علیزے نجف
زندگی میں مسائل اور مشکلات کا ہونا فطری ہے بالکل اسی طرح معاشرتی سطح پہ حق و باطل کی کشمکش کا ہونا بھی ایک فطری عمل ہے یہ معاملہ ہر دور میں رہا ہے، یہ تذبذب اور انتشار انسان کو ملی ہوئی آزادی کی پیداوار ہے اسی کی بنیاد پہ قدرت نے انسان کی آزمائش کی بساط بچھائی ہے، اس آزمائش میں سرخرو ہونے کے لئے خالق انسان نے انسان کے اندر خیر و شر کی تمیز پیدا کرنے والی صلاحیت رکھ دی ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو بند گلی کا مسافر نہ سمجھے اور اس کے سامنے شر کے مقابلے میں خیر کی راہیں بھی کھلی ہوں، اس کشمکش کا ہونا بےشک فطری واقعہ ضرور ہے لیکن انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ وہ خیر کی آبیاری کرے، جب منفی عوامل کو معاشرے پہ غلبہ حاصل ہونے لگے تو یہ انسانی معاشرے کو تعفن زدہ بنا دیتی ہے اور فطرت اسے کبھی گوارا نہیں کر سکتی۔
اس وقت انسانی معاشرے میں کئی طرح کا اخلاقی انتشار پایا جا رہا ہے اس میں سے ایک اہم انتشار مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی صورت میں برپا ہے، ہمارے یہاں لوگ اس مسئلے کو غیروں کی سازش قرار دے کر شب و روز اس کی مذمت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بد دعاؤں سے انھیں ہلاک ہوتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں لیکن شاید انھیں یہ معلوم نہیں کہ فقط اس طرح کی مذمت اور سوگواری اور احساس مظلومیت سے مسائل نہیں حل ہوا کرتے اور نہ ہی اس کی بڑھتی سنگینیوں کو لگام ڈال سکتے ہیں، ایسے میں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ارتداد کے ذمےدار دشمن قوم ہی ہے کیا اس کی ذمےداری ہم پہ عائد نہیں ہوتی یہ وہ سوال ہے جس کو خود سے پوچھنے کا وقت ہمارے پاس نہیں۔ مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا تناسب جو آج اس قدر بڑھا ہوا ہے وہ اچانک سے نہیں ہوا، اس طرح کے واقعات کئی سالوں سے رونما ہو رہے ہیں لیکن افسوس کہ اب تک اس مسئلے کے سد باب کے لئے مناسب حکمت عملی نہ اپنائے جا سکی اور نہ ہی جذباتیت سے اوپر اٹھ کر اس کے پیچھے موجود وجوہات کا عقلی طور پہ جائزہ لیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے اس کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے، اس وقت سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لڑکیاں ارتداد کی طرف کیوں مائل ہو رہی ہیں اس قدم کے پیچھے ان کا ذہنی پس منظر کیا ہوتا ہے، کیا غیر قومیں انھیں مدہوش کر کے ارتداد کا ارتکاب کرواتی ہیں یا وہ خود بخوشی یہ مذموم قدم اٹھاتی ہیں، اس کے پس منظر پہ اگر غور کیا جائے تو ہمیں یہ المیہ نظر آتا ہے کہ اس وقت ہمارا تعلیمی و خاندانی ادارے کے پاس تربیت کے حوالے سے کوئی وژن ہے ہی نہیں، تربیت ایک اجنبی اصطلاح بن کے رہ گئی ہے، تعلیمی اداروں کا اہم مقصد بس یہی ہوتا ہے کہ ان کے طلبہ کو وہ ساری اسکلز سکھا دی جائیں جو انھیں معاشی سہولیات کے حصول میں معاون ہوں، ان کا اخلاق و کردار ان کے لئے چنداں اہمیت کا حامل نہیں ان کے نزدیک یہ ان کے گھر والوں کی ذمے داری ہے، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان اس قدر ذہنی و جذباتی دوری پیدا ہو چکی ہے کہ اگر غلطی سے بھی استاد اپنے مضمون سے ہٹ کر کوئی نصیحت کر جائے تو طلبہ ردعمل کے طور پہ ایسے پیش آتے ہیں گویا استاد نے کوئی غلطی کر دی ہے اور دوسری طرف اکثر اساتذہ طلبہ کے ساتھ ہٹلر کی طرح پیش آتے ہیں اور ان پہ اپنے استاد ہونے کا بےجا رعب جھاڑنے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان سے بدظن ہو جاتے ہیں وہ ان کی رسمی عزت تو کرتے ہیں لیکن ان کے سکھائے ہوئے علم سے محبت نہیں کر پاتے ہیں شاید اسی تناظر میں کہا جاتا ہے کہ جو ہمارے لئے معتبر ہوتا ہے اس کی کہی ہوئی چھوٹی چھوٹی بات بھی ہمارے لئے معتبر ہوتی ہے، اس شکستہ رسمی تعلق کی وجہ سے طلبہ عملی طور پہ نہ علم کی عزت کرتے ہیں اور نہ ہی اس پہ عمل کرتے ہیں اگر ارتداد کے مسئلے پہ قابو پانا ہے تو وقت رہتے تربیت کے خلا کو پر کرنا ہوگا ان کے اندر پروفیشنل اسکلز کے ساتھ کردار کو بھی پیدا کرنا ہوگا کیوں کہ کردار ہی ہے جو رویوں کو مہمیز دیتا ہے رہی بات مذہب سے جڑے کردار کی تو ہمارے ملی و دینی رہنماؤں کو اداروں میں مذہبی اور عصری تعلیمات کا انتظام کرتے ہوئے مذہب کو تقلیدی روایت نہ بنا کر اس پہ غور و فکر کرنے کی راہ ہموار کرنی ہوگی نئی نسل کے سوالات کو ایڈریس کرنا ہوگا مذہب کو عام زندگی سے جوڑ کر پیش کرنا ہوگا تاکہ مذہب ایک رسمی دائرے سے باہر نکل کر شعور کا حصہ بن سکے، شعوری سطح پہ اپنایا ہوا دین کبھی بھی حرام محبت کے ہاتھوں شکست نہیں کھا سکتا۔
اسی طرح خاندان کا ادارہ بس اس سوچ میں رہتا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کو یہ یہ سہولیات و مراعات فراہم کرنا ہے، وہ ان کے اخلاق و کردار کے سنوارنے کی ذمے داری اساتذہ پہ ڈال کر بےفکر ہو جاتے ہیں ایسے میں اگر بچہ کسی طرح کی کوئی بڑی غلطی کرتا ہے تو اس کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کو ذمےدار ٹھہرایا جاتا ہے کہ شرم کرو پڑھ لکھ کر ایسا کر رہی ہو اسکول میں کیا سیکھا ہے تم نے وغیرہ وغیرہ مجھے تو لگتا ہے اگر ان کا بس چلے تو وہ کتابوں کو بھی الزام دیں کہ ہم نے تمھیں یہ کتابیں پڑھنے کے لئے دیں اورکتابوں نے تمھیں یہ سکھایا ہے ہمارے یہاں ذمےداری کو قبول کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کا رویہ برسوں سے چلا آرہا ہے انھیں یہ کون بتائے کہ اگرمحض کتابوں سے ہی کردار سازی ممکن ہوتی تو آج تعلیم گاہوں سے زیادہ لائبریاں ہوتیں یا آج کے دور میں گوگل ٹیچر کے آ جانے کے بعد یونیورسٹیوں کی ضرورت ختم ہو چکی ہوتی۔ انسانی معاشرے کو اساتذہ کی ضرورت ہمیشہ سے تھی، ہے اور رہے گی اساتذہ کتابی علم کی مثال ہوتے ہیں مثالیں علم کو سمجھنے میں آسانی کا موجب ہوتی ہیں۔
اس وقت بات مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی ہو رہی ہے اس تمہید کا مقصد ان عوامل کو زیر بحث لانا ہے جو ارتداد کا سبب بنتی ہیں، ہم عصری تعلیم کے لئے پورا اہتمام کرتے ہیں یہاں تک کہ کوچنگ کا بھی سہارا لیتے ہیں لیکن مذہبی تعلیم کے حوالے سے محض ناظرہ قرآن اور تعلیم الاسلام آداب زندگی اور بہشتی زیور جیسی چند کتابوں کو اپنے بچوں کو پڑھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کے مسلمان ہونے کی راہ ہموار کر دی، انشاء اللہ اب یہ ساری زندگی مسلمان ہی رہیں گے، خاندانی ادارہ بھی تربیت سے لاتعلق ہوتا جا رہا ہے ہمارے یہاں لڑکیوں کی تربیت میں پابندیوں اور چنندہ اخلاقیات کا لحاظ محض اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اگلے گھر جا کے سکون سے رہ سکیں والدین کی اس تربیت میں آخرت کا تصور تو خال خال ہی ملتا ہے، جب ایک لڑکی ابتدا سے ہی مذہب کو ایک تقلیدی نوعیت کی روایت سمجھ رہی ہو تو اس کے لئے کون سا مشکل ہے کہ وہ اپنی محبت کو پانے کے لئے اسے ترک کر دے ہمارے یہاں ارتداد کی جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں ہیں ظاہر ہے کہ یہ محبت کے ذریعے ہی پروان چڑھتی ہیں محبت جو ایک طاقتور جذبہ ہے اس کے لئے جب ایک لڑکی اپنے ماں باپ کو چھوڑ سکتی ہے جس سے اس کا زندہ تعلق رہا ہے تو وہ ایسے میں مذہب جیسی تقلیدی روایت کو کیوں کر نہیں چھوڑ سکتی اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے گھروں کی لڑکیاں ارتداد جیسی لعنت سے دور رہیں تو ان کی تربیت اپنے بنائے گئے اصولوں پہ نہیں بلکہ خدائی اصول پہ کریں ان پہ اسلامی پابندیوں سے ہٹ کر خودساختہ پابندیاں تھوپنے سے گریز کریں اس وقت بھی بعض والدین یہی سوچ رہے ہیں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو پابندیوں میں رکھیں گے تو ایسا ان کے ساتھ نہیں ہوگا جب کہ یہ محض عارضی تحفظ ہے آنے والا وقت انھیں اس سے باہر نکلنے پہ مجبور کر دے گا ایسے میں بچوں کو دی جانے والی صحیح تربیت ہی ان کی محافظ ہو سکتی ہے، تربیت مذہب کے بغیر ممکن نہیں والدین کے ڈر کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور انھیں دھوکہ بھی دیا جا سکتا ہے لیکن خدا کا خوف انسان کو متزلزل نہیں ہونے دیتا خدا کا خوف صرف خوف ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے بندہ خدا کی نعمتوں کی طمع بھی رکھتا ہے۔ ایسی ہی نفسیات رکھنے والے اللہ کے مقرب بندوں نے ہر مظالم سہہ لئے لیکن اللہ کی رسی نہیں چھوڑی۔
مذہب محض چند روایات کی ادائیگی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک زندہ تعلق کا نام ہے جس میں بندہ اپنے رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بناتا ہے بےشک خدا کی حاجت ہر انسان کو ہے کیوں کہ اس کائنات کی ہر انسانی روح سے عہد ألست لیا گیا ہے اور وہ اس کے لاشعور میں موجود ہے اس لاشعوری تعلق کو شعوری احساس دینے کی ذمےداری سب سے پہلے والدین پہ ہی عائد ہوتی ہے اگر گہرائی سے غور کیا جائے تو پچھتر فیصد سے زائد خاندانی ادارے اس تعلق کو بچے کے شعور سے جوڑنے میں ناکام ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں اس میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہب ایک تقلیدی نوعیت کی روایت بن کے رہ گیا ہے جس میں سوچنے و سوال کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا ہے اور مذہب کو روایات میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ مذہب کی اصل روح مسخ ہو گئی ہے اب آپ ہی سوچیں کہ یہ مذہب کے نام پہ رائج تقلیدی روایات کیسے کسی محبت کو شکست دے سکتی ہیں ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نئی نسل کو تقلید کے ساتھ مذہب کا پابند نہیں بنا سکتے بلکہ ہمیں مذہب کو ان کے غور و فکر کا حصہ بنانا ہوگا اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ ارتداد جیسے قبیح عمل کو کم کیا جا سکے۔ مجھے اس وقت ایک ناول کا اقتباس یاد آرہا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا جس کا مرکزی فکر پردے کی اہمیت کو بیان کرنا تھا والدین چاہتے تھے کہ اس کی بیٹی باپردہ رہے لیکن بیٹی زمانے کی رنگینیوں میں اس قدر کھو چکی تھی کہ وہ پردے کو قید سمجھ رہی تھی اپنے والدین کے سامنے باہر نکلتے وقت تو باحجاب ہوتی لیکن باہر جا کر وہ حجاب کو اتار کر سائیڈ میں رکھ دیتی یہاں تک کہ اس کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب وہ حجاب کی اہمیت کو سمجھتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ میرے والدین نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ پردہ کرنا کیوں ضروری ہے یہ کس کا حکم ہے اگر اس وقت انھوں نے مجھے یہ بتایا ہوتا تو میں کبھی کسی بھی لمحے بےحجاب نہیں رہتی، یہ کردار ہمارے ہی جیتے جاگتے معاشرے سے لئے جاتے ہیں ہمارے یہاں سب کچھ اندھی تقلید کے تحت اپنانے کی روش نے ارتداد کے واقعات میں اضافہ کیا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ مسلم لڑکیوں کے ارتداد میں کمی لائی جائے تو سب سے پہلے والدین کو اس مسئلے پہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا انھیں لڑکیوں کو پرانے زمانے کی لڑکیوں کی طرح ٹریٹ کرنے کی کوشش سے پرہیز کرنا ہوگا، مذہب کو ان کے شعوری احساس سے متعارف کروانا ہوگا تاکہ ان کا خدا سے زندہ تعلق بن سکے جو اپنے ہر عمل کو زمانے کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے خدا کے بتائے گئے اصولوں پہ پرکھے، اس کے لئے ضروری یہ بھی ہے کہ والدین کا اپنا بھی خدا کے ساتھ ایک شعوری تعلق ہو جسے وہ زندگی کے تمام معاملے میں ملحوظ رکھیں کیوں کہ بچے وہی سیکھتے ہیں جو والدین اپنی عملی زندگی میں کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ چھوٹے چھوٹے گناہ بےخوف ہو کر کریں گے تو یاد رکھیں پھر بڑے بڑے گناہ اپنے راستے خود ہموار کر لیں گے، اپنے بچوں کے اندر اپنے ڈر سے زیادہ خدا کا ڈر پیدا کریں اور وہ خود زمانے سے زیادہ خدائی احکامات کی پرواہ کریں۔