مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
انسان چلا جاتا ہے، اس کی خوبیاں رہ جاتی ہیں، سب جانتے ہیں، سب کو یقین بھی ہے، اور ایمان بھی ہے کہ فناء سب کا مقدر ہے، لیکن کچھ لوگ جاتے ہیں تو اپنوں کے ساتھ ہر آشنا تڑپتا ہے، سسکتا ہے بلکتا ہے، دل میں رنج و الم کا طوفان برپا ہوتا ہے،آنکھیں آنسو ڈھلکا کر اس کا اظہار کرتی ہیں، یا یوں کہئے کہ دل کا لہو آنسو بن کر چھلکتا ہے، خلق خدا کی زبانیں شہادت دیتی ہیں کہ وہ خدا کا برگزیدہ اور محبوب بندہ تھا، جانے والے کا جانشین نظر نہ آئے تو تکلیف دوبالا ہوجاتی ہے،زبان اس کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے افسوس کا اظہار یوں کرتی ہے کہ
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔
چندرسین پور میں علم دین کے رکھوالوں کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی حضرت مولانا عبد المالک صاحب بھی اس دار فانی سے، دار بقاء کی طرف کوچ کر گئے،ان کے ہزاروں شاگرد اور فیض یافتگان بے چین و مضظرب ہیں، اپنے شریف النفس، سادہ مزاج، مشفق مربی کی جدائی پر ماتم کناں ہیں، کبھی ان کا ہنستا چہرہ نظروں کے سامنے جھلکتا ہے تو کبھی اس سادہ لوح انسان کی اخلاص و وفا اور شفقت و محبت میں ڈوبی، مخصوص لب و لہجہ والی جھڑکی کانوں میں گونجتی ہے، ایسے خدا ترس، بے غرض، بے لوث، استاذ، ہم سے دور بہت دور، رب رحمن و رحیم کی اتھاہ رحمتوں کی آغوش میں چلے گئے۔
حضرت مولانا عبد المالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یادیں ان کی باتیں، ان کے نصائح آئینہ خیال پر ایک ایک کرکے ابھر رہے ہیں، ان کا سراپا کیا تھا، سادگی کا ایک مجسمہ تھا، سانولا اور بھرا پورا چہرہ، چہرے سے ٹپکتا عالمانہ رعب، گھنی داڑھی، چوڑی پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں،گٹھیلا جسم، میانہ قد، نرم اور قدرے جھومتی چال، طرز حیات میں بزرگوں کی قدیم روایات کے امین تھے، وہ خوش گفتار، نرم خو، حلیم الطبع، متعدل مزاج، انتہائی متحمل اور برد بار ہونے ساتھ “,نرم دم گفتگو گرم دم جستجو” کے حقیقی مصداق تھے، لحیم و شحیم ہونے کے باوجود سستی سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا، طلبہ کیلئے تو وہ سرحد پر بیٹھے بیدار مغز اور ہر دم تیار “کمانڈر” کی طرح تھے، طلبہ کے ڈھیلے رویے اور کاہلی سے انہیں عداوت تھی۔
مولانا عبد المالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ سنہ یکم جنوری 1950 کو، مدھوبنی کی زرخیز بستی، چندرسین پور کے ایک دین دار، کسان گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ایک خداترس، شریف النفس اور انتہائی متواضع شخص تھے،علماء و صلحاء سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا، گاؤں میں علم دین کے آفتاب و ماہتاب موجود تھے، جو دین و شریعت کے ساتھ سلوک وطریقت کی روشنی سے خطہ کو منور کر رہے تھے، لہذا طبعی طور پر آپ کے والد پر بھی ان نفوس قدسیہ کے فیضان نظر کی شعائیں پڑ رہی تھیں، حضرت مولانا کی شخصیت پر ان کے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کی شرافت و سنجیدگی اور حلم و بردباری کا اثر صاف جھلکتا تھا، قدیم زمانہ سے ہی گاؤں میں دینی تعلیم کا عام رجحان تھا، لہذا مولانا رحمۃ اللہ علیہ جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے تو گاؤں کی عام روایات کے مطابق استاذ الاساتذہ حضرت مولانا امیر الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کئے گئے، قرآن کریم، فارسی اور اردو کی ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ بشارت العلوم میں داخل ہوئے، جہاں آپ اپنے وقت کے با فیض اساتذہ حضرت مولانا سعید صاحب ، مولانا عتیق الرحمن صاحب اور حضرت مولانا زبیر صاحب رحمہم اللہ کے چشمہ حکمت و معرفت سے فیض یاب ہوتے رہے، شرح وقایہ اور نور الانوار کی تکمیل کے بعد سنہ 1969 میں علوم دینیہ کے مرکز اور دین کے ہر متلاشی کی آخری آرزو، دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، وہاں چار سالوں تک وقت کے رازی و غزالی، سے علوم دینیہ کے جواہر پارے سمیٹتے رہے، 1972 میں آپ نے دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی، شیخ الحدیث مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ سے آپ نے بخاری شریف پڑھی، سند فراغت حاصل کرنے کے بعد تدریسی زندگی کا آغاز، مدھوبنی میں واقع مدرسہ عثمانیہ، کھجری، سے کیا، وہاں دو سالوں تک پڑھاتے رہے، پھر اپنے استاذ مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایماء پر اپنی مادر علمی مدرسہ بشارت العلوم آگئے، اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے، 2017 میں پیرانہ سالی اور بڑھتے ضعف کی وجہ سے مدرسہ سے سبکدوش ہوئے، بقیہ زندگی آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ گاؤں میں ہی گذاری، الحمد للّہ آخری عمر تک موذی اور دائمی امراض سے محفوظ رہے۔
آپ الحمد للّہ کثیر الاولاد تھے، اللہ نے انہیں چھ لڑکے اور ایک لڑکی سے نوازا، صاحبزادگان میں مولانا حماد صاحب قاسمی، مولانا ارشاد صاحب قاسمی ، ماسٹر شمشاد صاحب ، مولانا نوشاد صاحب قاسمی، ڈاکٹر محمد افضال صاحب ،محمد سجاد صاحب ، تمام صاحبزادگان اپنے والد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے درس و تدریس میں مصروف ہیں، ڈاکٹر محمد افضال مدھوبنی کے ایک مشہور ہاسپیٹل میں شعبہ “فیزیو تھراپی” کے ذمہ دار ہیں۔
مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرا، آپ کی مادر علمی ہونے کے ساتھ آپ کا میدان عمل بھی رہا اسلئے مدرسہ سے ان کا والہانہ تعلق اور خصوصی لگاؤ ایک فطری تقاضا ہے، اگر کہا جائے کہ بشارت العلوم کو اپنے خون جگر سے سینچنے والوں کی پہلی صف میں آپ کا نام بھی شامل ہے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا، حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد جب منصب اہتمام مولانا اہل اللہ صاحب قاسمی رحمہ اللہ کے سپرد کیا گیا تو قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ “مدرسہ کے تئیں مولانا عبد المالک صاحب کی ذمہ داریاں پہلے سے بڑھ جائیں گی، انہیں پہلے سے زیادہ توجہ دینی ہوگی” اور انہوں نے یہ کرکے دکھایا، جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی اس کا حق ادا کیا، بلکہ اپنی زندگی وقف کردی، جس طرح اپنے استاذ اور سابق مہتمم مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمۃ اللہ کے دست راست اور ہمراز تھے اسی طرح مولانا اہل اللہ صاحب قاسمی رحمہ اللہ کے قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے، خواہ صدر المدرسین کی حیثیت سے ہو،یا مختلف اوقات میں مختلف شعبوں کے ناظم کی حیثیت سے، آپ نے مدرسہ کی ذمہ داری کو ہمیشہ اولیت دی، مدرسہ ہی ان کے فکر و عمل کا محور تھا، ان کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ بشارت العلوم کیلئے وقف تھا، خارجی امور اور مالی وسائل کی فراہمی کی بیشتر ذمہ داری موجودہ ناظم مولانا قیصر صاحب قاسمی کے کندھوں پر تھی، اور داخلی نظم و نسق کے پہیہ کا دھورا مولانا عبد المالک صاحب تھے، درست ہے کہ ادارہ کی ترقی ایک اجتماعی عمل ہے، چھوٹے سے چھوٹے ہر کارکن کا اپنا ایک مخصوص کردار ہوتا ہے، اس سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ ادارہ کی ترقی کو زندگی کا مشن بنا لینے والے بھی گنے چنے، مخصوص افراد ہی ہوتے ہیں، کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ ان کی پذیرائی ہونی چاہئے، ایک ایک حرف کی ذمہ داری لیکر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مولانا عبد المالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان مخصوص افراد میں سے تھے جنہوں نے مدرسہ کی ذمہ داریوں کو اپنی زندگی کا اہم ترین مشن سمجھ کر پورا کیا، ان کے کندھوں پر ایک طرف تدریس کی ذمہ داریاں تھیں، دوسری طرف مختلف شعبوں کے نظم و ضبط کا بوجھ تھا، ان کی مشینی زندگی کا ہر لمحہ نپا تلا، اور مدرسہ کے کسی نہ کسی کام کیلئے مخصوص تھا، وہ اپنی ذمہ داریوں میں اس قدر منہمک تھے کہ اگر کہا جائے کہ اپنی ذات، اور زندگی کا لطف بھلا چکے تھے تو شاید غلط نہ ہو، ہم نے خود دیکھا ہے، فجر کی اذان کے بعد ان کی مصروفیات کا آغاز ہوتا، طلبہ کو بیدار کرتے، فجر بعد قرآن کریم کی تلاوت، پھر چائے، ناشتہ کے بعد تدریسی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہو جاتے ، اسی دوران نظم و نسق سے متعلق دوسرے امور بھی انجام دیتے، طلبہ میں ظہرانے کی تقسیم کی نگرانی بھی عموما خود کرتے، اس کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ فرماتے، ظہر کی نماز کے بعد پھر درس وتدریس کا آغاز ہوتا، عصر کے بعد مطبخ کا جائزہ لیتے، مغرب بعد طلبہ کی نگرانی اور مطالعہ فرماتے، عشائیہ کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی، پھر نصف شب تک مطالعہ میں مشغول رہتے، یہ تھا شب روز کا معمول، اور یہی تھی ان کی مشینی زندگی، انہیں مصروفیات کے درمیان سے اپنے لئے جو تھوڑا بہت وقت نکال لیتے، اسی میں اپنے مخصوص کام پورے کرتے ، ایک وقت تھا جب مدرسہ میں قلت اسباب کی وجہ سے اساتذہ کی تعداد میں اضافہ ممکن نہیں تھا، لہذا موجود اساتذہ کو ہی اضافی ذمہ داریوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا تھا، ان ایام میں حضرت مولانا عبد المالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ مستقل چھ کتابیں پڑھاتے، آپ کا کوئی گھنٹہ خالی نہیں ہوتا، کبھی تکان کی شکایت یا اضافی ذمہ داری سے فرار کیلئے کوئی بہانہ نہیں کیا، سچ کہیں تو اسے فنائیت کا نام دیا جا سکتا ہے، نوکری کرنے والے اپنی تنخواہ سے ذمہ داریوں کا حساب لگاتے ہیں، موازنہ کرتے ہیں، کام کا پلڑا ذرا جھکتا نہیں کہ”ہائے توبہ” کا شور ہوتا ہے، لیکن خدمت کرنے والے کی پیشانی پر تکان کے آثار ظاہر ہونے سے کتراتے ہیں، ان کا چین، سکون، زندگی کی خوشی،اس کا لطف سب کچھ وقف ہوتا ہے، مولانا عبد المالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی دین کے ایسے ہی سچے اور بے لوث خادم تھے۔
مولانا رحمہ اللہ کی طالب علمی کا زمانہ تھا، اور طالب علم چوں کہ عموما نوجوان ہوتے ہیں، نا تجربہ کاری کے ساتھ لا ابالی پن کا غلبہ ہوتا ہے، اسلئے ذمہ داریوں کے حوالے سے ان پر اعتماد مشکل ہوتا ہے، لیکن مولانا رحمۃ اللہ کو شرف حاصل تھا کہ آپ کے استاذ اور مدرسہ کے مہتمم حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب کو آپ کی سنجیدگی، خوش انتظامی ، احساس ذمہ داری اور دیانت داری پر اس قدر اعتماد تھا کہ زمانہ طالب علمی میں جب آپ آخری درجات میں تھے تبھی سے مطبخ کے نظم و نسق کی ذمہ داری آپ کے سپرد کردی، اور دارالعلوم دیوبند میں داخلہ سے قبل تک اسے بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔
مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے مولانا عبد المالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا خصوی تعلق ان کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے، جنہوں نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ اپنے استاذ کی محبت میں وہ فناء تھے، یہ حقیقت ہے کہ استاذ کے دل میں شاگرد کو، شوق اور جذبہ کے ساتھ اطاعت گزاری کے بقدر جگہ نصیب ہوتی ہے، طالب علم چاہے جتنا ذہین و فطین اور علمی نکتوں کی صیادی میں چاق و چوبند ہو استاذ کی شفقت موج بن کر تبھی چھلکتی ہے جب شاگرد ایک طرف حصول علم کے تئیں کمال شوق اور جذبہ فراواں سے سرشار ہو، اس کی آنکھوں سے امنگ اور حوصلہ مندی کے شرارے پھوٹتے ہوں، محنت اور لگن اس کے دل میں برپا حوصلہ مندی کے طوفان کا پتہ دیتے ہوں، اس کی پیشانی سے ذکاوت و ذہانت سے زیادہ گرمئ شوق نمایاں ہو، اسی طرح انقیاد و اتباع،اور تابعداری و فرمانبرداری اس کا شعار ہو، تب جاکر استاذ کی توجہ شفقت و محبت کے پیرائے میں ظاہر ہوتی ہے،
مولانا رحمۃ اللہ علیہ میں یہ ساری خوبیاں جمع تھیں، پہلے ان کی ذات حضرت مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کیلئے وقف تھی ، اور ان کی وفات کے بعد حضرت مولانا عتیق الرحمن رحمہ اللہ سے تو جیسے انہیں عشق تھا، استاذ نے بھی اپنا بیٹا بنا کر رکھا، قدم قدم پر رہنمائی کی، ان کی علمی و روحانی ترقی کی فکر میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مدرسہ کے معاملات میں اپنے چہیتے شاگرد پر بے انتہا اعتماد کرتے تھے، حتی کہ بعض گھریلو معاملات میں بھی ان سے گھر کے فرد کی طرح مشورہ کرتے ، ادھر شاگرد نے بھی استاذ کو آنکھوں کا سرمہ بنالیا، ایک طرف حصول علم کیلئے جہد مسلسل نے انہیں استاذ کی آنکھوں تارا بنادیا تھا تو دوسری طرف فرمانبرداری میں وہ فناء ہوگئے تھے، مشہور تھا کہ اگر مولانا عتیق الرحمن صاحب شب دیجور کی سیاہی کا انکار کریں تو مولانا عبد المالک صاحب کی زبان سے “صدقنا”کے علاوہ کچھ نہیں نکل سکتا۔
علمی دنیا کی ایک کڑوی سچائی ہے کہ کچھ لوگوں کی خدمات حجم میں چاند ستاروں سے بڑی ہوتی ہیں لیکن ان کی سادگی و تواضع کے دبیز پردے میں وہ اس طرح چھپ جاتی ہیں کہ لوگوں کی نظریں ان پر نہیں پڑ تیں، بہت کم لوگ ان کی شخصیت اور ان کی خدمات سے واقف ہوپاتے ہیں، جس پذیرائی کے وہ مستحق ہوتے ہیں انہیں نہیں ملتی، پھر جب وہ اس فانی دنیا سے رخصت ہوجاتے تو دل کہتا ہے۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔
مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات بھی اتنی عظیم ہیں کہ ایک مختصر سوانحی خاکہ میں ان کا احاطہ مشکل ہے، ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جو تقریبا 45 سالوں ہر محیط ہے ، ملت کے نونہالوں کے بال و پر سنوارنے میں گذرا، مدرسہ بشارت کو ایک ننھے پودے سے تناور درخت بنانے میں ان کا اہم کردار ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا، بشارت العلوم کی تاریخ جب بھی لکھی جائے وہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہوگی۔
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، بافیض مدرس، باتدبیر منتظم ،مشفق مربی، جان پرسوز کا حامل خدمت گار، یہ تمام خصوصیات ایک فرد واحد میں سمٹ کر جمع ہو گئی تھیں۔
طلبہ کیلئے وہ انتہائی نرم دل اور مشفق استاذ تھے، غیر ضروری سختی اور بے جا تکلفات سے انہیں طبعی طور پر بعد تھا، مدارس کے عام ماحول سے الگ زیادہ تر اپنا کام خود کرتے تھے، مدارس میں عشاء کے بعد اساتذہ کی خدمت کا ماحول ہوتا ہے، مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جانے والے طلبہ کیلئے وہ وقت تعلیم وتعلم کا دورانیہ بن جاتا تھا، گذشتہ اسباق سے متعلق سوالات کرتے، یا طلبہ کے سوالات کے جوابات دیتے، طلبہ کو غلطیوں پر متنبہ کرتے ضرورت ہوتی تو تادیبی کاروائی بھی کرتے البتہ بے جا مارپیٹ سے اجتناب کرتے تھے تاکہ طلبہ میں بیزاری پیدا نہ ہو۔
انسان جس سماج میں رہتا ہے وہاں لوگوں کے ساتھ معاملات اس کی ضرورت ہوتی ہے، نتیجۃ نو بہ نو مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو ان مسائل کو سنجیدگی اور دوستانہ ماحول میں حل کرلیتا ہے وہ سماج میں عزت و احترام کا مستحق ٹھہرتا ہے، اس کے برعکس جو ان مسائل کو انتشار کی وجہ بنالیتا ہے وہ سماج کیلئے ضرر رساں سمجھا جاتا ہے، لوگوں کی نظر میں عزت و توقیر اس کا مقدر نہیں ہوتی، مولانا عبد المالک صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہلی قسم کے لوگوں میں سے تھے، گاؤں اور مدرسہ کے درمیان ان کی زندگی گذری لیکن شدید نوعیت کے اختلاف کی نوبت شاید و باید آئی، مدرسہ ہو یا گاؤں اگر کبھی کسی سے تکرار کی ہو گئی یا کسی وجہ سے تعلقات مکدر ہوگئے، تو مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے ہمیشہ پہل کرتے ہوئے رنجش ختم کر نے کی کوشش کی، مدرسہ بشارت العلوم کے ایک قدیم استاذ نے بتایا کہ مدرسہ کے اساتذہ و کارکنان کے ساتھ تو ان کا معاملہ بالکل گھر کے بڑے بوڑھے ذمہ دار والا تھا، گھر کا کوئی ممبر کسی ذہنی تناؤ کی وجہ سے کبھی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے تو معاملہ فہم ذمہ دار اسے گستاخی اور بد تہذیبی پر محمول کرتے ہوئے اپنی آن کا مسئلہ نہیں بناتے، بلکہ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے افہام و تفہیم سے کام لیتے ہیں، کبھی خاموشی اور کبھی ناصحانہ جھڑکی سے انہیں سلیقہ مندی کا سبق دیتے ہیں۔
مدرسہ کے اکثر اساتذہ و کارکنان عمر میں چھوٹے تھے ، لہذا ان کے ساتھ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا رویہ بھی یہی تھا کہ کسی کی ناراضگی کو اپنی شان میں گستاخی سمجھنے کے بجائے کبھی ہنس کر اور کبھی جھڑک کر ٹال دیتے پھر بعد میں انہیں سمجھاتے، اور ہر ایک کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرتے، یہ تھا ان کا بڑپن، اور زندگی کے اسی طرز عمل نے انہیں ہر دلعزیز اور سب کا محبوب بنایا تھا، کوئی ان سے محبت نہ کر سکا تو دشمنی کا موقع بھی انہوں نے کسی کو نہیں دیا، یہی وجہ ہے کہ آج ان کی وفات پر ہر شخص رنجیدہ اور ملول خاطر ہے، زبان حال سے کہہ رہے ہیں
افلاک رو رہے ہیں زمیں بھی اداس ہے
آنسو بہا رہی ہے فضا تیری موت پر
دعا ہے کہ اللہ انہیں ان کی خدمات کا بہترین صلہ دے اور اپنے جوار رحمت میں مقام خاص عطاء کرے۔