سیف الرحمٰن
(چیف ایڈیٹر انصاف ٹائمس)
گزشتہ چند سالوں میں یہ بات موضوع بحث ہے کہ مسلمانوں میں آرہی اخلاقی،فکری،سماجی گراوٹ کا کیا حل ہوگا ؟ اور اس موضوع پر لگاتار سینکڑوں مضامین لکھے جا رہے ہیں، ساتھ ہی مسلم لڑکیوں کے ارتداد،مسلم لڑکوں میں عام ہوئے نشہ خوری،مسلم گھروں میں کمزور پڑ چُکے رشتوں کی رسی،والدین اور بچوں کے بیچ دوریاں،زنا کے عام ہونے اور مذہب بیزاری جیسے موضوعات پر اہل درد پریشان نظر آرہے ہیں ! اور یقیناً مسلم معاشرہ جس طرح سے ٹوٹ گیا ہے اور اخلاقی تنزلی کے جس دہلیز پر کھڑا ہے اُس کو دیکھنے اور آنے والی تباہی کو سمجھنے والا کوئی بھی شخص سکون کی نیند نہیں سو سکتا ہے، لہٰذا جو مضامین لکھے جا رہے اور باتیں کی جا رہی ہے وہ ضروری ہے، ہمیں چاہیئے کہ اس موضوع پر زیادہ سے زیاد فکر و گفتگو کریں! اہل نظر اس مسئلہ کے بہت سے حل پر بات کر رہے ہیں جس میں سے تمام نکات پر کام ضروری ہے لیکِن ایک اور اہم نکتہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور وہ ہے گھر کا علمی و فکری ماحول، ہم کتابوں کے اوراق میں جب اپنے سنہرے ماضی کو پڑھتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ اس وقت ہمارے گھروں میں مہمان خانہ،اسلحہ خانہ اور کتاب خانہ کی بہت زیادہ اہمیت تھی لہٰذا غریب سے غریب انسان بھی گھر میں ایک جگہ کتابوں کیلئے لائبریری خاص طور پر بنایا کرتا تھا، شادیوں میں رشتہِ کیلئے یہ دیکھا جاتا تھا کہ لڑکا یا لڑکی کے گھر کا لائبریری کیسا ہے؟ اور جن گھروں میں لائبریری نہ ہو اُسے پسند نہیں کیا جاتا تھا، خلافت امویہ و خلافت عباسیہ کے زمانے میں مساجد اور گھروں میں لائبریری کا ہونا لازمی جیسا تھا، تبھی دنیا کے ٹیکنالوجی ،طب ،سائنس ،سماجیات ،معاشیات اور سیاسی اقتدار پر ہم غالب تھے ! مگر آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو صورتحال بالکل الٹ نظر آتی ہے، کہ گھروں میں تو دور محلہ اور گاؤں کی سطح پر بھی کہیں لائبریری کا سسٹم موجود نہیں ہے، مساجد میں ہے جا معاملات پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن کہیں مسجد میں اتنی کتابوں کا انتظام بھی نہیں ہوتا ہے کہ جس سے امام مسجد استفادہ کرکے اپنے جمعہ خطبہ کو مفید بنا سکے، اگر شادیوں کی بات کی جائے تو جس قوم کے عام افراد بھی علمی و فکری ماحول تلاشا کرتے تھے آج اُس قوم کے معزز ترین لوگ بھی جب بیٹا یا بیٹی کیلئے رشتہ لےکر جاتے ہیں تو اُس گھر میں اے.سی و گاڑیاں دیکھ لیتے و ملازمین کی فہرست پر چرچا کر لیتے ہیں لیکن یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ گھر میں مطالعہ کا کیا ماحول ہے؟ یہ بڑی تبدیلی بھی ہمارے تنزلی و بربادی کا ایک بڑا سبب ہے، جس کی اصلاح بیحد ضروری ہے، کیونکہ سقراط کا ایک قول بتایا جاتا ہے کہ ’’وہ گھر، جس میں کتابیں نہ ہو، اس جسم کی مانند ہے، جس میں روح نہ ہو۔‘‘، اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ جانور و انسان میں بنیادی فرق ہے کہ جانور بہت زیادہ ہی محدود علم و صلاحیت رکھتا ہے جب کہ انسان ہر طرح کے الگ الگ علم و الگ الگ صلاحیت کو حاصل کرتا و سیکھتا چلا جاتا ہے جسکی کوئی بھی حد نہیں ہوتی ہے، اب اگر آپ اس انسان کو بچپن سے مثبت تعلیم و تربیت مہیا نہیں کرینگے تو وہ نشه،زنا،عیاشی اور غیر اخلاقی و غیر سماجی اثرات کو قبول کرکے اس تباہی کی طرف جائےگا ہی جسکا شکار آج پورا مسلم معاشرہ ہو چکا ہے! لہذٰا ضرورت ہے کہ اب تمام اہل علم اپنے اپنے گھروں سے اس موضوع پر کام شروع کرے اور اپنے گھر میں یقینی طور پر فیملی لائبریری بنائے اور اُسی لائبریری کو ہی گھر کے تمام افراد کےلئے صبح کے بیٹھک کی جگہ بنائے، جہاں سب ہی چائے و بسکٹ کے ساتھ اخبارات سے فائدہ اٹھائے اور ایک دوسرے کے ساتھ صبح کا خوبصورت لمحہ گزارے، پھر اس لائبریری کلچر کو عام کرنے کیلئے مسلم معاشرے کے آخری گھر تک مہم چلانے کا کام کرے اور ہر اہل علم یہ لازم کرے کہ اپنی اولاد کی شادی میں ترجیحی بنیادپر دینداری کے بعد علمی ماحول تلاشے تاکہ آپ کی آنے والی نسلیں نشیریوں و زانیوں اور ہلڑ بازو کی نہیں بلکہ مفکرین،محققین،ادباء اور قائدین وغیرہ کی ہو ! اس عمل کی شروعات 50 کتابوں سے کر دی جاسکتی ہے کیونکہ اہل علم مانتے ہیں کہ جس گھرانے میں 50 اہم کتابیں ہو اور اس گھر کے لوگ اُن کتابوں سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ گھر پر سکون اور کامیاب ترین گھروں میں سے رہیگا! ہمیں چاہئے کہ گھر کی لائبریری میں سب سے پہلے وہ اخبارات و جرائد جاری کرائیں جو کہ خواتین و بچوں کے اندر ادبی و علمی ذوق اور دنیا کی سمجھ پیدا کر سکے جسمیں ہم معارف،زندگی نو،حجاب،ماہنامہ نُور،ماہنامہ ارمغان،بچوں کا امنگ،بچوں کی دنیا وغیرہ جاری کرائیں ،معیاری و اکابر شعراء کرام کی کتابیں جیسے کہ دیوان غالب،کلیات اقبال،کلیم عاجز کی وہ جو شاعری کا سبب ہوا، اِنتخاب کلام میر، کلیات فیض وغیرہ رکھے جائیں، مائل خیر آبادی کی شاہین سیریز، پروفیسر اسلم پرویز کا رسالہ سائنس اور اسلام، عنایت اللہ التمش و نسیم حجازی جیسے ناول نگاروں کے تاریخی ناولس، سیرت کی کتابوں میں الرحیق المختوم،سیرت النبی شبلی نعمانی،سیرت رسول دروس و نصائح، مولانا وحید الدین خان کی پیغمبر انقلاب،معارف الحدیث،ریاض الصالحین،رحمت عالم،سید سلیمان ندوی کی سیرت عائشہ, ناول کے انداز میں ماہر القادری صاحب کی،لکھی سیرت کی کتاب در يتیم،حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی کتاب قصص القرآن وغیرہ، فکری تربیت کیلئے وحید الدین خان صاحب کی اسلام دور جدید کا خالق،مذہب اور جديد چیلنج،مارکسزم دنیا جسے رد کر چُکی،سوشلزم ایک غیر اسلامی نظریہ، اسلام دور جدید کا خالق،خواتین اسلام، علامہ مودودی کی الجہاد فی الاسلام، پردہ وغیرہ، سفرنامہ کے طور پر مولانا تقی عثمانی کی دنیا میرے آگے، وحید الدین خان کی ہند و پاک کی ڈائیری،تفاسیر میں تفسیر ماجدی،تفہیم القرآن،معارف القرآن وغیرہ سمیت شخصیات وغیرہ سے متعلق اہم کتابیں رکھی جائے، عقیدے کی مضبوطی و شرک کی سمجھ کیلئے ڈاکٹرحفظ الرحمٰن مظفرپوری کی انمول اپہار بھی موجودہو،ان تمام کے ساتھ ہی کوشش ہو کہ کتابیں و رسائل صرف اُردُو زبان میں ہی نہیں بلکہ انگریزی،ہندی اور عربی زبانوں میں بھی ہو اور ایسی کتابیں و رسائل جو کہ کیریئر کے سنہرے خواب دے سکے ساتھ ہی مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے فائدہ مند ثابت ہو وہ بھی رکھے جائیں مثلاً این.سی.ای.آر.ٹی کا مکمل نصاب بھی رکھا جا سکتا ہے! لائبریری کے قیام کے ساتھ ہی مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کےلیے مختلف طریقے بھی اپنائے جائے، مثلاً گارجین کی طرف سے تمام ارکان فیملی کیلئے ایک متعینہ وقت میں مطالعہ لازم کر دیا جائے اور ایسے گفتگو و مقابلے ہوتے رہے جو کہ اس ذوق کو بڑھاوا دے،کوشش کی جائے کہ آپ کا فیملی رشتہ ایسے فیملی سے رہے جہاں علمی ماحول ہے اور آپ کے بچوں و بچیوں کی دوستیاں اُن گھروں کے بچوں و بچیوں سے رہے جہاں کا ماحول علمی ادبی اور فکری ہو! بڑوں کے بارے میں پڑھنے اور ترقّی یافتہ ممالک و اقوام کی فیملیز کو پڑھنے پر پتا چلتا ہے کہ اُنکے گھر میں ہر فرد روزانہ کم سے کم 50 صفحات پڑھا کرتے اور گھر میں علمی گُفتگو کا موضوع ہوتا جیسے کہ علامہ ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ انکو بچپن میں اکثر انبیاء کی سیرت یاد تھی کیونکہ گھر میں یہ ماحول دیا گیا تھا،لہٰذا گھروں میں یہ ماحول بنایا جانا چاہئے چاہے ہفتے میں ایک بار ہی صحیح گھر کے بڑے بچوں و پوری فیملی کے ساتھ بیٹھے اور ان موضوعات پر گفتگو کرے ،ہمارے گھروں میں پہلے بچوں کو اِسلامی،اصلاحی،سماجی کہانیاں سنانے کا ماحول تھا جوکہ اب ختم سا ہوگیا ہے اسے بھی زندہ کرنا چاہیے،یہ کام بظاھر مشکل ہے لیکن تھوڑی توجہ سے ممکن اور بےحد اہم ہے ورنہ آج ہماری نئی نسل بشمول نام و نہاد معزز گھرانوں کی اولاد کے تباہی کے اُس دہانے پر آ چکی ہے کہ جس سے نہ بچانے پر سب کچھ زیر زمین ہو جائےگا اور ہماری تہذیب سور چرانے والوں و جسم فروشی کرنے والوں کے ملے جلے کلچر میں ڈھل جائیگی جس کی طرف قدم پہلے ہی بڑھ چکے ہیں ….!
saifurbihari143@gmail.com
رابطہ: 9540926856