کیا طلاق سے پہلے ثالثی ضروری ہے؟

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

کیڈی مسجد، ناگپاڑہ ممبئی

ہمارے ملک کی بعض عدالتوں اور بعض دانشوروں کاخیال ہے کہ طلاق واقع ہونے کے لیے تحکیم یعنی ثالثی کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہے، جب تک تحکیم (ثالثی) کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اگر شوہر طلاق دیدے تو یہ طلاق معتبر نہیں ہوگی اور وہ عورت اس کی بیوی سمجھی جائے گی۔اس سلسلہ میں قرآن کریم سورہ نساء کی آیت نمبر ٣٤ اور ٣٥ پیش کی جاتی ہے، جن کا ترجمہ اس طرح ہے:

مرد عورتوں پر نگراں ہیں ؛ اس لئے کہ اللہ ہی نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے ، اور اس لئے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ، پس ! نیک عورتیں وہ ہیں جو فرمانبردار ہیں اور اللہ کی حفاظت سے مرد کی عدم موجودگی میں ( اپنی عزت وآبرو اور مال و اولاد کی ) حفاظت کرتی ہیں ، اور تم کو جن عورتوں سے نافرمانی کا اندیشہ ہو ، ان کو سمجھاؤ ، خواب گاہ میں ان سے بے تعلقی برتو ، اور ان کو (ہلکے طریقہ پر ) مارو ، اگر وہ تمہاری فرماں برداری کرنے لگیں تو پھر ان پر زیادتی کے لئے بہانے تلاش مت کرو ،بے شک اللہ بڑی بلندی اور عظمت والے ہیں ۔

اور اگر تم کو میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو ، تو مرد کے لوگوں میں سے ایک پنچ اور عورت کے لوگوں میں سے ایک پَنچ مقرر کردو ، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے ، تو اللہ ان دونوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کردیں گے ، بے شک اللہ خوب جاننے والے اور باخبر ہیں۔

آیت نمبر 34 میں تین باتیں بیان کی گئیں ہیں۔

١۔ مرد عورت پر قوام ہیں۔ قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں کہ کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور ا س کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دارہو۔ (تفہیم القرآن)

٢۔ مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی ہے۔ یعنی مرد کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی قویٰ، دل و دماغ کی برتر صلاحیت، اور قوت فیصلہ کے اعتبار سے عورتوں پر فضیلت دی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ صدر خاندان وہی ہوسکتا ہے، جو قوت جسمانی کے اعتبارسے خاندان کے تمام لوگوں کی حفاظ کرسکتا ہو، اور اپنی قوت فیصلہ کے اعتبار سے اہم امور میں صحیح فیصلہ کرسکتا ہو، اور اس برتری کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد اپنے خون پسینہ کے کمائی سے عورت کے نفقہ کا انتظام کرتا ہے، لہذا اس کی بھی تقاضہ ہے کہ مرد کی حیثیت گھر میں ایک ذمہ داراورصدرکی ہو۔ (آسان قرآن)

٣۔ نیک عورتوں کی دوصفتیں بنان کی گئیں ہیں۔ اول : جائزاُمور میں شوہر کی اطاعت و فرماں برداری ۔ دوسرے : حفاظت و نگہداشت ، حفاظت میں شوہر کے مال اور اس کی اولاد کی حفاظت و صیانت بھی داخل ہے اور شوہر کے لئے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت بھی ۔

آیت نمبر 35 میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر بیوی واقعی نافرمانی پر آمادہ ہو اور ایسی باتوں میں شوہر کی عدول حکمی کرتی ہو ، جن میں شرعاً شوہر کی اطاعت واجب ہے ، تو یہ درست نہیں کہ پہلے ہی مرحلہ میں نکاح ختم کردیا جائے، یا بیوی کو اپنے گھر سے نکال دیا جائے، اس کو میکہ میں بھیج دیا جائے، یا اس کا کھانا پینا بند کردیا جائے؛ بلکہ ضروری ہےکہ اصلاح و مفاہمت کے ذرائع استعمال کئے جائیں۔

اصلاح و مفاہمت کے چار طریقے ہیں :

 اول محبت اور نرمی سے پند و نصیحت کی جائے۔ یہ کافی نہ ہو اور زبان سے کام نہ چلے تو چند دنوں کے لئے ہم بستری ترک کردی جائے ، اگر اس سے بھی اصلاح نہ ہو پائے تو اللہ تعالیٰ نے معمولی سرزنش کرنے کی بھی اجازت دی ہے ، گو بیوی پر ہاتھ اٹھانا اچھی بات نہیں ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو بہت ہی مذموم عمل قرار دیا ہے ؛ لیکن طلاق کی نوبت آنے اور نکاح ختم کر لینے سے بہتر ہے کہ معمولی سرزنش سے کام چلا لیا جائے ؛ البتہ اس سرزنش میں بھی دو باتوں کی رعایت ضروری ہے ، اول یہ کہ عورت سے واقعی کوئی قابل سرزنش فعل واقع ہوا ہو ، دوسرے : سرزنش بہت ہی معمولی ہو ، تکلیف دِہ نہ ہو ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی تاکید فرمائی ہے ( سنن ترمذی ، ابواب الرضاع ، حدیث نمبر : ۱۱۶۳) یعنی جسم پر ورم نہ آئے ، نشان نہ پڑے ، اہانت آمیز انداز نہ ہو؛ گویا مقصود مارنا نہیں ہے ؛ بلکہ احساس دلانا ہے کہ اس کی سرزنش کی گئی ہے ۔ اگر ان تدابیر سے بیوی کے رویہ میں تبدیلی آجائے ، تو پھر خواہ مخواہ اس کے پیچھے بھی نہیں پڑجانا چاہئے ۔

اگر ان تدبیروں سے کام نہ چلے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب معاملہ اس حد میں پہنچ چکا ہے کہ خود زوجین آپس میں اس کو حل کرنے سے قاصر ہیں ، اور خاندان اور سماج کے بزرگوں کی مداخلت ضروری ہوگئی ہے ؛ لہٰذا اس آیت میں دونوں خاندان کے بزرگوں کو اور قاضیوں کو خطاب ہے کہ اگر اختلاف شدید ہو جائے اور آپس میں نزاع کا حل ہونا دشوار ہو تو تحکیم (ثالثی) پر عمل کریں یعنی دونوں طرف سے ایک ایک سمجھ دار اورمخلص حَکَم متعین ہوں ، جو حتی المقدور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں ، اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ ایسی کوشش کریں گے تو ضرور اللہ تعالیٰ دونوں میں ہم آہنگی کی صورت پیدا کردیں گے۔

اگر حکمین سے اصلاح حال نہ ہوسکے تو زوجین کو اپنی حالت پر چھوڑدے، خود زوجین ہی اپنے حال کے مطابق مصالحت، صبر ،طلاق یا خلع کے ذریعہ اپنا فیصلہ کرلیں گے۔ (آسان ترجمہ قرآن مجید)

   تحکیم کی شرعی حیثیت:

تحکیم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اور کیا بغیر تحکیم کے طلاق واقع نہیں ہوگی یا نہیں؟

آیت ”فابعثوا حکما“ الخ اگرچہ امر کا صیغہ ہے؛ لیکن یہ وجوب کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ استحباب کے لیے کیوں کہ ہر کلام کی مراد متعین کرنے کے لئے ضروری ہوتاہے کہ اس کے سیاق و سباق اور گفتگو کے موقع و محل کا لحاظ کیا جائے۔ اِس حکم کے سیاق و سباق سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِس کا تعلق کسی قانونی حکم سے نہیں؛ بلکہ ترغیبی انداز میں خیر خواہی اور ہمدردی کے طور پر مشورہ دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باتفاقِ اُمت یہ تدبیریں مستحب تو ضرور ہیں؛ لیکن طلاق کے لئے مشروط نہیں ہیں؛ کیوں کہ اگر مشروط مانا جائے تو بالترتیب چاروں باتوں کو مشروط ماننا پڑے گا، یعنی طلاق واقع ہونے کے لیے یہ مانناپڑے گاکہ پہلے افہام و تفہیم کیا گیا ہو ، پھر بستر الگ کیا گیا ہو، پھر اپنی بیوی کو مارا بھی گیا ہو، پھر تحکیم یعنی حکم بناکرصلح کی گئی ہو۔تب طلاق دی گئی ہو۔ تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔ ظاہرسی بات ہے کہ اس کاکوئی قائل نہیں ؛ نیز یہ خود عورت پر ظلم ہوگا۔ جو لوگ طلاق کو ظلم سمجھتے ہیں تو ان کے نزدیک طلاق دینے سے قبل کم ازکم پٹائی والاظلم تو کرناہی پڑے گا۔اس لیے طلاق سے پہلے تحکیم ضروری اور لازمی نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی کوئی آدمی طلاق دیدے تو طلاق پڑجائے گی۔

طلاق سے قبل تحکیم کو لازم قرار دینا خلاف شریعت ہے۔

طلاق سے قبل تحکیم کو ضروری قرار دینا قرآن، حدیث ، اجماع اور قیاس کے خلاف ہے۔ جن آیات میں صراحۃً طلاق کا ذکر ہے اُن کے سیاق و سباق میں کہیں تحکیم مذکور نہیں۔ جیسے سورۃ البقرۃ: ۲۲۹-۲۳۰ اور سورۃ طلاق آیت نمبر ١میں طلاق کا ذکر ہے لیکن تحکیم کو دور دور تک کوئی ذکر نہیں، اور جس آیت میں تحکیم کا ذکر ہے اس میں طلاق کا ذکر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تحکیم وغیرہ کا حکم محض ایک استحبابی تدبیر ہے، طلاق کے لئے لازمی شرط نہیں۔

خلاف حدیث:

* آپ ﷺنے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دیدیا، پھر آپ نے رجعت فرمالی۔(ابوداوٴد ج۱/ص ۳۱۱) حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوحالت حیض میں طلاق دے دیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے کہو کہ وہ رجعت کرلے۔ (مسلم ج ۱/ص۴۷۶)

      یہ احادیث مبارکہ اور آثار صحابہ اس بات کی شاہد ہیں کہ مذکورہ طلاقیں واقع ہو ئیں اور ان کے وقوع کے لیے کسی حکم کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ معلوم ہوا کہ تحکیم کا حکم استحبابی ہے، وجوبی اور لازمی نہیں، اور تحکیم کے بغیر بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی۔

خلاف اجماع:

 کتاب و سنت کے بعد شریعت کا تیسرا ماخذ اجماع ہے، یعنی امت کے مجتہدین جس بات پر اتفاق کرلیں، وہ بات حجت ہے۔اہل سنت و الجماعت کے چار مکاتب فکر ہیں، حنفی، شافعی، مالکی، اور حنبلی۔ اور آج کل کے سلفی اور شیعوں کا فقہ جعفری، ان میں سے کسی بھی فقہ میں طلاق کو واقع ماننےکے لئے مصالحتی کوشش کو ضروری قرار نہیں دیا گیا ہے ۔ ان مکاتب فقہ کی کتابیں چھپی ہوئی ہیں، کسی میں بھی کوئی ایسا باب نہیں ہے کہ طلاق سے پہلے تحکیم ضروری ہے اور اس کے بغیر طلاق نہیں ہوگی۔

جن ائمہ کرام کا فقہ باضابطہ طور پر مدون نہیں ہیں، جیسے امام سفیان ثوری ؒ، امام اوزاعیؒ، حسن بصریؒ، لیث بن سعدؒ ابن جریر طبری، داؤد ظاہری وغیرہم ، ان میں سے بھی کسی نے مصالحتی کوشش کو ضروری نہیں کہا ہے۔ اس لیے اس کو شرط کادرجہ دینا اجماع کے خلاف ہے۔

خلاف قیاس:

 شریعت کاچوتھاماخذقیاس ہے، یعنی جو مسئلہ قرآن وحدیث میں نہیں آیاہے، مگر اس کی نظیر قرآن وسنت میں مل جائے تو جو حکم اس میں دیا گیا ہے وہی حکم اس مسئلے کابھی مقرر کیا جائے ۔ اس کو قیاس کہتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے بھی طلاق کے لیے مصالحتی کوشش کو شرط قرار دینا غلط نظر آتا ہے؛ کیوں کہ جس طرح طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اسی طرح خلع، ایلاء، لعان، ظہار اور فسخ وغیرہ سے بھی نکاح ختم ہوتاہے۔ مگر ان میں سے کسی بھی میں مصالحتی کوشش یاتحکیم کو شرط قرار نہیں دیا گیا ہے تو صرف طلاق میں کیسے ضروری کہا جاسکتا ہے؟

قانونی اور اخلاقی احکام کا فریق ضروری ہے:

ہرقانون میں کچھ احکام اخلاقی ہوتے ہیں اور کچھ قانونی، ہمارے ملک ہندوستان کے آئین کے کئی حصے ہیں، ان میں بھی بعض کی حیثیت قانونی ہیں اور بعض کی حیثیت اخلاقی ہیں۔ بعض بنیادی حقوق ہیں اور بعض ہدایات ہیں۔ جیسے آئین ہند کی دفعہ نمبر25 بنیادی حقوق میں سے ہے، اور دفعہ 44 رہنمائی اصول میں سے ہے۔

اسی طرح مذہب کے قوانین میں بھی مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں، مثلاً نماز کے کچھ اعمال فرض ہیں، کچھ سنت اور کچھ مستحب ہیں۔ فرض کی حیثیت یہ ہے کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی، جیسے قرات ، رکوع اور سجدہ، سنت کی حیثیت یہ ہے کہ اس کے بغیر نماز ہو تو جائے گی، مگر مکروہ ہوگی۔ مثلاً تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کا کانوں تک اٹھانا، ثنا پڑھنا، وغیرہ، اور مستحب کی حیثیت یہ ہے کہ اس پر عمل کرنا اچھا ہے نہ کرنے سے بھی کوئی حرج نہیں ۔ مثلاً پگڑی پہن کر نماز پڑھنا بہتر ہے؛ مگر اس کے بغیر بھی نماز ہوجائے گی۔

اسی طرح بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، سلام میں پہل کرنا، دوسروں کا بوجھ اٹھانا، دوسروں کا تعاون کرنا کتنے ہی احکام ہیں جو اخلاقیات میں سے ہیں۔ ان کو قانونی درجہ حاصل نہیں، یعنی اگر کوئی سلام میں پہل نہ کرے تو اس کو عدالت میں نہیں گھسیٹاجاسکتا ہے۔

نکاح و طلاق سے متعلق بھی بہت سے اخلاقی قوانین ہیں، مثلا یہ کہ نکاح مسجد میں کیاجائے مگر باہر کرنے سے بھی ہوجائے گا، اسی طرح نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کرنا چاہئے؛ مگر کوئی تقسیم نہ کرے تو بھی نکاح منعقد ہو جائے گا۔ اسی طرح طلاق کامعاملہ ہے کہ طلاق حالت حیض میں نہ دی جائے،حالت حمل میں نہ دی جائے،ایسے طہر میں نہ دی جائے جس میں صحبت ہوچکی ہو، بغیر گواہوں کے نہ دی جائے۔ وغیرہ، مگر اگر ان احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طلاق دیدے تو گویہ فعل گناہ کا ہوگا، لیکن طلاق واقع ہوجائے گی۔ پس اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ طلاق دینے سے قبل صلح کرنےکی کوشش کرنی چاہئے ، لیکن اگر کسی نے صلح کی کوشش کے بغیرہی طلاق دیدی یاعورت خلع نے خلع لے لیا تو گو کہ مناسب نہیں ہے، مگر طلاق پڑجائے گی اور نکاح ختم ہوجائے گا۔

خلافِ مفادات زوجین:

اگر تحکیم کو طلاق کے لئے ضروری قرار دیا جائے تو حکم کے لئے لازم ہوگا کہ وہ و جھگڑے کی وجہ کو جانیں اور وجہ تنازع بعض دفعہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کا ظاہر ہونا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔بعض دفعہ زوجین ایک دوسرے پر ایسے الزامات لگا دیتے ہیں جن کا ثابت ہونا تو درکنار ہمارا معاشرہ سننا بھی پسندنہیں کرتا۔ایسے حالات میں ایک شریف اور باعزت میاں بیوی اس بات کو بہتر سمجھتے ہیں کہ علیحدگی ہوجائے اور جن وجوہات کی بناء پر علیحدگی اختیار کی جارہی ہے وہ پردہ ہی میں رہ جائیں؛تاکہ کسی فریق کی بے عزتی نہ ہو۔

اور اگر طلاق کا سبب عورت کی طرف پائی جانے والی کوتاہی نہ ہو تو بھی اس بات کاقوی اندیشہ ہے کہ مرد بیوی کو اپنے سے الگ کرنے کے لئے یہ الزام لگادے کہ اس کا دوسرے مرد سے ناجائز تعلق ہے، اس کا کردار خراب ہے، دوسروں کے ساتھ گھومنے والی اور موج و مستی کرنے والی ہے۔ پس جب سماج میں یہ بات پہونچے گی کہ فلانہ عورت بدکرارد، بداخلاق، بدزبان، اور نافرمان ہے تو غور کیجئے کوئی اس کو اپنی بیوی یا بہو بنانے پر تیار ہوگا؟ یا عورت مرد سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے یہ الزام لگادے کہ وہ غلط طریقہ سے صحبت کرتاہے۔اگراس طرح کی باتیں باہر آجائیں تو معاشرہ میں دونوں کی بدنامی ہوگی اور دونوں کا دوسری شادی تو درکنار جینا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے تحکیم کو علیحدگی کے لئے لازم و ضروری قرار دینا ہے، زوجین کے مفادات کے خلاف ہے۔اس کے بغیر بھی اگر طلاق دی جائے تو پڑجائے گی۔ فقط

رابطہ: 8080697348

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com