مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
گذشتہ پارلیمنٹ الیکشن میں فرقہ پرست ، فسطائی طاقتوں کی شکست نے ان کو بوکھلا کر رکھ دیا ، اور وہ نفرت کی آگ سلگا نے کے لئے نئے ایندھن کی تلاش میں ہیں ، بعض ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کی تشہیری مہم جاری ہے ، اس لئے خاص طور پر ایسے موضوعات کی تلاش ہے ، جو ہندو مسلم منافرت کو بڑھا وادے ، اور عوام کو دھوکہ دے کر اور بے وقوف بنا کر ووٹ حاصل کیا جائے، فرقہ پرست طاقتوں نے پہلے بھی یہ سب کچھ کیا تھا اور اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھا یا تھا ، اب دوبارہ یہی کوشش کی جارہی ہے ، ان حالات میں ضرورت ہے کہ مسلمان مشتعل نہ ہوں ؛ کہ اس سے ان کے معاندین کا مقصد پورا ہوجائے گا ، اس لئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بعض اوقات صبر اور برداشت خود ایک تدبیر ہوتی ہے ، بظاہر اس میں جذبات مجروح ہوتے ہیں ، لیکن در حقیقت اسی میں کامیابی مضمر ہوتی ہے ۔
رسول اللہ ا نے جب اپنے رفقاء کے ساتھ مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں دو طبقوں سے مسلمان نبرد آزما تھے ، ایک : یہود ، دوسرے : منافقین ، یہودیوں کی مسلمانوں سے مخالفت علانیہ تھی ، اور منافقین بغلی دشمن تھے ، عبد اللہ ابن ابی ان کا سردار تھا ، ابتداءً اس شخص کا نفاق انصار پر ظاہر نہیں تھا اور وہ اس کو مخلص مسلمان باور کرتے تھے ، مدینہ میں اس شخص کو پیغمبر اسلام ا کی تشریف آوری سے پہلے ایک خصوصی مقام حاصل تھا ؛ بلکہ اہل مدینہ اس کو اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے ، مگر اسلام کے بعد عبد اللہ بن ابی کا خواب پورا نہ ہو سکا ، غالباً اس لئے بھی عبد اللہ بن ابی کے سینہ میں اسلام اور اہل ااسلام کے خلاف آتش غضب سلگتی رہتی تھی ۔
آپ ا اپنے رفقاء ’ مہاجرین اور انصار‘ کے ساتھ ایک مہم پر نکلے ، اس میں عبد اللہ ابن ابی بھی شامل تھا ، ایک مقام پر پڑاؤ کیا گیا ، اورپانی لینے کے مسئلہ پر حضرت عمر ص کے غلام اور انصاری صحابی ص کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی ، بات آگے بڑھی ، غلام نے مہاجرین کو اپنی مدد کے لئے آواز دی اور انصار ی نے انصار کو پکارا اور یہ معمولی سا جھگڑا دو شخص کا نہ رہا ، بلکہ دو جماعتوں ۔۔۔ انصار و مہاجرین ۔۔۔ کا اختلاف بن گیا ، آپ ا نے دونوں ہی کی فہمائش کی اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ معاملہ رفع دفع ہو گیا ، لیکن عبد اللہ ابن ابی ایسے مواقع کی تاک میں رہتا تھا ، اس نے اس کو مہاجرین و انصار کے درمیان گروپ بندی کاذریعہ بنانے کی کوشش کی اور انصار کو عار دلائی کہ یہ نوبت اسی لئے آئی کہ تم نے محمد ا اورمکہ سے آنے والے ان کے ساتھیوں کی مدد کی ، مہاجرین کے ساتھ ہماری مثال عربی زبان کے اس محاورہ کی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو تاکہ وہ تم ہی کو کھا جائے ’’ سمن کلبک ےأکلک‘‘ پھر یہ بھی کہا کہ اب مدینہ پہنچ کر جو باعزت لوگ ہیں ، وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کریں گے ۔
عبد اللہ ابن ابی نے یہ بات چند انصار کے درمیان کہی ، ایک کم عمر انصاری صحابی حضرت زید ابن خالد جہنی ص نے بھی اپنے سر کے کانوں سے یہ بات سنی اور جذبۂ ایمان کے تحت رسول اللہ ا سے صحیح صورتِ حال عرض کردی ، حضرت عمر ص پر جوشِ حق کا غلبہ رہتا تھا ، اور باطل ان کو ذرا بھی برداشت نہیں تھا ، انھوں نے آنحضرت ا سے درخواست کی کہ اس منافق شخص کا سر قلم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں ، آپ ا نے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر ایسا کیا گیا تو لوگ خیال کریں گے کہ اب محمد ا پنے ساتھیوں کو بھی قتل کرا رہے ہیں ۔
پھر آپ ا نے براہ راست عبد اللہ ابن ابی سے واقعہ کی تحقیق کی ،اس نے انکار کیا کہ میں نے ایسی بات نہیں کہی ہے ، انصار میں سے اکابر اور سر بر آوردہ حضرات نے بھی اپنی نا واقفیت کی وجہ سے عبد اللہ ابن ابی کی تصدیق کی اور کہا کہ زید بچے ہیں ، ان کی بات کا کیا اعتبار ہے ؟ مگر خود وحی الٰہی سے حضرت زید کی تصدیق ہوئی ، بہر حال اس نا خوشگوار واقعہ کا چرچا پورے قافلہ میں ہو گیا اور بعض بھولے بھالے مسلمانوں کا ذہن ایک حد تک اس سے متاثر بھی ہوا ۔
آپ ا نے اس پر کچھ زیادہ گفتگو نہیں فرمائی اورقافلہ کو کوچ کرنے کا حکم فرمایا ، آپ اکا عام معمول یہ تھا کہ صبح میں سفر شروع کرتے تو شام میں کہیں پڑاؤ کرتے اور شام میں سفر کا آغاز فرماتے تو صبح کے قریب کہیں منزل فرماتے، لیکن خلافِ معمول آپ ا پورے دن اور پھر اس رات مسلسل چلتے رہے اور اور اگلے دن دو پہر کے وقت ایک جگہ خیمہ زن ہوگئے ، چلچاتی ہوئی دھوپ ، گرم ریت ، بھوک و پیاس اور مسلسل سفر نے لوگوں کو تھکا کر رکھ دیا اور جو وقتی ناخوشگواری پیدا ہوگئی تھی ، اس کا اثر بھی جاتا رہا ، در اصل یہی مصلحت تھی جس کے پیش نظر آپ ا نے اس سفر کو غیر معمولی طول دیا ، تاکہ لوگ اس تلخی کو بھول جائیں ۔
پھر ایک عرصہ کے بعد جب عبد اللہ ابن ابی کا نفاق لوگوں کے سامنے کھل کر آگیا ، حضراتِ انصار کو بھی اس کا خوب اندازہ ہوگیا ، تو عبد اللہ ابن ابی کے صاحبزادے ۔۔۔جو مخلص مسلمان تھے ۔۔۔ اوران کا نام بھی عبد اللہ ہی تھا ، آپ ا کی خدمت حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ معلوم ہوا ہے کہ آپ میرے والد کو قتل کرانے والے ہیں ، اور واقعتا وہ اپنے نفاق کی وجہ سے اسی لائق ہیں ، لیکن مجھے اپنے والد سے بڑی محبت ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شاید میں ان کے قاتل کو نہ دیکھ سکوں ! اگر واقعی ایسا ہی ہے تو آپ ا مجھے حکم فرمائیے کہ میں خود اپنے والد کا سر قلم کر کے آپ ا کی خدمت میں پیش کردوں ، آپ ا نے اس سے منع فرمایا اور حضرت عمرص کو بلا کر صورتِ حال بتائی کہ اگر میں نے اس وقت قتل کا حکم دیا ہوتا تو بہت سے لوگ بد گمان ہو سکتے تھے ، اور آج صورتِ حال یہ ہے کہ خود یہ لوگ اس کے نفاق اور در پردہ عداوت سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں ، اور خود ان کا لڑکا اس کے قتل کے لئے تیار ہے ، حضرت عمر ص آپ ا کی اس دوراندیشی اورمعاملہ فہمی سے بہت متاثر ہوئے اور بے ساختہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ا کی رائے میں برکت رکھی ہے ’’ بارک اﷲ في رأي رسولہ ‘‘ ۔
یہ ایک مثال ہے حسن تدبیر اور جذبات پر عقل و فراست کو غالب رکھنے کی ! اسی کو قرآن مجید نے ’’ صبر ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، صبر کے معنی بزدلی اور پسپائی کے نہیں ہیں ، بلکہ صبر سے مراد حسن تدبیر اورکسی اقدام کے لئے صحیح موقع و محل کا انتخاب کرنے کے ہیں ، صبریہ ہے کہ آدمی اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے آپ کو مشتعل اوربے برداشت ہونے سے بچائے ، اس لئے کہ اشتعال اورغیظ و غضب کی حالت میں انسان کی قوتِ فیصلہ کم یاختم ہو جاتی ہے ، اور فراست و دوانش مندی کا دامن اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے لگتا ہے ، اسی لئے آپ ا نے غصہ کی حالت میں کسی مقدمہ کا فیصلہ کرنے سے منع فرمایا ہے ’’ لایقضي القاضي و ہو غضبان‘‘ کیوں کہ غصہ کی حالت میں آدمی معاملہ کی نوعیت کو سمجھنے اوراس کے بارے میں مناسب رائے قائم کرنے سے قاصر رہتا ہے ، جیسے انفرادی اور شخصی معاملات میں یہ ضروری ہے کہ آدمی سنجیدہ حالت میں اہم فیصلے کرے ، اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ قومی اور اجتماعی مسائل میں ہم اشتعال اور غضب کی کیفیت میں کوئی فیصلہ کرنے اور قدم اٹھانے سے باز رہیں ، ور نہ اس کا نقصان سنگین بھی ہوگا ، دور رس بھی اور وسیع بھی ۔
رسول اللہ ا کی پوری حیاتِ طیبہ اس طرزِ عمل کی کھلی ہوئی مثال ہے ، جنگ کی حالت ہو یا صلح کی ، ہمیشہ آپ ا نے خوش تدبیری کو وقتی جذبات پر غالب رکھا ،صلح حدیبیہ ہی کو دیکھئے : بظاہر صلح الف سے یا تک مسلمانوں کی امنگوں کے خلاف تھی ، صلح نامہ لکھتے ہوئے ’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم‘‘ لکھا گیا ، اہل مکہ کے نمائندہ نے اسے قبول نہیں کیا اور کہا کہ زمانۂ جاہلیت کے طریقہ پر ’’ باسمک اللّٰہم‘‘ لکھنا پڑے گا ، اسے قبول کر لیا گیا ، آپ اکا اسم گرامی ’’ محمد رسول اللہ ا ‘‘ لکھا گیا ، دوسرے فریق نے ’’ رسول اللہ ‘‘ کے لفظ کو کاٹنے پر اصرار کیا ، آپ ا اس پر بھی تیار ہوگئے ، حضرت علی ص سے برداشت نہ ہو سکا ، اور وہ کلمۂ حق کو اپنے ہاتھوں سے مٹانے کے لئے تیار نہ ہوئے تو آپ ا نے اسے خود محو فرمادیا ۔
پھر یہ بات طے پائی کہ مکہ سے جو مسلمان ہو کر مدینہ جائے اسے واپس کردیا جائے ، اور مدینہ سے جو مرتد ہو کر مکہ آئے ، اسے واپس نہ کیا جائے ، یہ بالکل امتیاز پر مبنی دفعہ تھی ، یہ بھی طے پایا کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں ، آئندہ سال آئیں اور صرف تین دنوں قیام کریں ، نیز نیام میں رکھی ہوئی تلوار کے سوا کوئی ہتھیار ساتھ نہ رکھیں ، یہ ساری باتیں عربوں کی روایات کے سراسر خلاف تھیں ، حرم میں کبھی بھی اور کسی کو بھی آنے کی عام اجازت تھی ، اپنے تحفظ کے لئے ہتھیار رکھنا یہ بھی عربوں میں ایک روایتی حق سمجھا جاتا تھا، اور مسلمانوں کے لئے یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ وہ اپنے علانیہ دشمنوں کے درمیان جارہے تھے ، لیکن ان غیر منصفانہ شرطوں کو بھی آپ ا نے منظور فرمایا ، اکثر صحابہ ث کو یہ صلح بہت ناگوارِ خاطر تھی ، حضرت عمر ص سے تو برداشت نہ ہو سکا اور انھوں نے آپ ا سے فرطِ جذبات میں کچھ ایسے سوالات کر لئے کہ ہمیشہ اس پر پشیمان رہتے تھے ، جب آپ ا نے احرام کھولا اور اپنے رفقاء کو اس کی تلقین کی تو راویوں کا بیان ہے کہ لوگ اس طرح ایک دوسرے کے بال مونڈ رہے تھے کہ گویا سرکاٹ ڈالیں گے ۔
لیکن قرآن نے اسی صلح کو جو بظاہر ذلت آمیز تھی ’’ فتح مبین ‘‘ قرار دیا ، ( فتح : ۱ ) در اصل آپ ا کے پیش نظر یہ مصلحت تھی کہ مسلمان اہل مکہ سے مسلسل جنگ کی حالت میں ہیں ، ہر صبح وشام خوف کی کیفیت سے گزر رہے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اہل مکہ کو معتدل فضاء میں اسلام اوراہل اسلام کو دیکھنے کا موقع نہیں مل پایا ہے ، غلط فہمیوں کی دیواریں کھڑی ہیں ، پھر اس خوف و دہشت کی فضاء میں کھل کر دعوتِ اسلام کا کام بھی نہیں ہو سکتا تھا ، آپ ا کو اس بات پر پورا اعتماد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے اندر جو کشش رکھی ہے ، وہ بڑے سے بڑے دشمن کو بھی زیر کرے گی اور جن لوگوں کو میدانِ جنگ میں فتح نہیں کیا جاسکا ہے ، اسلام کی روحانی تعلیمات ان کے قلوب و اذہان کو فتح کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی ۔
چنانچہ ایساہی ہوا کہ صلح حدیبیہ میں آپ ا کے رفقاء کم و بیش چودہ سو تھے ، اس واقعہ کے صرف دو سال بعد مکہ فتح ہوا تو اس وقت آپ ا کے ساتھ دس ہزار رفقاء عالی مقام مکہ میں داخل ہوئے ، اور فتح مکہ کے دو سال بعد جب آپ ا نے حج فرمایا تو مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہو چکی تھی ، غرض آغازِ نبوت سے صلح حدیبیہ تک انیس سال کے عرصہ میں مسلمانوں کی تعداد چودہ سو سے کچھ زیادہ تھی اور اگلے چار سال میں ان کی تعداد یقیناًسوا ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی ، جن میں سوا لاکھ کے قریب تو خود آپ ا کے ساتھ حج میں شریک تھے ، یہ اسی صبر کا کرشمہ ہے اوریہی وہ فتح مبین ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے خوش خبری دی تھی ۔
آپ ا کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے اسوہ ہے کہ جب مسلمان مشکل حالت سے گزر رہے ہوں ، وہ سیاسی اور افرادی مغلوبیت سے دوچار ہوں تو اس وقت خصوصاً ، اور ہر حال میں عموماً سماجی اور ملکی فضاء کو معتدل رکھنے کی کوشش کریں ، جذبات پر عقل کو ، تمناؤں اور آرزوؤں پر حقیقت پسندی کو ، اشتعال اور نقصان دہ غیظ و غضب پر صبر اور خوش تدبیری کو اور مناسب موقع ومحل کے انتظار کو ترجیح دیں ، ہر قدم پھونک کر اٹھائیں ، ایسا ردِ عمل نہ کریں جو خود کشی کے مترادف ہو اور جس سے قومی اور اجتماعی نقصان ہو ، جس سے تعمیر کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو جائے اور ہماری ترقی معکوس ہو جائے ، یاد رکھئے ! ہندوستان کے موجودہ حالات میں ہمارا مشتعل اور بے برداشت ہو جانا فرقہ پرستوں کی بڑی کامیابی ، اور حسن تدبیر کے ساتھ ایسی سازشوں کا مقابلہ کرنا فرقہ پرستوں اور ملک دشمنوں کی سب سے بڑی شکست ہے ، یہ بظاہر ہزیمت ہے اور حقیقت میں فتح مبین !!