بھار کی سیکولر حکومت کے متعصب عوامی نمائندے اور زعفرانی پولیس

ابو ارقم نبیل اختر نوازی
بھار حکومت کے کئ کارنامے قابل ستائش ہیں, جس میں سر فہرست شراب بندی قانون کا مکمل نفاذ اور اس کی بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کا حاصل ہونا ہے, اس کی ایک بڑی جھلک 21 جنوری کو پورے بھار کی عوام نے انسانی زنجیر کی شکل میں عالم انسانی کے سامنے پیش کی جو ملک ہندوستان کی تاریخ میں ایک روشن مستقبل کی ضمانت اور شاندار باب کے اضافہ کی حثیت رکھتی ہے, جس کے لئے حکومت بھار بھی مبارکباد کی مستحق ہے اور بھار کی عوام بھی, یہ تصویر کا پھلا رخ ہے جو روشن ہے مگر تصویر کا دوسرا رخ نہایت ہی بد نما اور مسلم نوجوانوں کو سیاست میں عملی طور پر آنا بیحد ضروری ہے, اس کے لئے مستقل لائحہ عمل کی ضرورت ہے, وقتی فائدے کی سیاست دیر پا نہیں ہوتی, خدمت خلق اور سماجی مسائل کے حل کے لئے اپنے آپ کو پورے طور پر وقف کرنا کا جذبہ وافر مقدار میں ہو تو کامیابی صد فیصد یقینی ہوتی ہے, صرف الیکشن کے موقع پر عوام کے نزدیک رہنا سرا سر موقع پرستی کی علامت ہے, مذمت ہے, واقعہ یہ ہیکہ جب 21 جنوری کو پورا بھار انسانی زنجیر کی شکل میں متحد ہوکر شراب جیسی شئ کو جسے مذھب اسلام نے ام الخبائث سے تعبیر کیا ہے اس کی ریاست سے مکمل خاتمہ کی حمایت کر رہا تھا عین اسی دن شہر بھاگلپور سے چالیس کیلو میٹر دور نوگچھیا, تھانہ بیھ پور کے گاؤں واقع ہریوہ کے ایک دبنگ بھومیھار فیملی سے تعلق رکھنے والے ادھیڑ عمر شخص نے ایک مسلم مزدور خاندان (جو تین پشتوں سے بندھوا مزدورہے ) کی آٹھ سالہ بچی کی اسی کی جھونپڑی میں جو کسی ندی کے بیہڑ میں واقع تھی درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے عصمت دری کی, بچی کی چیخ و پکار سن کر کھیتوں میں کام کر رہے دیگر مزدور آئے اور عصمت دری کی شکار خون سے لت پت بچی کو دیکھ کر سکتے میں آگئے واقعہ کی اطلاع مزدورں نے اپنے مالک کو دیا, مالک نے گاؤں کے جھولا چھاپ ڈاکٹر سے لڑکی کا وقتی علاج کرایا اور معاملہ کی تہہ تک پہچنے سے پتہ چلا کہ یہ درندگی اسی کے سگے بھائ نے انجام دی ہے, حادثہ کے دن بچی کی نابینا ماں, اس کے والد اپنے آٹھارہ سالہ بڑے بیٹے کے ساتھ اپنی بڑی بیٹی کے علاج کے سلسلے میں بھاگلپور شہر گئے ہوئے تھے, مزدورں کی اطلاع پر متاثرہ کے والدین دیر رات تک اپنے گھر پہونچتے ہیں ,دوسرے دن بھومیاروں کی ایک پنچایت بیٹھتی ہے , اور متاثرہ کے والدین کو ایک تغلقی فرمان سنایا جاتا ہے کہ اس واقعہ کو اس طرح بھول جائے جیسے مانوکچھ ہوا ہی نہیں, اور باز آبادکاری کے نام پر ساٹھ ہزار روپے کی پیشکش کی جاتی ہے, لیکن متاثرہ کا آٹھارہ سالہ بھائ دبنگ بھومیاروں کے پنچایت کو ماننے سے یکسر انکار کردیتا ہے اور اس درندہ صفت انسان کو عدالت سے سزا یاب کرانے کا اعلان کردیتا ہے, اتنا سننا تھا کہ پوری پنچایت سکتے میں آجاتی ہے کہ ایک مزدور کا بیٹا جو تین پشتوں سے مزدوری کرتا آرہا ہے, اور جس کا تعلق مسلم سماج سے ہے جو نہایت ہی غریب ہے, بے پڑھا لکھا ہے اس کی اتنی جرأت کے وہ پنچایت کے خلاف ورزی کرے اب پوری پنچائت کی طرف سے دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اس نے فیصلے کو نہیں مانا تو ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جائے گا, اس مزدور مسلم نوجوان کا جواب آب زریں سے لکھنے کے لائق ہے, وہ کہتا ہے کہ آپ لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے صرف میری جان لے سکتے ہیں اور ایک دن سب کو مرنا ہے, یہ جواب گویا قصر کفر میں زلزلہ تھا, اس مزدور مسلم نوجوان کی ایمانی جرأت نے سب کو مبہوت کردیا, اگلے دن بیھ پور تھانہ میں ایف آئ آر کے لیے متاثرہ خاندان جاتا ہے لیکن بھار کی زعفرانی پولیس ایف آئ آر نہیں درج کرتی ہے, الٹے ڈرا دھمکا کر واپس کردیا جاتا ہے, اس واقعہ کی اطلاع کچھ دلت سماجی کارکنوں کو ملتی ہے, کہ ایک غریب دلت آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری ہوئ ہے, وہ لوگ اس بیھڑ میں پہونچ کر متاثرہ خاندان سے ملتے ہیں تو پتہ چلتا ہیکہ یہ اقلیتی فرقے کا معاملہ ہے, ڈاکٹر مکیش ایک دلت سماجی کارکن ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ کوئ مسلم تنظیم آگے آیے لیکن انہیں مسلم تنظیموں سے صرف مایوسی ہاتھ لگی, کوئ اس متاثرہ خاندان کی مدد کے لئے آگے نہیں آیا جو ایک لمحہ فکر یہ, ڈاکٹر مکیش اور ان کی ٹیم( نیائے منچ ) نوگچھیا مہیلا تھانہ میں متاثرہ خاندان سے مل کر ابتدائ شکایت درج کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں, مگر مسلم سماج کی بےحسی کا یہ عالم نہایت ہی افسوسناک ہے, جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہیکہ کیا یہ وہی قوم ہے ؟جو ماضی میں ایک بہن کو انصاف دلانے کے لیئے محمد ابن قاسم کی شکل میں سندھ کے ساحل پر خیمہ زن ہوتے ہیں, اور اس وقت کی سب سے بڑی طاقت راجہ داہر کا غرور خاک میں ملا کر اس کی حکومت (جس کی بنیاد نا انصافی پر رکھی گئ تھی )کا خاتمہ کر دیتے ہیں, لیکن آج کی خاموشی اور مصلحت آمیزی مومنانہ شان کے خلاف ہے, جو سراسر منافقت کی علامت ہے, جب ایک دلت نوجوان مسلم متاثرہ کے لیئے پریشان ہوجاتا اور کوئ راستہ نظر نہیں آتا تو وہ اس امید میں کے شاید کہیں سے کوئ رمق نظر آئے تو وہ پھر شوشل میڈیا (فیس بک) کا سہارا لیتا ہے, اور وہاں امید کی کرن مستقیم صدیقی (کنوینر) انصاف انڈیا کی شکل میں نظر آتا ہے, جب مستقیم صدیقی کی نظر ڈاکٹر مکیش کے وال پر پڑتی ہے, تو وہ ان سے رابطہ قائم کرتے ہیں ,اور اگلے روز وہ بھاگلپور کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں, وہاں ڈاکٹر مکیش کی سربراہی میں درجنوں دلت سماجی کارکن سے ملاقات ہوتی ہے, مستقیم صدیقی متاثرہ مسلم خاندان سے ملنے اور جائے حادثہ کو دیکھنے کی خواہش کا اظھار کرتے ہیں, دلت سماجی کارکن بیک زبان ہو کر یہ کہتے ہیں, سر! وہ علاقہ بہت ہی خطرناک ہے, آپ مسلمان ہیں اور آپ کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے, دبنگ بہومیھاروں نے اس واقعہ کو فرقہ وارنہ رنگ دینے کی بھر پور کوشس کی ہے, آپ نا جائیں تو بہتر ہوگا, مگر مستقیم صدیقی عزم مصمم کا اظہار کرتے ہیں اور جانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں, ساتھ میں نیائے منچ کی پوری ٹیم شہر بھاگلپور سے چالیس کیلو میٹر دور کوسی ندی کے بیہڑ پرواقع متاثرہ کےجھونپڑے میں دس کیلو میٹر پیدل چل کر پہونچتے ہیں اور حالات کا جائزہ لیتے ہیں, جس سے انسانی روح کانپ جاتی ہے, درندگی کا جیتا جاگتا ثبوت عصمت دری کی شکار نابالغہ کے نازک عضو سے بہے خون کے دھبے جھونپڑے کے باہر جگہ بہ جگہ نظر آرہے تھے, غربت کا یہ عالم کے جھونپڑے میں کھٹیا تک میسر نہیں, بانس کے بنے مچان میں زندگی کے ایام گزارنے پر مجبور یہ خاندان اپنی زندگی کے سب سے برے دور سے گزر رہا تھا, اور کسی مسلم لیڈرنے اس بیھڑ میں آنے کی زحمت گوارہ نہ کیا, نہ مذہبی قیادت نے اور نہ ہی سیاسی قیادت نے, مستقیم صدیقی جمیت العلماء بھار کے صدر محترم سے مدد کی اپیل کرتے ہیں جواب ملتا ہے کہ ہم لوگ سیاست نہیں کرتے, ادراہ شرعیہ کے صدر محترم سے گزارش کی جاتی ہے, جواب ملتا ہے, آپ لوگ اس واقعہ میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں, امارت شرعیہ کا رویہ بھی مایوس کن ہی رہا, دوسری طرف عوامی نمائندے ایم ایل اے اور سینکڑوں پنچایتی ارکان مکمل طور پر rapist بلاتکاری کو بچانے کے لئے مبنیہ طور پر میدان میں آگئے اوردستخطی مہم کےذریعہ واقعہ کوایک دوسرے رنگ دینے کی کوشش میں مصروف ہوگئے تاکہ اونچی ذات کا بلاتکاری گرفتاری سے بچ جائے, ایسے حالات میں, مستقیم صدیقی اپنے نئے دلت سماجی کارکن سے مل کر انصاف کی لڑائ لڑنے اور بلاتکاری کی گرفتاری کو یقینی بنانے کے لئے ایک لائحہ عمل کو تشکیل دیتے ہیں, نوگچھیا ایس پی سے رابطہ کیا جاتا ہے, ایس پی بھی پنچایتی نمائندوں کی طرح مذھبی تعصب کی بنیاد پر بلاتکاری کی طرفداری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں, اور معاملہ کو دبانے کے لئے اس جرم میں دو دلت نوجوان کو گرفتار کرتے ہیں , تاکہ دبنگ بلاتکاری بہومیھار کو بچایا جا سکے,
انصاف انڈیا اور نیائے منچ کا ایک متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ بھاگلپور شہر میں 9 فروری 2017 کو ریلوے اسٹیشن سے ضلع مجسٹریٹ کے چیمبر تک آٹھ سالہ متاثرہ بچی , ان کے خاندان اور سینکڑوں سماجی کارکنوں ,انصاف پسندوں کے ساتھ انصاف مارچ نکالا جائے اور ڈی ایم کو بلاتکاری کےگرفتاری کے لئے ایک میمورنڈم سونپا جائے اور ساتھ ہی متاثرہ کی زبانی انصاف کی اپیل کرائ جائے, انصاف مارچ میں سینکڑوں سماجی کارکن اور انصاف پسندوں کے ساتھ جب آٹھ سالہ متاثرہ بچی انصاف کی گھار لگاتی ہیں تو ڈی ایم بھاگلپور مسٹر وپن کمار سکتے میں آجاتے ہیں اور سخت نوٹس لیتے ہوئے ان سینکڑوں سماجی کارکنوں کے سامنے ایس پی نو گچھیا کو بلاتکاری کو جلد گرفتار کر نے اور سختی سے پیش آنے کا حکم دیتے ہیں, آخرکارانصاف کی لڑائ لڑنے والے ان سماجی کارکنوں کو جو سیاسی اور معاشی طور پر نہایت ہی کمزور ہیں, لیکن فکری اور عملی طور پر نہایت ہی مضبوط ہیں ان کے عزم کے سامنے دبنگوں کی دبنگئ, عوامی نمائندوں کی عیاری, اور بہومیھاروں کی مکاری, سب کے سب ناکام ثابت ہوئیں, اور بالآخر 11فروری کو حادثہ کے 19دنوں بعد بلاتکاری کی گرفتاری عمل میں آتی ہے, اور اس طرح چند سرفروش نوجوان(دومسلم بقیہ دلت) انصاف کی لڑائ میں سینکڑوں عوامی نمائندوں اور زعفرانی ذہنیت رکھنے والے پولیس افسروں کو ذلت کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیتے ہییں
سلام انصاف انڈیا, سلام نیائے منچ
اخیر میں, بسمل کے اس شعر پر ابھی کی گفتگو تمام کرتا ہوں
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

8102444687/9650512235