روایتی پیشوں کا زوال اور مسلم نوجوانوں میں پیشہ ورانہ تعلیم کی ضرورت

محمد علم اللہ، نئی دہلی

ہمارے نوجوان معاشرتی علوم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جیسے ہی یونیورسٹی کے کسی کورس میں داخلہ لیتے ہیں، وہ دائیں اور بائیں بازو کاشکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کوئی بے دین ہوجاتا ہے، کچھ بھکت بن جاتے ہیں اور باقی جو بچتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں اس پر گفتگو کرنا بے معنی ہے۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں علمی طور پر پولورائزیشن کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ موجودہ طبقاتی و سیاسی چپقلش کے ماحول اور آمرانہ نظام کے عروج کے دور میں ان میں سے ایک بڑی تعداد سیکولرازم کے سوالات کو دبانے کی کوشش میں بائیں بازو کی طرف مڑ جاتی ہے۔یہ بہت ہی سنگین مسئلہ ہے جس کا مشاہدہ مجھ جیسے بہت سے لوگوں نے کیا ہوگا۔دراصل اس صورت حال کا تعلق مسلم نوجوانوں کے مستقبل سے ہے۔

مسلم طلبہ کو ایک یہ سبق دیا جاتا ہے کہ کاروبار اور دولت کا حصول کس طرح برا ہے، بدقسمتی سے ہمارے اکثر نوجوان اس معمہ کی حقیقت کو جانے بغیر اس مفروضے میں پھنس جاتے ہیں اور جو لوگ انہیں سکھا تے ہیں کہ انفرادی طور پر دولت کا حصول اچھی بات نہیں ہے، ان میں سے بیشتر جاگیردارانہ بلکہ اہل ثروت اور مال دار خاندان یا اس پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اس چیز کو برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ عام متوسط طبقہ کے نوجوان تعلیم کی بنیاد پر ان کے برابر ہوجائیں۔ جب تک وہ اپنے خاندانی رابطہ میں واپس جائیں گے اس مہم جوئی کے متحمل ہوجائیں گے۔

اس بابت ایک نجی گفتگو میں میرے بزرگ اور کرم فرما ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے مجھے بتایا کہ پڑھائی کے دوران جزوقتی ملازمتوں میں مشغول ہونے سے بہت سی پریشانیوں پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ مغربی معاشروں میں 18 سال سے زائد عمر کے طالب علموں کا بشمول ملیشیا اور انڈونیشیا میں چند گھنٹوں تک سیلز پرسن کے طور پر کام کرکے اپنی جیب خرچ نکالنا عام بات ہے، اکثر یونیورسٹی کیمپس کے اندر ہی وہ کچھ چھوٹے موٹے کام کر لینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والے طالب علم جو بیرون ملک مغرب میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ اکثر اپنی کفالت کے لیے جزوقتی ملازمت کرتے ہیں۔ اس طرح کے کام کرنے سے نہ صرف مالی آزادی ملتی ہے بلکہ کسی کی پیشہ ورانہ مہارت اور کام کے تجربے میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جو انہیں مستقبل کے مواقع کے لئے تیار کرتا ہے۔ جب میں ملیشیا میں پڑھا تا تھا میں نے ایک طالب علم سے پوچھا:’’ کل آپ نے کلاس کیوں مِس کی؟‘‘ اس نے جواب دیا: ــ’’ہم لوگوں نے رمضان میں افطاری کا اسٹال کھول رکھا ہے کل وہاں میری باری تھی۔ ‘‘طالب علم وہاں کے سپریم کورٹ کے جج کے صاحب زادے تھے۔ میں نے پوچھا آپ کے والدین یہ جانتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسٹال اپنے ہی علاقے میں کھولا ہے۔

متوسط طبقہ کو یہ فراخی میسر نہیں آتی۔ ایک خاص موڑ کے بعد وہ خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں، انکے سامنے بس یہی ایک صورت ہوتی ہے کہ وہ اب جائیں تو کہاں جائیں۔ زندگی سے مایوس ہو کر چھوٹی چھوٹی نوکریوں سے کام چلاتے ہیں۔ بسا اوقات گاؤں لوٹتے ہیں تو خود کو لٹا ہوا اور مجبور محسوس کرتے ہیں اورپھر چار و ناچار انہی قدیم آبائی پیشوں سے وابستہ ہوجاتے ہیں،جنہیں چھوڑنے اور نئے میدان فتح کرنے کا عزم لئیانھوں نے بڑے شہروں کی جانب یونی ورسٹیوں یا جدید دانش گاہوں کا رخ کیا تھا۔

یوپی اور بہارجیسی کثیر آبادی والی ریاستوں میں زراعت کے پیشے میں سب سے سنگین صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں کسی وقت زمین داری کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ آزادی کے بعد زمین داری کا سسٹم ختم ہونے کے بعد بھی بہت سے لوگ خاندانی زمین بچانے میں کام یاب رہے اوراپنے طورپر کاشتکاری کرنے لگے۔ مگرایک توپشتینی زمین نسل در نسل تقسیم ہونے سے خود بخود گھٹتی چلی گئی،دوسرے گزشتہ چند سالوں کے دوران حکومت کی پالیسیوں نے کاشت کاروں کی کمر توڑ ڈالی۔اس کی وجہ سے بہت سے لوگ آبائی کام کو چھوڑ کر اور زمینیں فروخت کر کے دیگر پیشوں سے وابستہ ہوگئے۔ مگر مسلمانوں کی بہ نسبت پنجاب میں سکھوں نے اپنے بچوں کو زراعت میں اعلیٰ تعلیم دی اور خاندانی پیشے کو زیادہ ترقی دی۔

کیا مسلمانوں کو بھی اسی جانب توجہ نہیں دینی چاہیے تھی؟ ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں کہا جاتا تھا کہ:’’اُتَّم کھیتی مَدَّھم بان نِکَھد چاکْری بِھیک نَدان‘‘مطلب سب سے اونچا پیشہ کاشت کاری ہے۔ تجارت درمیانہ درجے کا پیشہ ہے۔ نوکری سب سے گھٹیا اوربھیک مانگنا بدترین عمل ہے۔ ایک وقت اس پیشے کی اہمیت یہ تھی کہ اسے پہلے نمبر پر رکھا جاتا تھا۔ مگر اب حالات بہت بدل گئے ہیں۔کئی سالوں سے، کھیتی باڑی، بُنائی، اور لوہار جیسے روایتی پیشے بہت سی جگہوں پر مسلم معاشرہ کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔ یہ پیشے ضروری سامان اور خدمات مہیا کرتے تھے اور اکثر نسل در نسل منتقل ہوتے تھے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں، ان روایتی اشیا اور خدمات کی مانگ میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے یہ پیشے زوال پذیر ہیں۔ شہر کاری، مشینی دور اور نئی ٹیکنالوجی کے عروج جیسے عوامل نے بھی اس کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے آبائی پیشے جیسے برتن سازی، تالا سازی، کپڑا سازی وغیرہ ہنر کو پڑھ لکھ کر انہیں مزید بہتراور ترقی دینے کے بجائے انہیں چھوڑرہے ہیں۔ نتیجتاً مسلم پس منظروالی پیشہ ورانہ صنعت زوال پذیر ہے۔ پھرتجارت کو جسے اپنانے کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے تاکید فرمائی، بطور پیشہ اختیار کرنے والے طلبہ ونوجوانوں کو تحقیر آمیز نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب کوئی طالب علم تجارت کے کسی شعبے میں کام یابی حاصل کر لے توپھر اسے باعزت سمجھا جاتا ہے۔ اس روش کو بھی بدلنا ضروری ہے۔

ہنر اور خاص طور پرپیشہ ورانہ (ووکیشنل) تعلیم آج کے نوجوانوں کو کارآمد اور دل چسپ روزگارفراہم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ میری کرم فرما محترمہ سلمٰی جیلانی جو نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں نے بتایا کہ اس ملک میں ستانوے فی صد چھوٹے کاروبار ہیں اور ان میں سے اکثر زرعی پیشے سے وابستہ ہیں، جنہیں جدید خطوط پر آراستہ کرنے سے آمدنی کے ذرائع بہتر ہوتے ہیں۔

ہندوستان میں بہت سے آبائی پیشے ایسے ہیں جنہیں جدید خطوط پرڈھالاجا سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں متعارف کرا کر آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے بازار میں جگہ بنائی جاسکتی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم اس جانب کم توجہ دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کواس عام تصور کو خیرباد کہنا ہو گا کہ پیسہ کمانا کوئی بری بات ہے کیوں کہ پیارے نبی ﷺ نے مضبوط مسلمان کو کم زور مسلمان پر ترجیح دی ہے۔ اوردینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اس کا مطلب یہی ہوا کہ اگر کوئی معاشی طور پر مستحکم ہو گا تب ہی غریبوں کی مدد کر سکے گا۔

بے شک خاندانی پیشہ ورانہ کام میں چینی مال بہت بڑا چلینج بن گیا ہے اور ہمارے کاری گر ابھی بھی پرانے کے زمانے کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں،مقابلہ نہیں کر پاتے، تاہم پڑھنے لکھے بچے اپنے خاندانی پیشوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرکے اس چلینج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ظاہری شان و شوکت، مالی فراوانی اوراہم عہدوں کے حصول کی طلب میں مسلم نوجوان کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ وہ سوچ ہے جو کم علمی کی بنا پر ان کے ذہنوں میں بھر دی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا صرف آخرت کی تیاری کی جگہ ہے اور یہاں خود دنیاوی ترقی کے لیے ہاتھ پائوں مارنا اصل مقصد سے ہٹ جانے کے مترادف ہے، یہ بات دینی تعلیمات کی روشنی میں درست نہیں کہی جاسکتی کیوں کہ قرآن مجید میں قصہ قارون میں اللہ تعالٰی دین ودنیا کے حصول میں توازن بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’جو کچھ تمہیں (مال) دیا گیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے گھر کے بارے میں فکر کرو اور دنیا میں جو تمہارا حصہ ہے اسے بھی مت بھولو اور ویسے ہی اچھائی کرو جیسے اللہ نے (مال عطا کر کے) تمہارے ساتھ اچھائی کی۔ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ کیوں کہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (القصص:۷۷)

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قارون کو یہ نہیں کہا جا رہا کہ دنیا کا حصول یا اس کی طلب کے لیے کوشش ہی نہ کر بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اسے حاصل کر لیکن اس کے ذریعے اپنی آخرت کو کام یاب بنا یعنی اس مال کو لوگوں پرخرچ کر۔ لوگوں پرکیا سارا مال خرچ کرنا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالٰی سورہ بقرہ آیت نمبر 219 میں ارشاد فرماتے ہیں:’’آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو ان میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت بڑا ہے، اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں، کہہ دو جو زائد ہو، ایسے ہی اللہ تمہارے لیے آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔‘‘

یہاں پر یہ غور کرنے والی بات ہے کہ: جو مال ضرورت سے زیادہ ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردو، جس کا مطلب یہ ہے کہ مال کمانا اور پھر اپنی ضروریات کے بہ قدراس کو اپنے پاس باقی رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ زکوٰۃ اوردیگر مدات میں جو ضروری انفاق ہے وہ بھی اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ایک خاص مقدار اللہ کے نام پر بس خرچ کی جائے اورباقی مال اپنی ضروریات میں صرف کیا جائے سو یہ کہنا یا خیال رکھنا کہ دولت کا حصول بہ ذات خود یا اس کے لییکوشش شریعت کی نظرمیں کوئی نامناسب عمل ہے،غلط ہے۔

اسی طرح عہدے کی حصول کی بات کی جائے تو اپنی حیثیت کی بحالی اور جملہ دینی و معاشرتی سطح پر انفرادی یا اجتماعی بھلائی کی غرض سے اس کا حصول یا کوشش بھی کوئی بری چیز نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ مجھے وزیرخزانہ بنا دیا جائے کیوں کہ اس سے ایک تو ان کی اپنی حیثیت میں اضافہ ہوتا، دعوت کے کام میں مفید ثابت ہونا تھا اوردوسرے اہل مصر کی بھلائی بھی اسی میں پوشیدہ تھی۔

نوجوانوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ گریجویشن کی تکمیل کے ساتھ ہی جزوقتی طور پر مزید اعلٰی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کوعملی طور پراپنے من پسند میدان اورمزاج کے موافق آمدنی کے ذرائع سے وابستہ کریں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پڑھنے کے بعد دماغ لگایا جائے تو اچھا کمایا جاسکتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سمجھیں کہ پیسہ کمانا بھی ہماری جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہے۔ جتنا ہوسکے جائز طریقوں سے امیر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔اسلام میں جو بات ناپسند کی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ مال کی بے جا ہوس پیدانہ ہو جائے کہ آدمی حرام وحلال کی تمیز بھی ختم کردے یا پھر مال کی جو دوسری مضرتیں ہیں جیسے فرعونیت اور ہامانیت مسلمان ان سے خود کو بچائے رکھیں۔ایک مسلمان کو مال کمانے کی فکر ضرور ہونی چاہیے مگرمال کی مضرتوں سے بچنے کی فکراس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے،اسلام کا منشا یہی ہے ورنہ مال تو اللہ کی نعمت ہے اور اللہ کی نعمتوں پر سب سے زیادہ حق ایک مومن بندے کا ہی ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ایک بہت ہی اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مسلمان قوم کے جو بچے اپنے آبائی پیشوں بہ طورخاص زراعت اور محنت مزدوری کے کاموں سے نکل کر تعلیم کی طرف آرہے ہیں،ان کی ہرممکن مدد کی جائے اور نئے میدان فتح کرنے میں ان کا تعاون کیا جائے۔ خاص کر قوم کے وہ بچے جو دینی تعلیم کی طرف جارہے ہیں، صحافت کو بطور پیشہ اختیار کررہے ہیں، خاص کر اردو صحافت کو، انہیں ان کی محنت، لیاقت اورکام کا بہتر معاوضہ ملنا چاہیے تاکہ وہ ترقی کرسکیں اوراپنا اور اپنی قوم کا نام روشن کرسکیں۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹی اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com