تاریخی و علمی شہر دیوبندبنیادی سہولیات سے محروم

مایاوتی و اکھلیش یادو دونوں نے کئے وعدے فراموش،انتخابی وعدے محض وعدوں تک محدود
دیوبند
(سمیر چودھری کی تجزیاتی رپوٹ)
علمی و تاریخی سرزمین دیوبند ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے سبب پوری دنیا میں منفرد شناخت رکھتی ہے لیکن حکومتوں نے ہمیشہ اس شہرۂ آفاق قصبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہر ہ کیا ہے ،سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی و موجودہ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے یہاں کی عوام کے ساتھ کئے گئے تمام وعدوں کو فراموش کردیا ہے ،جس کے سبب دیوبند کو وہ تمام سہولیات آج تک میسر نہ ہوسکی جس کا واقع ہی وہ حقدار تھا اور ان پارٹیوں ایسے تمام وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ ڈیڑھ سو سال قبل دیوبند میں میں قائم کی گئی اسلامی معتدل افکار و نظریات کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں اکثر ملکی و غیر ملکی مہمانوں کی آمدو رفت کا سلسلہ رہتاہے تو کثیر تعداد میں ملک کے گوشہ گوشہ سے یہاں طالبعلم علم دین حاصل کرنے آتے ہیں،اتنا ہی نہیں بلکہ ملک کی سیاسی وسماجی شخصیات کے علاوہ بیرون ممالک کے وی آئی پی مہمانوں کی آمدو رفت بھی معمول کاحصہ ہے۔ وہیں دوسرے طرف اکثریتی فرقہ کے عقیدت کا مرکز تری پور بالا سندری دیوی کا قدیم مندر ہے جہاں اکثر عقیدتمندوں کی آمدو رفت کا سلسلہ رہتاہے ،لیکن اس کے باوجود دیوبند میں بنیادی سہولیات کا زبردست فقدان ہے اور حکومتوں نے وعدووں کے باوجود اس جانب کبھی توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا،یوتو دیوبند کو ٹوریزم کا درجہ ہونا چاہئے تھا لیکن دیوبند میں سیاحوں کے لئے پارک ومعقول قیام گاہوں کے علاوہ اچھے ہوٹلوں کا تک کی کمی ہے،سیر و تفریح کے نام بھی دیوبند میں قابل ذکر مقام نہیں ہے بلکہ محض ایک اندرا پارک ہے جس میں سہولیات کی زبردست کمی واقع ہے ۔2007ء میں مایاوتی کے امیدوار کو یہاں کی عوام نے منتخب کیا تو مایاوتی ہی صوبہ کی وزیر اعلیٰ بھی منتخب ہوئی اور انہوں نے دیوبند میں ایک کروڑ روپیہ کی رقم سے شاندار اسٹیڈیم دیوبند والوں کے لئے تعمیرکرنے کا وعدہ کیا لیکن پانچ سال حکومت کرنے کے بعد یہ وعدہ وعدہ تک ہی محدود رہا، ضلع میں پانچ رکن اسمبلی،ایک کابینی وزیر، ایک ایم پی و ایم ایل کے باوجود اس تاریخی شہر کی جانب مایاوتی نے توجہ ضروری نہیں سمجھا اور ان کے رکن اسمبلی پانچ سالہ دور اقتدار میں شہر میں ترقی کے نام پر کوئی بھی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا۔ وہیں موجودہ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو پوری ریاست میں ترقی کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں اور دیوبندوالوں کو بھی ترقی کے نام پر فور لین اورچار کلو میٹر فلائی اوور ضرور مل گیا ہے لیکن اندرون شہر کو انہوں نے بھی پوری طرح نظر انداز کردیا۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے سال 2012ء میں انتخابی ریلی کے دوران عیدگاہ کے میدان میں دیوبند کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہاں کے عوام سے کئی وعدے ضرور کئے تھے لیکن انہیں آج تک پورا نہیں کیا جاسکا ہے ،جس میں دیوبند میں کھیل اسٹیڈیم،حج ہاؤس اور چوبیس گھنٹے بجلی کے علاوہ ضلع کادرجہ تک شامل تھا۔مگر حال یہ ہے کہ دیوبند میں نہ تو بس اسٹینڈ ہے اور نہ ہی ٹرانسپورٹنگ کا معقول بندوبست ہے جو یہاں کے لوگوں کی بڑی پریشانی ہے،اتنا ہیں بلکہ صفائی ستھرائی بھی اس سطح کی نہیں ہے جو دیوبند کا معیار ہونا چاہئے تھے۔ لیکن ایک مرتبہ پھر مہارتھی میدان میں آچکے ہیں اور لوگوں سے ان ہی وعدوں کے سہارے ووٹوں کے طلبگار ہیں،لیکن عوام اب تک پوری طرح خاموش ہے۔ قابل غور امر یہ بھی ہے کہ دیوبند عوام ہمیشہ سرکارکے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے اور اکثر مواقع پر جو امیدوار دیوبند سے منتخب ہوا ہے حکومت بھی اسی پارٹی کی آئی ہے۔