍ پارلیمانی اور 403؍اسمبلی حلقے ہیں، اسی لئے سب کی نظر اسی ریاست پر ٹکی رہتی ہے، مسلمانوں اور سیکولر لوگوں کیلئے یقیناً یہاں کا الیکشن کسی آزمائش سے کم نہیں ہے، نہ تو ہمارا ووٹ ضائع ہوپائے، اور نہ بٹنے پائے، ان دونوں باتوں کی طرف توجہ دینی کی ضرورت ہے اور سختی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے!
آسام، مغربی بنگال، اور کیرالہ کے بعد یوپی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، سرکاری سروے کے مطابق 19% اور غیرسرکاری تنظیموں کے مطابق 22% مسلمانوں کی آبادی اس ریاست میں ہے، یہاں 80؍ پارلیمانی حلقہ میں سے 53؍ اور 403؍ اسمبلی حلقوں میں سے 312؍ حلقہ ایسے ہیں جہاں ان کا اثر و رسوخ ہے ، 209؍ اسمبلی ایسے ہیں جہاں مسلمان اپنی پسند کے مطابق زیادہ سے زیادہ مسلم ممبران کو اسمبلی بھیج سکتے ہیں، اور اپنے من پسند حکومت کی تشکیل بھی کرسکتے ہیں؛ لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں کا زمینی کوئی لیڈر نہیں؛ اس لئے ایک عام پنچایت سے لیکر اسمبلی اور پارلیمامنٹ تک مسلم نمائندگی میں کمی نظر آتی دکھائی دے رہی ہے۔
2012ء کے اسمبلی انتخابات میں کل67؍ مسلم ممبران منتخب ہوئے تھے یوپی سے، جب کہ 63؍مسلم امید وار ایسے تھے جو چند سو ووٹ سے ناکام رہ گئے تھے، یعنی 130؍مسلمان اسمبلی کے ریس میں تھے، اگر تھوڑی سی حکمت عملی تیار ہوتی تو اترپردیش کی اسمبلی میں مسلمانوں کی تعداد 105؍ سے 115؍تک جاسکتی تھی، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔
رامپور میں مسلمان 52%، میرٹھ میں 53%، مرادآباد میں 46%، امروہہ میں 44%، بجنور میں 42%، کیرانہ میں 39%، مظفرنگر میں 38%، سنبھل میں 36%، بریلی میں 25%، سرسوتی میں 23%، جونپو رمیں21%، بدایوں، علی گڑھ، اعظم گڑھ، سیتاپور، کھیری، ڈمریا میں 20%، فروخ آباد، سلطان پور، وارانسی، غازی پور، گھوسی میں 18-19% مسلمان بستے ہیں، لیکن مسلمانوں کا ووٹ بٹ گیا اور اپنی پسند کا امیدوار وہ نہیں چن سکے۔
2014ء کے پارلیمانی انتخاب کو دیکھئے! یوپی میں محض 42% ووٹ حاصل کرکے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو 80؍ میں سے 73؍ سیٹوں پر کامیابی مل جاتی ہے، اور 50% سے زائد ووٹ میں صرف 7؍ سیٹ۔ اس سے یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی عوام میں جمہوریت اور سیکولرزم آج بھی زندہ ہے، اور وہ سیکولرازم پر ہی یقین رکھتی ہے، ہاں!حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ بازی مارلیتے ہیں، جو توڑنے کی سیاست اور نفرت کی سوداگری پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ بات یقیناً سمجھنے کی ہے کہ ہندوستان میں برہمنوں کی تعداد صرف3% ہے، اور 97% آبادی پر وہ نہ صرف حکومت کررہی ہے بلکہ ان کی قسمت اور سیاہ و سفید کے فیصلے بھی کرتی ہے، عوام کے جذبات کا استحصال کرکے بڑی آسانی سے ووٹ اپنی جھولی میں بھر لیتی ہے، مگر افسوس ہے ہمارے دلت بھائیوں پر جنہیں مندر میں جگہ نہیں ملتی ہے، مگر رام مندر کے نام پر وہ کیوں اپنے سیکولر ووٹوں کو ضائع کردیتے ہیں۔
آزادی کے بعد سے ہمیشہ ہندوستان میں اقلیتوں، دلتوں اور مسلمانوں پرظلم و جبر ہوتا رہا ہے، اور ان کے مکمل پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار کی اونچائی تک پہونچنے سے ہمیشہ سے ہی قاصر رہے ہیں، نہ جانے کتنے دنگلوں میں انہوں نے حصہ لیا ہے، لیکن سیاسی دنگل کے پہلوان اب تک نہیں بن سکے، لیکن یہ ضرور ہے کہ سیاسی پہلوانوں کی تقدیر کا فیصلہ انہی کے ووٹ سے ہوتا رہا ہے، اور آج بھی یوپی کی تمام سیاسی پارٹیاں انہیں دونوں کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں، اب فیصلہ آپ کو کرناہے!
اترپردیش کے دبے کچلے لوگوں، دلتوں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا یقیناً اس ملک کیلئے بہتر نہیں ہے، ہمارے قائدین کو بڑی حکمت عملی سے ان کے پاس جاجا کر بتانے، سمجھانے اور رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے، اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے بچنے کیلئے تمام جائز حربوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہمیں امید ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں ضرور شکست سے دوچار ہونگی۔ ان شاء اللہ

SHARE