بچوں کیلئے موبائل، کھلونا یا زہر

محمد اللہ قیصر

بچہ موبائل نہیں چھوڑتا، ضد کرتا ہے، روتا ہے، سر پیٹتا ہے، موبائل دیکھ کر ہی مانتا ہے۔

آپ کسی سے کہیں کہ بچوں کو موبائل سے دور رکھیں تو عموماً یہی جوابات ملتے ہیں۔ لیکن غور کریں تو در اصل ان جوابات میں خود والدین کی سستی کاہلی، اور موبائل کے “سلو پوائزن” سے ان کی لا علمی چھپی ہوئی ہے۔

کوئی ماں باپ نہیں چاہتے کہ ان کا بچہ ایسی کوئی چیز کھالے یا استعمال کرلے جو صحت کیلئے مضر ہو، گھر کا یر فرد سخت نگرانی رکھتا ہے ، سخت سردیوں میں آئس کریم نہ کھالے، زمین پر پڑی کوئی چیز اٹھا کر منہ میں نہ رکھ لے، ٹیبل پر پڑی دوائیاں نہ پی لے، اتنی سخت نگرانی کہ ان کی پینی نگاہ کے سامنے سی سی ٹیوی کیمرے بھی فیل ہیں،بچے نے کنکر پتھر، مٹی اٹھایا نہیں کہ چیل کی طرح جھپٹ کر چھین لیتے ہیں، بچہ روئے، سر پیٹے کوئی فرق نہیں پڑتا، آخر کیوں، اس لئے کہ آپ ان تمام چیزوں کی ضرر رسانی سے خوب واقف ہیں، آپ کو یقین ہے کہ یہ چیزیں بچے کی صحت برباد کردیں گی، آپ ان کے نقصاندہ اثرات کا تجربہ کر چکے ہیں، اس لئے بچوں کو ان چیزوں سے ایسے دور رکھتے ہیں جیسے زہریلے بچھو سے انہیں بچاتے ہیں۔

لیکن جب کہا جاتا ہے کہ موبائل آپ کے بچوں کی دماغی حالت بگاڑ سکتا ہے، انہیں تعلیم سے دور کرسکتا ہے، تعلیم میں ان کی دلچسپی کم ہو سکتی ہے، اس کے قوت ترکیز پر انتہائی مضر اثرات پیدا کرسکتا ہے، پورے اعصابی نظام کیلئے “سلو پوائزن” سے کم نہیں ہے، موبائل میں مصروف رہنے والے بچے کھیل کود، اور دوسری جسمانی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں، اس لئے ان کی فطری نشوونما متاثر ہو سکتی ہے، بہت زیادہ موبائل میں مصروف رہنے والے بچوں میں نشاط اور پھرتیلاپن نہیں ہوتا، آس پاس کی چیزوں کو آبزرو نہیں کرتے، اس لئے قوت ادراک متاثر ہوسکتی، زبان سیکھنے میں تاخیر ہو سکتی ہے، بچوں کے ماہرین بار بار نصیحت کرتے ہیں کہ دوسال سے کم عمر کے بچوں کو اسکرین سے بالکل دور رکھیں، دو سال کے بعد بہت کم، پھر دھیرے دھیرے اسکرین ٹائم میں اضافہ ممکن ہے لیکن ضروری نہیں۔

نیز اسکرین سے بچوں کی اخلاقی اور سماجی حالت میں بگاڑ کا شدید اندیشہ ہے، ممکن ہے وہ تنہائی پسند ہوجائے، رشتوں کی قدر، اپنوں کی محبت دوسروں کے دکھ درد کا احساس بچہ ان سب خوبیوں سے محروم ہو سکتا ہے، میں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ بیمار باپ پانی مانگ رہا ہے اور بیٹا گیم میں اس قدر مصروف ہے کہ باپ کی پکار اسے سنائی نہیں دیتی۔ الامان و الحفیظ۔

کوئی نصیحت کرتا ہے کہ اپنے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں، تو آپ کا ایک ہی جواب ہوتا ہے “بچہ روتا ہے، مانتا ہی نہیں” آج گھڑی بھر کا رونا برداشت نہیں لیکن موبائل کا زہر جب اس بچے کے جسم و روح پر اثر دکھانا شروع کرے گا تو شاید زندگی بھر کیلئے رونا پڑے، بچہ روتا ہے تو آپ اسے مینیج کر سکتے ہیں، موبائل چھپا کر رکھ دیں، کچھ دیر نظر سے غائب ہوگا، بچہ بھول جائے گا، اگر پھر بھی نہیں بھولتا تو کسی ایکٹیویٹی میں مصروف کریں، پھر بھی چپ نہیں ہوتا، تھوڑی دیر کیلئے باہر لے جائیں، آپ والدین ہیں تلاشنے سے ایک نہیں ہزار راستے مل سکتے ہیں، بہلانے پھسلانے کے انیک طریقوں سے آپ واقف ہیں لیکن کیا کریں آپ کے ساتھ بھی تو مسئلہ ہے آپ تو درحقیقت بچوں کو موبائل سے دور رکھنا چاہتے ہی نہیں، بلکہ موبائل کی شکل میں بچوں کو بہلانے کا ایک بہترین وسیلہ ہاتھ آگیا ہے، آپ کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ بچہ کسی طرح خاموش ہو جائے، اور موبائل سے خاموش ہو سکتا ہے تو خود کو تھکانے کی ضرورت کیا ہے، اس کے علاوہ آپ کو بھی اسکرین کا چسکہ لگا ہے، بیوی کو “سیریل” دیکھنا ہے، ایک ایپیسوڈ چھوٹتے ہی زندگی ختم، شوہر کو “زہریلے نیوز” دیکھنے ہیں، ورنہ دنیا تباہ ہو سکتی ہے۔

خدا کے واسطے ایسا مت کیجئے، موبائل پر ہزاروں چیزیں دستیاب ہیں، انٹرنیٹ اباحیت سے بھرا پڑا ہے، اخلاق سوز ویڈیوز سے اٹا پڑا ہے، کچھ اچھی چیزیں ہو سکتی ہیں لیکن رطب و یابس اس طرح گڈ مڈ ہیں کہ اچھے برے جا امتیاز مشکل ہے، اپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی حیا سوز ویڈیوز کا ایک ریلا آتا ہے جو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، یوٹیوب جیسے اپلیکیشن پر کس قدر گندگی بھری پڑی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اب خالص کمرشیل ذہن رکھنے والوں کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ ویڈیوز والے عام ایپلیکیشن بچوں کےلئے نقصاندہ ہیں، اسلئے انہوں نے بچوں کیلئے الگ سے “ایپلیکیشن” بنایا ہے، غور کریں ان کے نزدیک اچھے اور برے کا پیمانہ کیا ہے، وہ جسے “حیا” کا نام دیتے ہیں وہ صالح معاشرہ میں بے حیائ کی انتہا ہوتی ہے، چھوٹے چھوٹے بچوں کا ٹھمکا لگانا فن سے تعبیر کیا جاتا ہے، ننگا پن ان کے یہاں فیشن ہے، اب وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ویڈیوز والے عام ایپلیکیشن بچوں کیلئے نقصاندہ ہیں، تو ہم اور آپ کیوں نہیں سمجھتے، خدارا اپنے جگرگوشہ کی تربیت کسی “انجان” کے رحم و کرم پر مت چھوڑئے، اسے کوئی غرض نہیں کہ آپ کا بچہ سنور رہا ہے یا بگڑ رہا ہے اسے پیسہ کمانے سے مطلب ہے،

اللہ کا حکم بھی یہی ہے وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ”اپنے اپ کو ہلاکت میں مت ڈالو” حکم عام ہے، کوئی زہر پی لے، یا پہاڑ سے چھلانگ لگائے اور کہے کہ مجھے اللہ پر بھروسہ ہے، یہ توکل نہیں سراسر حماقت اور خدا کی نا فرمانی ہے، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ موبائل وغیرہ دیکھنے کے فوائد بھی ہیں، یہی دلیل شراب پینے والے اور جوا کھیلنے بھی دیا کرتے تھے، ان سے کہا گیا

يَسۡــئَلُوۡنَكَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَالۡمَيۡسِرِ‌ؕ قُلۡ فِيۡهِمَآ اِثۡمٌ کَبِيۡرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثۡمُهُمَآ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِهِمَا

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ ان کا کیا حکم ہے ؟ ) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے) کہہ دیجیے کہ ان دونوں کے اندر بہت بڑے گناہ کے پہلو ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ منفعتیں بھی ہیں البتہ ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑا ہے۔

یہاں بھی جان لیں “اسکرین “کے نقصانات بھی منفعت سے زیادہ ہیں۔

 سوچنا آپ کو ہے کہ اپ اپنے بچے کو بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں یا ایسی تربیت دینا چاہتے ہیں کہ بڑا ہوکر نقصانات کا احساس ہونے پر آپ کو کوسنے لگے۔

اسکرین بچوں کی جسمانی نشوونما کیلئے جس قدر نقصاندہ یے اس کی روحانی تربیت کیلئے اس سے زیادہ خطرناک ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com