سر سید احمد خاں: ایک عظیم رہنما

علیزے نجف

سر سید احمد خاں کا شمار ہندوستان کی ان معتبر شخصات میں ہوتا ہے جنھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی تقدیر کو بدلنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ اور اسے پایہء کمال تک پہنچانے کے لئے اپنے شب وروز کو وقف کر دیا تھا ۔

سر سید احمد خاں 17 اکتوبر 1817ء کو دہلی کے ایک معزز خانوادہ میں پیدا ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں اکبر شاہ ثانی مسند نشین تھے۔ سر سید احمد خان کا خاندان شاہجہاں کے عہد سلطنت میں ہرات سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا تھا۔ سر سید کی شخصیت کی ہمہ جہتی اور ان کے خیالات و نظریات نے ہندوستانی مسلمانوں پہ گہرا اثر مرتب کیا انھوں نے ادب ، صحافت، مذہب اور تعلیم کے میدان میں اپنی مجتھدانہ صلاحیتوں سے گراں قدر خدمات انجام دی ان کے افکار و نظریات میں وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی تبدیلیوں کو قبول کرنے کا عنصر پایا جاتا ہے۔ سر سید احمد خاں جس زمانے میں پیدا ہوئے تھے اس وقت یوروپی تہذیب کے اثر سے قدیم افکار و نظریات اور ہندوستانی روایات دھند زدہ ہوئی جا رہی تھی اگرچہ اعلی روایات و اقدار کو مسخ کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن گردش زمانہ ان کی ہیئت میں تغیر ضرور پیدا کر دیتا ہے۔ ایسے دور میں انھوں نے مسلمانوں کی پستی کا اور تنزلی کو بہت شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا اور ان کو اس بدحالی سے باہر نکالنے کے لیے ہر ممکن جدو جہد بھی کی تھی۔

سر سید احمد خاں بلند پایہ مفکر، مصلح، اور جامع نظریہء تعلیم کے مبلغ تھے ان کا نظریہء تعلیم بدلتے وقت کے تقاضوں کے مدنظر بہت ہی جامع اور وسیع ہے۔ انگلستان میں رہتے ہوئے انھوں نے وہاں کے معاشرتی اقدار و روایات کا بہت ہی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا اور اس بات کو تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ ان کی ترقی کا راز کیا ہے انھوں نے پایا کہ ان کا اعلی تعلیمی نظام ان کے افکار و نظریات کی نشوونما کر رہا ہے اور اسی کی بدولت دنیا کے بیشتر حصوں پہ انھیں برتری حاصل ہے انھوں نے پایا کہ اسی کمی کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان تنزلی کا شکار ہیں چنانچہ جب وہ وطن لوٹے تو اس حوالے سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کو اپنا مشن بنایا انھوں نے اپنے دور کے مسلمانوں کی صورتحال پہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کیا اور اس ابتری سے باہر نکالنے کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ ماضی کے ازکار رفتہ اور کھوئی ہوئی عظمت و سطوت کے حصار میں قید رہنے کے بجائے جدید علوم و فنون سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ایسے میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو اندھی تنقید و تقلید کے دائرے سے باہر نکال کر حقیقت پسندانہ رخ سے سوچنے کے لئے آمادہ کیا انھوں نے اپنی بصیرت سے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ آنے والا دور سائنس کا دور ہوگا سائنس جو کہ ٹکنالوجی کا گہوارا ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تعلیمی نظریے میں جدت پیدا کریں اور وقت کی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے اس میں اپنا تعمیری حصہ ڈالیں اس کے لئے انھوں عملاً بھی بےشمار کوششیں کیں سرسید نے عملی طور پہ مختلف مقامات پہ اسکول قائم کئے غازی پور، مرادآباد، علی گڈھ، میں کئی مدارس کا قیام عمل میں آیا سرسید کے عملی اقدام کی جیتی جاگتی روشن مثال مدرسۃ العلوم کا قیام ہے جو بعد میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بنا اور آج کی تاریخ میں یہ ادارہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی روشن تاریخ سرسید احمد خاں کے نظریات کی ترجمانی کرتی ہے۔

سر سید احمد خاں نے ہمیشہ اس بات پہ زور دیا کہ ہندوستانی مسلمان تعلیم کے میدان میں ممتاز مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ تعلیم ہی ہے جو ان کی پستی کو بلندی میں بدل سکتی ہے اس حوالے سے وہ حکومت پہ انحصار کرنے کے بجائے خود نجی ادارے قائم کر کے اپنی قوم کی خدمت کریں اور ایسا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم بنائیں جو کہ تعلیم کے ساتھ تربیتی عناصر پہ بھی خاطر خواہ توجہ دے سکے ماضی کی صالح روایات کے ساتھ جدید علوم و فنون کو ایک ساتھ لے کے چلا جا سکے انھوں نے ایسے دور میں جدید تعلیم کی ضرورت کو سمجھا جبکہ اس دور کے اکثر اکابر اپنی ماضی کی کہنہ روایات کو گلے لگائے عصری تعلیم کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے تھے وہ اس وقت اسلاف کی شاندار روایات پہ قصیدہ خوانی کرتے ہوئے ماضی کے سحر میں گم تھے ایسے میں سر سید احمد خاں نے ان سے ہٹ کر ایک الگ روش اختیار کی اور عملی سطح پہ اس کے لئے باقاعدہ تحریک پیدا کی اعلی جدید اور مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھوں تربیت پہ خصوصی زور دیا۔ بقول سر سید احمد خان کے

” تعلیم و تربیت دو متفرق چیزیں ہیں اس کو ہم معنی سمجھنا ایک قسم کی بھول ہے یعنی جو کچھ انسان میں ہے اس کو باہر نکالنا انسان کو تعلیم دینا ہے اور اس کو کسی کے لائق کردینا اس کی تربیت ہے۔ مثلاً جو قوتیں اللہ نے ہم انسان میں رکھی ہیں اس کو تحریک دینا اور شگفتہ و شاداب کرنا انسان کی تعلیم ہے اور اس کو کسی بات کا مخزن و مجمہ بنانا اس کی تربیت ہے”

تعلیم و تربیت کے درمیان کس طرح کے فاصلے پائے جاتے ہیں اس کا مشاہدہ آج کے دور میں بخوبی طور پہ کیا جا سکتا ہے۔ بےشک سرسید احمد خان نے قبل از وقت تربیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس پہ لوگوں کی ضروری توجہ مبذول کرائی تھی جو کہ اتنے وسیع پیمانے پہ اپنے اثرات مرتب نہیں کر سکی جتنی کہ سر سید احمد خاں کی خواہش تھی کیوں کہ ان کے اس نظریے کی مخالفت کرنے والے بھی موجود تھے آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم مسلمان تعلیمی لحاظ سے دوسری اقوام کے مقابلے میں پسماندہ ہیں۔ اور تربیت کا حال تو اس سے بھی زیادہ برا ہے اس وقت ہمارے معاشرے میں تعلیم نے تربیت کی جگہ کو بھی ضبط کر لیا ہے لوگوں کے پاس ضرورت سے زیادہ علم تو آ چکا ہے لیکن اس کے محل استعمال اور اس کے عملی تقاضوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اعلی روایات اور صحت مند اقدار اپنی پہچان کھوتے جا رہے ہیں۔ ایک مدت تک مسلمان سائنسی علوم و فنون کو نظر انداز کر کے اپنی مذہبی تعلیمات کی حفاظت کے مفروضے میں گم رہے جب کہ سائنسی علوم اور مذہبی تعلیمات کو ایک ساتھ لے کے چلنے میں کوئی قباحت نہیں تھی ایک مدت کی غفلت کے بعد وہ اس کو قبول کرنے پہ مجبور ہوگئے کہ عصری علوم کے بغیر کسی بھی ملک میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذر جانے کے بعد بھی سرسید کے تعلیمی نظریات میں فرسودگی نہیں آئی ہے۔ سرسید احمد نے ایک ایسے دور میں آنکھ کھولی تھی جب مسلمان محکومی کی زندگی گزار رہے تھے ان کے پاس سلطنت تو تھی لیکن وہ فقط لال قلعہ کی چہار دیواری تک ہی محدود تھی مطلب برائے نام مغلیہ حکومت باقی رہ گئی تھی اور انگریزوں کا تسلط روز بروز بڑھتا ہی جا رہا تھا یہاں تک کہ جب 1857ء میں مسلمانوں نے ان سے نجات پانے کی ایک کوشش کی تو انھیں بےدریغ قتل کیا گیا یوں ان کی بدحالی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اس زوال نے ان کے دل و دماغ پہ غیر معمولی منفی اثرات مرتب کردیے تھے ان کا تعلیمی نظام بھی عدم استحکام کا شکار تھا اور اس کے ساتھ سیاسی زبوں حالی نے ان کو پسپا کر کے رکھ دیا تھا لوگوں کے ذہن میں تعلیمی پسماندگی کے تئیں کوئی بھی احساس نہیں تھا ایسے میں سر سید نے مسلمانوں کی توجہ تعلیم کی طرف مبذول کرنے کی حتی المقدور کوشش کی انھوں نے انگریز قوم سے اندھی نفرت کرنے کے بجائے ان کی ترقی کے راز کو دریافت کیا اس کے لئے انھوں نے انگلستان کا سفر کیا اور فاتح قوم کو اپنے لئے ماڈل قرار دیا۔ مسلمانوں کو مغربی علوم فکر و فلسفے اور سائنسی طرز فکر کو اپنانے کی ترغیب دی اور تقلید کے بجائے عقل و استدلال کے ذریعے معاملات زندگی کو سمجھنے کی طرف مائل کیا۔ یہ ان کا اپنی قوم پہ سب سے بڑا احسان ہے انھوں نے اپنی قوم کی خدمت کرنے کے لئے انگلستان کے جریدے اسپکٹیٹر، ٹیٹلر کی طرز پہ 24 دسمبر 1870 میں تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا اس کا مقصد لوگوں کے اندر ذہنی انقلاب اور جدید تعلیمی تقاضوں کا شعور پیدا کرنا تھا اس کے ذریعے وہ اپنی قوم کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانا چاہتے تھے۔سرسید کے تعلیمی تصور میں قدیم و جدید دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے انھوں نے نہ اپنے اسلاف کی روایتوں سے منہ موڑا اور نہ ہی بدلتے وقت کے تقاضوں کو غیر اہم جانا ان کا منتہائے مقصود مسلمانوں میں مختلف علوم و فنون کی اشاعت عصری تعلیم میں دلچسپی پیدا کرنا اور علمی و تحقیقی ذوق کو فروغ دینا تھا اس راہ میں انھیں جو کچھ بھی مفید نظر آیا ان کو قبول کرنے سے گریز نہیں کیا خواہ ان کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے بقول خلیق احمد نظامی ‘ وہ چاہتے تھے مشرق کی ہر عمدہ چیز کو باقی رکھا جائے لیکن مغرب کی بھی کسی چیز کے حاصل کرنے میں گریز نہ کیا جائے’

 انھوں نے علوم و فنون کے فروغ اور تعلیم کی اشاعت کے لیے جو مہم چلائی تھی اس میں انھوں نے جدید علوم و فنون کے لئے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے پہ زور دیا اور ساتھ ہی ساتھ اردو کا بھی سابقہ مقام برقرار رکھا۔

 سرسید تعلیم میں مکمل آزادی کے قائل تھے اس کے پیش نظر ان کی سوچ یہ تھی کہ مسلمانوں کو اپنا تعلیمی نظام مکمل طور پہ اپنے اختیار میں رکھنا چاہئے انھیں اس حوالے سے حکومت پہ انحصار کرنے سے گریز کرنا چاہئے ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد اسی وقت پورا ہو سکے گا جب مسلمان قوم اپنے تعلیمی نظام میں مکمل طور سے خودمختار ہو اس کے ذریعے بغیر کسی مداخلت کے اپنی قوم میں علوم و فنون کو فروغ دیں۔ سر سید مسلمانوں کے عظیم رہنما تھے انھوں نے ساری زندگی اپنی قوم کی خدمت کی اور ان کی ذہن سازی کرنے کی ہر ممکن جدو جہد کی۔ تاریخ کے صفحات میں ان کی خدمات کو ہمیشہ جلی حروف میں لکھا جاتا رہے گا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com