جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

محمد افسر علی
غیر منقسم ہند وپاک میں انگریزی دورحکومت میں مسلمانوں پر جس طرح علمی وعملی زوال آیا وہ اپنے اندر ایک الگ کربناک داستان لئے ہوئے ہےـ
اس دور میں کچھ ایسی فضا ہموار کی گئ کہ عوام الناس کا تعلق اہل علم حضرات سے دھیرے دھیرے کٹتا گیا،اور عوام الناس کی فکری اور تعمیری ذہن پر اسلامی رنگ کے بجائے مغربی سیاہ بادل چھانے لگے،جس سے مسلمانوں میں ایسا زبردست فکری انحطاط آیا کہ خود مسلمانوں نے دائرہ اسلام کو جو کہ معہد سے لے کر لحد تک ساری زندگی پر محیط تھا سمیٹ کر صرف نماز،روزہ تک محدود کر لیا اور وہ شعائر جو مسلمانوں کی دین وتشخص کا نشان تھے بتدریج دھندلے ہوتے چلے گئے
جب اس بے فکری ولا علمی کی بدولت مسلمانوں کی رغبت جمہوریت،سوشلزم اور کمیونزم وغیرہ جیسے لادینی نظام ہائے حکومت کی طرف ہوگئی بالآخر مسلمان بے دست وپاہوکر جمہوریت کے شکنجے میں اس طرح جکڑے گئے کہ تقسیم کے بعد بھی فرنگی کا دیا ہوا نظام رائج رہا اور اب یہ اتنا راسخ ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کےلئے اس کے منفی پہلوﺅں کو جانتے ہوئے بھی اس سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہورہا ہے موجودہ دور میں جبکہ ہر طرف سے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں مسلمانوں کو ووٹ بینک سمجھا جارہا ہے مسلمانوں کو اپنے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے مسلمان تعلیمی،سیاسی،معاشی، ہر اعتبار سے غیروں سے پیچھے ہوتے جارہے ہیں تو ایک درد مند دل رکھنے والے مسلمان کو کیا کرنا چاہئے؟
وہ اپنی بساط کی حد تک اپنے حلقہ میں اسلام کے نفاذ اورمسلمانوں کی ترقی کےلئے کیا عملی اقدام کرسکتا ہے؟
اورافراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس لادینی ماحول میں نفاذ اسلام کی جد وجہد میں کس قدر حصہ لےسکتا ہے؟
اس جیسے بے شمار سوالات جو مسلمان کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں،یا ایک جماعت کو اپنے منشور ودستور پایہ تکمیل تک پہونچانے میں کس طرح کی لائحہ عمل کی ضرورت ہے؟
یہ اور اس جیسے متعدد ابھرتے ہوئے سوالات کے شافی جواب کے لئے یہ سمجھنا ضرور ہے کہ اسلام میں سیاست کا کیا مقام ہے؟
آج کی دنیا میں جو سیاسی نظام قائم ہیں،ان کے پیش کئے ہوئے تصورات لوگوں کے دل ودماغ پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ ان کے اثرات سے اپنی سوچ کو آزاد کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے ان سیاسی نظاموں نے کچھ چھیزوں کو اچھا کچھ کو برا قرار دے کر اپنے ان نظریات کا پروپیگینڈہ اتنی تشدد کے ساتھ کیا ہے کہ لوگ اس کے خلاف کچھ کہنے یا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے اول تو اس لئے کہ پروپیگنڈہ کی مہیب طاقتوں نے ذہن ہی ایسا بنادئے ہیں کہ انہوں نے ان نظریات کو ایک مسلم سچائ کے طور پر قبول کرلیاہے،اور دوسرے اس لئے کہ اگر کوئ شخص عقلی طور پر ان نظریات سے اختلاف بھی رکھتا ہوتوان کے خلاف کچھ بولنا دنیا بھر کی ملامت اور طعن وتشنیع کو دعوت دینے کے مترادف ہے،لہذا وہ خاموش ہی رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں..
اسی بناء پر جب آج کی دنیا میں اسلام کی سیاسی تعلیمات کی تشریح کی جاتی ہے تو اچھے اچھے لوگ (جن میں بہت سے علماء بھی داخل ہیں)اپنے ذہن کو زمانے کے ان ماڈرن،فیشن ایبل،جدید تصورات سے آزاد نہیں کرپاتے،اور اسکے نتیجہ میں جب وہ اسلام کے مطلوب سیاسی ڈھانچے کی تفصیلات بیان کرتے ہیں تو ان تصورات کو مستعار لےکر اس ڈھانچے میں فٹ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں،اور اس طرح اس نازک موضوع پر التباس اور خلط مبحث کی اتنی تہیں چڑھتی چلی گئی ہیں کہ حقیقت حال چھپ کر رہ گئ ہے-
اسلام میں سیاست کا کیا مقام ہے؟
کیا اسلام اور سیاست میں تضاد ہے؟
کیا سیاست اسلام سے خارج ہے؟
کیا سیاست میں علماء حصہ نہیں لے سکتے؟
کیا علماء کو سیاست میں نہیں آنا چاہئے؟
اور اس جیسے ہزاروں سوالوں کے جوابات جاننے کےلئے انتظار کریں اگلے مضمون کا

سب سے پہلا مسئلہ یہ ہیکہ دین میں سیاست کا مقام کیا ہے؟
اور دین میں ایک سیاسی نظام کے قیام کی اہمیت کس درجہ میں ہے؟
عیسائیت کا یہ باطل نظریہ بہت مشہور ہے کہ”قیصر کا حق قیصر کو دو”اور کلیسا کا حق کلیسا کو دو” جس کا حاصل یہ ہیکہ مذہب کا سیاست میں کوئ عمل دخل نہیں ہے،اور مذہب وسیاست دونوں کا دائرۂ عمل مختلف ہے، دونوں کواپنے اپنے دائرے میں ایک دوسرے کی مخالفت کے بغیر کام کرنا چاہئے، دین وسیادت کا یہی نظریہ عہد حاضر میں ترقی کرکے “سیکولرزم” کی شکل اختیار کرگیا جو آج کے نظام ہائے سیاست میں مقبول ترین نظریہ سمجھا جاتاہے-
ظاہر ہیکہ اسلام میں اسلام میں اس نظریے کوئ گنجائش نہیں ہے،اسلام کی تعلیمات چونکہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں جن میں سیاست بھی داخل ہے،اس لئے اسلام میں دین ومذہب سے بے تعلق رکھنے کا کوئ جواز موجود نہیں ہے- چناچہ عہد حاضر میں بہت سے مسلمانوں نے عیسائیت اور سیکولرزم کے اس باطل نظریے کی پرزور تردید کی،اور یہ ثابت کیا کہ سیاست کو دین سے الگ نہیں کیا جاسکتا، بقول اقبال مرحوم- ؏

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

لیکن سیکولرزم اور دین وسیاست کی تفریق کرتے ہوئے بہت سے مسلمان مفکرین اور اہل قلم سے ایک نہایت باریک غلطی واقع ہوگئی جو دیکھنے میں بڑی باریک اور معمولی تھی،لیکن اس کے اثرات بہت دور رس تھے –
اس باریک غلطی کو ہم مختصر لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو اسے اس طرح تعبیر کرسکتے ہیں کہ انہوں نے “سیکولرازم” کی تردید کے جوش میں سیاست کو اسلامی بنانے کے بجائے اسلام کو سیاسی بنادیا، کہنا یوں تھا کہ سیاست کو دین سے الگ نہ ہونا چاہئے لیکن کہا یوں کہ دین کو سیاست سے الگ نہیں ہونا چاہئے اس اجمال کی تفصیل یہ ہےکہ اسلام کے بہت سے احکام سیاست وحکومت سے متعلق ضرور ہیں اور ایمان کاتقاضا بھی یہ ہےکہ ہر مسلمان اسلام کے دوسرے احکام کی طرح ان احکام پر بھی بقدر استطاعت عمل کرنے اور کرانے کی کوشش کرے،حاکم کافرض ہے وہ اسلامی احکام کو نافذ کرے اور انہی احکام کے مطابق حکومت کرے،اور عوام کا فرض ہے کہ وہ شرعی احکام کے مطابق ایسی حکومت کے قیام کی کوشش کرے اور اگر وہ قائم ہوجائے تو اس کی اطاعت کریں، لیکن عہد حاضر کے بعض مفکرین اورمصنفین نے جنہوں نے سیکولرازم کی تردید میں کام کیا، تردید کی جوش میں اس حدتک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے سیاست اور حکومت کو اسلام کا مقصود اصلی،اس کا حقیقی نصب العین اور بعثت انبیاء کا مطمح نظر بلکہ انسان کی تخلیق کا اصل ہدف قرار دیا اور اسلام کے دوسرے احکام مثلاﹰ عبادات وغیرہ نہ صرف ثانوی حیثیت دے دی،بلکہ انہیں مقصود اصلی،یعنی سیاست کے اصول کاایک ذریعہ اور اس کی تربیت کاایک طریقہ قرار دیا-
اس انتہا پسندی کا پہلا زبردست نقصان تو یہ ہوا کہ دین کی مجموعی تصویر اور اسکی ترجیحات کی ترتیب الٹ کر رہ گئ،جو چیز وسیلہ تھی وہ مقصد بن کر ہمہ وقت دل ودماغ پر چھاگئ،اور جو مقصد تھا وہ ایک غیر اہم وسیلہ بن کر پس منظر میں چلاگیا،چنانچہ اس طرز فکر کے تحت ذہن کچھ اس طرح کا بن گیا کہ ایک مسلمان کا اصل مقصدزندگی سیاست اور حکومت کی اصلاح ہوناچاہئے کام وہی کام ہے جو اس راستے میں انجام دیا جائے،قربانی وہی قربانی ہے جو اس راہ میں پیش کی جائے،اور مثالی وہی مثالی انسان وہی ہے جو اس نے اس کام کو انا اوڑھنا بچھونا بناکر دن قرار اس کےلئے وقف کر رکھے ہوں اور دین کے دوسرے شعبوں کو مثلاﹰ بارات وعبادات،زہد وتقوی،تزکیہ نفس،اور خشیت وانابت وغیرہ کی نہ صرف یہ کہ کوئ خاص اہمیت باقی نہ رہی،بلکہ جو شخص ان کاموں میں مشغول ہو اس کے بارے میں یہ تصور قائم کردیا گیا کہ گویا وہ مبادی میں الجھا ہوا ہے اور دین کے بنیادی مقاصد سے دور ہے۔
(جاری ہے)
Afsarqasmi0@gmail.com