علماء کو انگریزی زبان اور جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کرنے کی ایک کامیاب تحریک

مدثر احمد قاسمی

جدید ہندوستان میں جہاں ہر طرف تمام تر کوتاہیوں کے باوجود عصری علوم کے تعلیمی مراکزمیں تعلیمی ترقی کی بات ہورہی ہے، اعلیٰ ٹکنالوجی میں عالمی معیار پر کھرا اترنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور سب سے بڑھ کر تعلیمی میدان میں یکساں مواقع فراہم کرنے کی بات ہورہی ہے وہیں ملک کے طول و عرض میں پھیلے لاکھوں مدارس کی جدید کاری کی بھی بات زوروں پرہے۔لیکن اس اہم مسئلہ پرعلمائے کرام اور دانشورانِ عظام کے درمیان جدید کاری کے تصور میں واضح فرق موجود ہے۔ معزز علماء جہاں زمانۂ حال کے تقاضوں کے مطابق مدارس کے موجودہ نصاب میں ایک حد تک حذف و اضافے کی وکالت کرتے ہیں وہیں جدید تعلیم یافتہ دانشوران مدارس کو جدید ٹکنالوجی سے مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔اس نظریاتی جنگ میں دونوں طرف سے کچھ کوششیں ہوئی ہیں ،جن میں سے اکثر کوششیں ناکام ہوگئیں لیکن کچھ کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئیں، انہی کامیاب کوششوں میں سے ایک کوشش مر کز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے ذریعہ فضلائے مدارس کے لئے دو سالہ ڈپلوما ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر (DELL) کورس کا متعارف کرایا جانا ہے۔

واضح رہے کہ مرکز المعارف کا قیام ممتاز عالم دین اور رکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل القاسمی کی ایماء و سر پرستی میں دہلی میں 1994میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد دہندستان بھر کے فضلائے مدارس کو ، جو دینی علوم میں مکمل دستگاہ رکھنے کے با وجود عموما انگریزی زبان و ادب سے نا آشنا ہوتے ہیں ، اس عالمی زبان کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے تاکہ وہ عصر حاضر کے چیلنجوں کو بخوبی سمجھ سکیں اور مثبت و تعمیری انداز میں ان کا مقابلہ کرنے کے اہل ہوں۔اس مقصد کے حصول کے لیے دیدہ ور ماہر تعلیم علماء اور پروفیسر حضرات کے تعاون اور مشورے سے ایک تین سالہ جامع نصاب تیار کیا گیا جو مزید ترمیم کے بعد دو سالہ کردیاگیا۔بحمد اللہ یہ کورس بانیین کے توقعات پر پورا اترا اور ابتدائی سالوں میں ہی انگریزی زبان و ادب میں ماہر علماء کی ایسی کھیپ تیار ہوئی جس نے مختلف میدانوں میں ملک و بیرون ملک اپنی خدمات سے قوم کا دل جیت لیا اور آج بھی ادارہ اپنے مقصد میں تن دہی کے ساتھ مصروف ہے اور اس کے فضلاء کی خدمات روز افزوں ہیں۔ اپنی وضع قطع اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ، برطانیہ، افریقہ اور دیگر ممالک نیز اندرون ملک علماء کے اس طبقہ کی مساعی قابل ستائش ہیں اور مدارس ،مساجد،سیاست، صحافت اور دیگر شعبہائے حیات میں یہ قوم و ملت کی قابل قدر خدمت انجام دے رہے ہیں۔

مرکز المعارف کے روح رواں مولانا بدرالدین اجمل صاحب

مرکزالمعارف اور اس سے ملحقہ اداروں کی معیارِ تعلیم کو سراہتے ہوئےعلماء کے درمیان انگریزی زبان میں قومی سطح کے مسابقہ کو سننے کے بعد مشہور ماہر تعلیم جناب ڈاکٹر ظہیر قاضی ،صدر انجمنِ اسلام ممبئی نے اپنے خطاب میں فرمایاتھا؛” جس معیار کی انگلش آج ہم نے ان ڈپلوما ان انگلش کے طلبہ میں دیکھی ہے وہ معیار ڈپلوما کا نہیں بل کہ پوسٹ گریجویشن کا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے علماء کبھی بھی دقیانوس نہیں رہے اور آج کی اس علمی مجلس میں پیش کردہ ہر تقریر سے اسی بات کا ثبوت ملا۔”(روزنامہ سہارا/20 فروری 2015/ممبئی(

یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ جب ہم علمائے کرام کے لئے اعلیٰ عصری علوم کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد تمام نہیں بلکہ چند منتخب فضلاء ہوتے ہیں۔علماء کے لئے انگریزی زبان کا سیکھنا وقت کی ایک ضرورت ہے جسے ہمارے اکابر نے سوسال پہلے ہی محسوس کرلیا تھا۔ تاریخ دارالعلوم دیوبند کے مطابق ۱۳۱۸ھ ہی میں دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ نے اس قرار داد کو منظوری دی تھی کہ یہاں کے فضلاء کو وظیفہ دیکر انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یونیورسیٹی بھیجا جائے گا اور انٹر پاس و گریجویٹ طلبا ء کو وظیفہ دیکر یہاں عربی کی تعلیم دی جائے گی۔لیکن مالیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے اسوقت اس کام کو انجام نہیں دیاجاسکا۔ لیکن بعد میں علماء کو انگریزی تعلیم سے آراستہ کرنے کےاس خواب کو حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب القاسمی نے مرکز المعارف کے ذریعہ شرمندہ تعبیر کیا جو کہ دارالعلوم کے مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں ۔مرکز المعارف کا یہ پروگرام اتنا کامیاب اورمقبول ہوا کہ قلیل عرصے میں ملک کے گوشے گوشے میں اسی نہج پر فضلائے مدارس کے لیے انگریزی تعلیم کے اداروں کا جال سا بچھ گیا۔فی الحال ملحق اداروں کے تعدادسات ہےجو ممبئی، انکلیشور، ہوجائی، مظفر نگر، حیدر آباد، بڑودہ اور چمپارن میں فضلائے مدارس کے لئے قابلِ قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تمام ادارے انتظام و انصرام میں خود کفیل ہونے کےبا وجود نصاب تعلیم اور تربیتی پروگرام میں مرکز سے ہم آہنگ ہیں اور باہمی اتحاد و تعاون سے ان کی کار کردگی کو مزید تقویت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ آج مر کز المعارف کا ڈپلوماکورس ملک کے ۱۲/شہروں میں مختلف اداروں کے ذریعہ بھی چلایا جا رہا ہے۔مزید براںملحق اداروں کے قیام کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے،چنانچہ آئندہ تعلیمی سال سےصوبہ کرناٹک کا پہلا برانچ ضلع رام نگر میں دارالعلوم محمودیہ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے نام سے مولانا سمیع اللہ رفاعی ندوی کے زیرِ نگرانی شروع ہورہا ہےجسکی تیاریاں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

بانی ادارہ حضرت مولانا بدرالدین اجمل القاسمی کے مطابق:” اس کورس کے بنیادی مقاصد میں سے اسلام کی صحیح ترجمانی اورقرآن وسنت کی صحیح تصویر پیش کرناہے ساتھ ہی ساتھ انگریزی زبان جاننے والوں کو انہیں کی زبان میں محاسنِ اسلام بتلانا ہے۔ اسی وجہ سےان اداروں میں فصیح و بلیغ انگریزی زبان سکھانے کے ساتھ ساتھ دل کی دنیا اور نیتوں کو درست کرانے پر مکمل توجہ دی جاتی ہے، کیونکہ دل کی ترجمان زبان سے ہی دلوں کو فتح کرنا ممکن ہے ۔ تجربہ ہے کہ جب یہ فضلاء اخلاقیات کے زیور سے مزین ہوکر اور رضائے الٰہی کی نیت لیکر عملی میدان میں جاتے ہیں تواپنے اپنے اعتبار سے انقلابی کار نامہ انجام دیتے ہیں۔”الحمد للہ،اکابر کے ذریعہ کچھ فضلائے مدارس کو انگریزی زبان سے لیس کرنے کا فیصلہ ایک تاریخ سازفیصلہ ثابت ہواجسے اب ارباب حل و عقد ایک کامیاب تعلیمی تحریک گرادانتے ہیں۔چنانچہ عالمی شہرت یافتہ اسکالر پروفیسر اختر الواسع ،وائس چانسلر مولانا آزاد یونیورسیٹی،جودھپور اپنے ایک فکر انگیز مضمون میں لکھتے ہیں: “دارالعلوم دیوبند کے طلباء کو تو انگریزی سے نابلد تصور کیا جا تا تھا ،لیکن جب مولانا بدر الدین اجمل کی کوششوں سے فضلاء کو انگریزی زبان سکھانے کی ایک چھوٹی سی سعی کی گئی اور بعد میں خود دارالعلوم میں بھی انگریزی کا شعبہ کھل گیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی تعداد فضلاء کی تیار ہوگئی جنہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے اور وہ ملک و بیرونِ ملک انگریزی زبان کے دم پر ہی نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں۔”(روزنامہ راشٹریہ سہارا 31/دسمبر 2016)

مرکز المعارف پچھلے بائیس سالوں سے فضلائے مدارس کی ایک بڑی تعداد کو نہ صرف انگریزی زبان و ادب اور جدید سائنسی علوم سے آراستہ کر کے انسانی برادری کے ارتقا اور استحکام کے لیے ایک عظیم سرمایہ فراہم کرنے میں مصروف ہے، بلکہ مختلف دینی، ملی اور سماجی موضوعات پر ترجمے اور تحقیق کے ذریعے انگریزی زبان میں معتدل، وقیع اور قابل اعتماد لٹریچر تیار کرنا بھی اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ چنانچہ اب تک مرکز المعارف کے پلیٹ فارم سے سو سے زائد کتابیں نشر ہو چکی ہیں۔ لیکن اب اس مقصد کی تکمیل کے لیے مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سنٹر نے دہلی کی سر زمین پر باضابطہ اپنا برانچ قائم کیا ہے جس کے تحت منصوبہ بند طریقے سے انگریزی زبان میں دینی اور سماجی لٹریچر تیار کیا جا رہا ہے۔ نائب صدر جمہوریہ ہند عالی جناب حامد انصاری نے اپنی رہائش گاہ پر مرکز المعارف کی حالیہ تین مطبوعات کا اپنے ہاتھوں سے اجراء کرتے ہوئے مرکز المعارف کے طریقۂ تعلیم اور اس کی حصولیابیوںکوبھر پور سراہا تے ہوئےعلماء کو انگریزی زبان سے آراستہ کرنے کو ایک انقلابی کارنامہ قرار دیاتھا۔(روزنامہ انقلاب دہلی ،14دسبر 2016)

اس وقت مرکز المعارف اور اس سے ملحق اداروں میں دارالعلوم دیوبند، ندو ۃ العلماء لکھنوء، مظاہر العلوم سہارنپور اور ہندوستان بھر کے مستند اداروں سے فارغ دوسو طلبا زیرِ تعلیم ہیں۔واضح رہے کہ اس کورس میں داخلہ کے لئے کسی بھی مستند مدرسہ سے سندِ فضیلت حاصل کرنا ضروری ہے۔ داخلہ کے خواہشمند طلبہ کے لیے مدارس کے تعلیمی سال کے اختتام پر ماہ رجب میں داخلہ امتحانات منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ امتحانات دو مرحلو ں میں انجام پذیر ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ تحریری امتحان کا ہے جس میں تفسیر، حدیث، فقہ، عربی ادب، عربی و اردو انشا پردازی، معلومات عامہ او ر ابتدائی انگریزی کے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔بعد ازاں تحریری امتحان میں کامیاب طلبہ کا مذکورہ مضامین اور دیگر امور میں تقریری امتحان لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اعلی نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ میں سے مطلوبہ تعداد کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ مرکز المعارف اور اس سے ملحق ادارے کے فضلاء نے اکابر کےتمام خدشات کو غلط کر دکھلایا ہے اور اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے وہ دینی خدمات میں مصروف ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دعوتی مقصد سےعلمائے کرام کومعیاری انگریزی زبان سکھانے کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے ،اسی لئےہمیں اس تعلیمی انقلاب کو سراہنابھی چاہئے اور اپنا ہر ممکن تعاون بھی پیش کرناچاہئے۔

٭مضمون نگار مرکز المعارف ممبئی کے تحت چلنے والے دوسالہ” ڈپلوما ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر”کورس کے قومی کو آرڈینیٹر ہیں۔