بے چہرہ گی کے دور میں دیہی فنکار ہی زندگی کو نیا چہرہ دے سکتا ہے: حقانی القاسمی
حقانی القاسمی کی شخصیت میں افق ادب گم ہے: رضی احمد تنہاحقانی القاسمی اردو ادب کے مشعل راہ ناقد و محقق ہیں: ڈاکٹر عبدالقادر شمس
حقانی القاسمی کی شخصیت اردو ادب کا بیش قیمتی اثاثہ ہے: زبیر الحسن غافل
حقانی القاسمی کی تصنیف ” رینو کے شہر” میں مستند تاریخی حوالہ ہے: پرویز عالم
حقانی القاسمی نے مقامی فنکاروں کو نیی شناخت بخشا ہے: دین رضا اختر
اردو کے مایہ ناز ادیب حقانی کی شخصیت ہمہ جہت فنکار کی سی ہے: رہبان علی راکیش
حقانی القاسمی نے اپنی تنقید سے نیے رجحان اور رویہ کی بنیاد ڈالا: ڈاکٹر ضیاءالرحمان
ارریہ (عبدالغنی /ملت ٹائمز)
ارریہ اور بہار کا تخلیقی منظر نامہ نہایت وسیع ہے مگر منظر عام پر نہیں آپاتا بے چہرہ گی کے اس دور میں دیہی فنکار ہی آج کی زندگی اور سماج کو نیا چہرہ دے سکتا ہے شہروں کے پاس نیا کچھ کہنے کے لیے نہیں ہے کیونکہ انٹرنیٹ شہر کی ساری ثقافت اور کلچر کو دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے اب صرف دیہات کے فنکار ہی نیے تخلیقی دریچے کھول سکتے ہیں کہ ان کے احساس و ادراک اور مشاہدہ میں تازگی اور تواناۂی ہے ان خیالات کا اظہار معروف ادیب و ناقد اور صحافی حقانی القاسمی نے ادارہ ادب اسلامی ہند ارریہ کے زیر اہتمام منعقدہ” ایک شام حقانی القاسمی کے نام” میں کیا انہوں نے کہاکہ: اس صارفی کلچر میں بھی ارریہ کا تخلیقی کلچر زندہ ہے یہ بڑی بات ہے ورنہ صارفیت نے ہم سے ساری تخلیقی اور تہذیبی قدریں چھین لی ہے انہوں نے کہاکہ: اب حاشیاۂی فنکاروں کو مرکز میں لانے کا وقت آچکا ہے حقانی القاسمی کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب میں معروف شاعر و ادیب ادبی رسالہ سہ ماہی ابجد کے بانی مدیر رضی احمد تنہا نے اظہار خیال کرتے ہوۂے کہاکہ: حقانی القاسمی شخصیت میں افق ادب گم ہے اہل ارریہ کو اپنے اس مایۂ ناز سپوت پر فخر ہے انہوں نے کہاکہ: وہ اردو تنقید میں رجحان ساز نقاد ہیں صحافت ادب اور طنز و مزح کی پاۂمال راہوں کو شاہراہ میں تبدیل کردیا ہے نامور صحافی ڈاکٹر عبد القادر شمس نے حقانی القاسمی سے اپنی دیرینہ تعلقات کا اظہار کرتے ہوۂے کہاکہ: موصوف کے کن کن اوصاف کا تذہ کروں وہ بیک وقت ادیب ناقد اور محقق و صحافی کی حیثیت سے اردو شعرو ادب کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں انہوں نے رینو کے شہر نامی کتاب کے حوالہ سے کہاکہ حقانی القاسمی نے ہمیشہ علاقاۂی فنکار کو مرکز میں جاۂز مقام دلانے کے لیے کوشاں رہے ہیں مسٹر شمس نے کہاکہ: انہوں نے نیے جملوں کو بھی تراشا ہے نیے لفظوں کو بھی برتا ہے وہ ایک داۂرہ کے اندر محدود نہیں ہیں وہ ایک اردو کے مشعل راہ ادیب و ناقد ہیں جس سے اردو ادب کو نیی روشنی مل رہی ہے ریٹاۂرڈ اے ڈی جے استاذ شاعر زبیر الحسن غافل نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوۂے کہاکہ: حقانی القاسمی کی متعدد تصانیف قبول خاص و عام ہو چکا ہے وہ اردو ادب کے ایک بیش قیمتی اثاثہ ہیں سینیر صحافی و افسانہ نگار پرویز عالم علیگ نے حقانی القاسمی کی تصنیف رینو کے شہر میں کے حوالہ سے بات کرتے ہوۂے کہاکہ: انہوں نے اردو ادب میں نہ صرف نیے رجحانات’ نیا رویہ اور اسلوب دیا بلکہ اپنی تصنیف کے ذریعہ مقامی اور غیر معروف اردو ادباء و شعراء کو وقار بخشا اور نیا حوصلہ مسٹر عالم نے کہاکہ: ان کی تصنیف رینو کے شہر میں مستند تاریخی حوالہ ہے معروف شاعر مسٹر دین رضا اختر نے کہاکہ:عصر حاضر میں اردو بلند پایہ ادیب و محقق جناب حقانی القاسمی کی شخصیت کے گوناگوں پہلو ہیں ان پر سیر حاصل گفتگو کے لیے ایک دفتر درکار ہوگی انہوں نے کہاکہ: صدیوں مہیب اندھیروں میں گم مقامی فنکاروں کو انہوں نے جو شناخت عطا کیا ہے وہ ایک تاریخی کارنامہ ہے مشہور افسانہ نگار رہبان علی راکیش نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوۂے کہاکہ: ان شخصیت فنکار کی سی ہے ہم ان کی بلند پایہ شخصیت کی ہم قدر کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ: ان کے لیے ہمارے دلوں میں محبت اور احترام کا ملا جلا جذبہ موجزن ہے ڈاکٹر ضیاء الرحمان نے حقانی القاسمی کی تصانیف فلسطین کے چار ممتاز شعراء’ طواف دشت جنوں’ لاتخف’ تکلف بر طرف اور دارالعلوم دیوبند کے حوالہ سے کہاکہ: ان تصانیف سے ان کی علمی تنقیدی کے حوالہ سے دلوں میں اقبال مندی اور سرفزازی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے انہوں نے کہاکہ جناب حقانی نے اردو ادب و تنقید کو ایک نیا رجحان دیا اور نیے رویوں کو متعارف کرایا اس موقع پر عبدالمجید ایجوکیشنل ویلفیر ٹرسٹ کی جانب سے مسٹر رہبان علی راکیش نے رفقاء کے ساتھ شال اوڑھا کر جناب حقانی القاسمی اور ڈاکٹر عبدالقادر شمس کی عزت افزاۂی بھی کی تقریب کی صدارت مسٹر شفیع احمد ایڈوکیٹ نے فرماۂی جبکہ نظامت کے فراۂض عبدالغنی نے انجام دیا اس موقع پر مختصر شعری و نثری نششت کا بھی انعقاد ہوا جس میں رضی احمد تنہا’ رہبان علی راکیش’ دین رضا اختر’ ڈاکٹر ضیاء الرحمان ضیاء’ رفیق الاکرم ‘ عفان احمد کامل اور عبدالغنی نے اپنے تازہ کلام سے حاضرین کو محذوذ کیانثر میں افسانہ نگار پرویز عالم نے” تابوت” افسانچہ پڑھ کر سنایا جسے سامعین نے خوب سراہا اس اہم تقریب میں اس موقع پر الکتاب کے عبد الرحمان’ عبدالباری ساقی’ سرور عالم ندوی ‘ مفتی انعام الباری اسامہ رحمان اور علامہ غزالی کے علاوہ اہل ذوق حضرات موجود تھے افتتاحیہ اور خیر مقدمی کلمات مولانا ابصار الخیران قاسمی نے کیا جبکہ ادارہ ادب اسلامی کے سکریٹری شفیق احمد سونی کے اظہار تشکر پر تقریب اختتام پذیر ہوۂی