عمر بھر جس نے جلائے علم و حکمت کے چراغ مولانا سعید احمد صاحب کی رحلت

از: محمد اللہ قیصر

چند دنوں سے حضرت مولانا سعید صاحب کی طبیعت ناساز تھی، مقامی علاج سے افاقہ نہیں ہوا تو انہیں پٹنہ منتقل کیا گیا، سانس لینے میں تکلیف تھی، مرض نے شدت اختیار کی تو وینٹیلیٹر پر رکھ دیا گیا، ڈاکٹر نے کہا، صحت یابی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی، واپس لے جائیں، دوسرے لفظوں میں موت کا انتظار کریں، اہل خانہ نے کہا، “جب تک سانس تب تک آس” یعنی ہر تدبیر اختیار کی گئی؛ لیکن “موت کا ایک دن معین ہے” وہ معین وقت جب آجاتا ہے تو دنیا کی جدید ترین مشین، ماہر ترین طبیب اور بڑی سے بڑی تدبیر سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اور خدا کی امانت خدا کے پاس  جاکے رہتی ہے۔

تقریبا 8 بجے صبح گاؤں سے ایک عزیز کا فون آیا، بے وقت کی کال تھی کچھ گھبراہٹ بھی ہوئی، ریسیو کیا ، علیک سلیک کے بعد گویا ہوئے تو دل سن سے رہ گیا، حضرت مولانا سعید صاحب کی وفات ہوگئی، تھوڑی دیر دونوں طرف خاموشی تھی، پھر انقطاع۔

دیر تک مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سراپا نظروں کے سامنے گھومتا رہا، میانہ قد، کھلتا رنگ، سفید داڑھی، چوڑی پیشانی، دوہرا بدن، مسکراتا چہرہ، سریلی آواز؛ لیکن پرزور، نغمگی لب و لہجہ، سلام کیجئے، صرف جواب پر اکتفاء کے بجائے مزید استفسار، کیسے ہو، کب آئے، دیگر احوال کیسے ہیں، ملنے میں ایک دو دن کی تاخیر ہوئی تو محبت بھرا شکوہ، کل آئے، اور ملاقات آج! ایسا لگتا جیسے کسی کی طرف سے شفقت و محبت کی پھوار نہیں بوچھاڑ ہوگئی، ان کی انہیں اداؤں کو یاد کرتے ہوئے بیچینی اپنی تمام تر حدیں پار کر رہی تھی، پھر دفعتاً خیال آیا، ہر جان، جان آفریں کی امانت ہے، واپسی پر کیسی آہ و بکا، ہاں بس رب کریم سے دعا ہے کہ اے مالک! حضرت مولانا تیرے بندوں کے تئیں بڑے مخلص اور ہمدرد تھے، تیری مخلوق سے انہیں محبت تھی، لگاؤ تھا، ایک انس تھا، ہم گواہ ہیں کہ وہ سب کیلئے اخلاص و وفا کا پیکر تھے، تو انہیں اپنی شایان شان بہترین صلہ عطاء کر، ان کی بال بال مغفرت فرما۔

حضرت مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کٹھیلا میں مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے فارغین کی دوسری کھیپ میں سے تھے، مولانا کا آبائی  وطن بلہا تھا، آپ کے والد ماجد جناب عبد القدیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے سسرال کٹھیلا میں ہی سکونت پذیر ہوگئے، آپ کے والد عبد القدیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ انتہائی شریف النفس خلیق، ملنسار اور گاؤں کے معزز اور قابل قدر لوگوں میں سے تھے،

حضرت مولانا کی ولادت کٹھیلا میں 7/4/1956 میں ہوئی، یہیں پلے بڑھے، ابتدائی تعلیم اپنے نانا مولانا عبد المجید صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی، ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد مدرسہ محمود العلوم دملہ میں داخلہ لیا، یہاں ایک سال رہے پھر حضرت مولانا ابرار صاحب قاسمی مدظلہ العالی کی معیت میں جو اس وقت مدرسہ اشرف العلوم کنہواں میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے،  مدرسہ اشرف العلوم چلے گئے، جہاں دوسال رہے،  عربی سوم کی تکمیل کے بعد مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرایا میں داخل ہوئے، یہاں آپ نے حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جلالین پڑھی، پھر علوم دینیہ کے ہر متلاشی کی آخری آرزو، دیار شوق، ازہر ہند دارالعلوم میں داخلہ کا خواب سجائے دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا، خوش قسمتی کہ اسی سال دارالعلوم میں داخلہ ہوگیا، جہاں دو سالوں تک وقت کے سلاطین علوم سے گنجینہ حکمت و معرفت حاصل کرتے رہے، 1974 میں  دورہ حدیث کی تکمیل کی، آپ نے بخاری شریف حضرت مولانا فخر الدین علیہ الرحمہ سے پڑھی، دارالعلوم سے فراغت کے بعد مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ دربھنگہ سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا، چند سالوں تک وہاں خدمات انجام دینے کے بعد کچھ دنوں محمد پور میں رہے، پھر بحیثیت مدرس اپنی مادر علمی مدرسہ محمود العلوم دملہ تشریف لائے، جہاں آپ نے درجات متوسطہ کی  شرح وقایہ اور ہدایہ جیسی اہم کتابیں پڑھائیں، یہاں آپ کی علمی صلاحیت اپنی بہترین شکل میں نمایاں ہوکر سامنے آئی، چنانچہ آپ ایک کامیاب اور مقبول مدرس بن کر ابھرے، آپ کا درس طلبہ میں بیحد مقبول تھا، درس میں تفصیلات کا انبار لگاکر، اپنی تبحر علمی اور کثرت مطالعہ سے طلبہ کو مرعوب کرنے کے بجائے معصوم ذہنوں تک علم کی رسائی کو آسان تر بنانے پر زور دیتے،  ان کی کوشش ہوتی کہ طلبہ کی فکری ساخت ایسی بن جائے کہ علم کی جستجو اس کامقصد حیات بن جائے۔

مدرسہ محمود العلوم دملہ میں آپ کی خدمات کا دورانیہ  دس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے،

اس دوران سرکاری اسکول میں بحالی کی امید نظر آئی تو کوشش کرنے لگے، چناں چہ 1988 میں آپ کی بحالی مڈل اسکول ململ میں ہوگئی، بیس سال تک وہیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، 2008 میں مڈل اسکول دملہ میں بحیثیت صدرمدرس آپ کی منتقلی ہوئی جہاں 8 سال بحیثیت صدر مدرس خدمات انجام دینے کے بعد 2016 میں ریٹائر ہوئے، تدریسی مشغلویات سے سبکدوشی کے بعد گاؤں میں ہی اہل خانہ کے ساتھ سکونت پذیر تھے، چوں کہ فطری طور پر انتہائی متحرک و فعال تھے، اور ابتدا سے ہی گاؤں کی سماجی ذمہ داریوں سے مربوط رہے، اسلئے اسکول سے سبکدوشی کے بعد آپ کے سماجی کاموں کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا، اور آپ نے  خود کو ملی اور سماجی کاموں کے لئے کل وقتی طور پر وقف کردیا، بظاہر کوئی عارضہ نہیں تھا، دائمی امراض سے بھی محفوظ رہے، اخیر کے دنوں میں شوگر کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا، جس سے دن بدن صحت بگڑتی گئی، کچھ دنوں قبل بخار میں مبتلاء ہوئے، مقامی علاج و معالجہ سے افاقہ نہیں ہوا تو ہاسپیٹل لے جائے گئے، وہاں سے پٹنہ منتقل کیا گیا؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، وقت موعود آتا ہے تو تقدیر ہر تدبیر پر غالب آکے رہتی ہے، چناں چہ بروز جمعہ بتاریخ 22سمتمبر 2023 بوقت صبح داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے پیچھے سوگواروں کا ایک جم غفیر چھوڑ کر چلے گئے۔

مولانا سعید صاحب ان چند لوگوں میں سے تھے جن کی حرکت و نشاط سے بھری زندگی کو مثالی کہا جا سکتا ہے، انتہائی متحرک و فعال اور چاق و چوبند تھے، مڈل اسکول میں مدرس تھے، چنانچہ  صبح نو بجے اسکول جاتے، شام تک واپسی ہوتی، پھر کسی نہ کسی طے شدہ یا اچانک پیش آمدہ کام کیلئے گاؤں میں نکل جاتے، کبھی کسی کی عیادت مقصود ہوتی تو کبھی کسی کی خوشی میں شرکت،  گاؤں میں خواہ پنچایت ہو یا کسی اجتماعی کام کیلئے مشورہ کی مجلس ہر مجلس میں اپنی حاضری ضرور درج کراتے، اور ہر جگہ تازم دم نظر آتے، اپنے قیمتی آراء اور مشوروں سے نوازتے، پیچیدہ اور مشکل ترین سماجی مسائل کے حل میں طاق تھے، صبر و تحمل، اور سنجید گی و متانت ان کی اصل قوت تھی۔

وسیع الظرف انسان اگر وسعت فکر ونظر کی دولت سے مالامال ہو تو سماج کےلئے بڑا مفید ہوتا ہے، ایسے لوگ اپنی ذات میں مگن نہیں رہتے، سماج کی نچلی اکائی میں جینے والوں کی پریشانیوں پر بھی ان کی نگاہیں ہوتی ہیں، آج سے 30 سال پہلے دیہاتوں میں زندگی انتہائی دشوار تھی، بالخصوص شادی بیاہ اور اجتماعی تقریبات کے موقع پر لوگوں کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان دشواریوں سے نمٹنے کیلئے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی، جہاں اجتماعی چندے سے تقریبات میں استعمال ہونے والی ضروری چیزیں خرید کر رکھی گئیں، جسے ضرورت ہوتی وہ لے جاتا، ضرورت پوری ہونے پر واپس کردیتا، اس انجمن سے گاؤں کے لوگوں کو جو سہولتیں ہوئیں وہ یقینا مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے حسنات میں شمار کی جائیں گی۔

گاؤں کی جامع مسجد میں امام کی تعیین سے پہلے جمعہ کی نماز سے قبل عموماً آپ ہی خطاب کرتے تھے، آپ کے خطاب میں سماجی اصلاح و تربیت کا پہلو غالب ہوتا تھا، ہمارے گاؤں میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ تھی، تعلیمی بیداری تقریبا معدوم، لہذا تعلیمی بیداری آپ کا خاص اور محبوب موضوع تھا، کبھی چمکار کر اور کبھی محبت بھری جھڑکی دیکر لوگوں کو بچوں کی تعلیم و تربیت کی ترغیب دیتے، آپ اپنے خطاب میں ایک طرف تعلیم سے متعلق دینی احکامات و ہدایات  کا حوالہ دیتے تو دوسری طرف تشویق کیلئے تعلیم کے ذریعہ دنیا میں برپا ہونے والے انقلابات کی تفصیلات بیان کرکے سمجھاتے کہ آخرت کی کامیابی کے ساتھ ایک بہتر زندگی کی ضمانت صرف اور صرف تعلیم میں ہے، چوں کہ آپ خود ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی دنیا آپ بناتے ہیں، صرف آباو اجداد کی عظمت کی بیساکھی کے سہارے ترقی کے منازل طے کرنے والوں میں سے نہیں تھے، آپ نے خود علم دین حاصل کیا، دینی تعلیم کی نشرو اشاعت کیلئے تدریسی زندگی کو میدان عمل بنایا، ایک عرصہ تک مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد عصری درسگاہ سے مربوط ہوگئے، اس طرح اللہ نے دین سے محبت، جذبہ اطاعت اور ملی حمیت کی دولت کے ساتھ مالی و اقتصادی اعتبار سے بھی آسودہ حال بنایا،انہیں جو کچھ عزت و احترام، اور فارغ البالی نصیب ہوئی اس کیلئے تعلیم ہی مشعل راہ بنی، کشادہ دل انسان کی ایک خاصیت ہوتی ہے کہ وہ زندگی کی جن پگڈنڈیوں پر چل کر ترقی کے منازل طے کرتا ہے اس کی طرف دوسروں کی بھی رہنمائی کرتا ہے،  اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرا بھی انہیں خطوط پر چل کر ترقی کی بلندیوں تک پہونچ جائے، حضرت مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی وسیع الظرف اور ملت کے ہمدر و بہی خواہ تھے؛ اسلئے وہ قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی تلقین بار بار کرتے، اور پڑھنے والوں سے بہت خوش ہوتے، طلبہ سے ایسے چہک کر ملتے جیسے اپنا جگر گوشہ کسی دور دراز سفر سے واپس آیا ہے۔

حضرت مولانا رحمہ اللہ دارالعلوم کے فیض یافتہ تھے، مدرسہ میں تقریبا 12 سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اس کے بعد سالہاسال عصری درسگاہ سے منسلک رہے اس طرح انہیں دو مختلف تعلیمی نظام کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،انہیں دونوں کی اہمیت و افادیت کا تجربہ ہوا ، دونوں نظام ہائے تعلیم کے مثبت و منفی پہلو سے اچھی طرح واقفیت کے بعد ان کے مزاج میں دینی اور عصری علوم کے تئیں ایک توازن اور اعتدال پیدا ہوا، وہ نہ تو اس بات کے قائل تھے کہ دینی تعلیم کے علاوہ ہر علم شیطانی اور عصری درسگاہ کا ہر فاضل دین بیزار ہے، اور نہ یہ ماننے کیلئے تیار تھے کہ خالص مدرسہ کا فارغ اس جدید دنیا میں “صم بکم عمی” بن کے رہ جاتا ہے، اور ہر کام کیلئے دوسروں کا دست نگر اور محتاج بن کر زندگی گذارنے پر مجبور ہوتا ہے، حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے خطابات اور وقتا فوقتا ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے جو کچھ مجھے سمجھ میں آیا کہ وہ “خذ ما صفا ودع ما كدر” کے قائل تھے، دنیا برتنی ہے؛ لیکن دین کے دائرے میں، دینی حدود سے نکل کر ہمارا ہر ہر عمل شر کے زمرے میں آجاتا ہے، اس میں کوئی خیر نہیں رہتا، چوں کہ اس دنیا سے کلیتا اجتناب بھی ناممکن ہے، اسلئے کہ کائنات کی ہر شئی اشرف المخلوقات حضرت انسان کی بالواسطہ یا بلا واسطہ خدمت کیلئے بنائی گئی ہیں، یہ سب ہمارے لئے “لائف سپورٹینگ سسٹم” کی حیثیت رکھتی ہیں، اس سے پتہ چلا کہ ہم کسی حد تک چارو ناچار اسے برتنے پر مجبور بھی ہیں،  اور دنیا برتنے کیلئے اسے سیکھنا ہوگا، جس کیلئے عصری علوم کی ضرورت ہے،، پھر اسی دنیا کو جن حدود میں برتنا ہے ان حدود سے واقفیت کیلئے دینی علوم ضروری ہیں اس طرح دیکھا جائے تو عصری علوم کا حصول بھی دینی اعتبار سے ضروری ہے،(یہ ان کے ساتھ ہونے والی ایک گفتگو کا خلاصہ ہے) علم دوستی کا ہی تیجہ تھا کہ جب مولانا ابرار صاحب قاسمی حفظہ اللہ نے مدرسہ فیضان القرآن کٹھیلا کی بنیاد رکھنے کا ارادہ کیا تو حضرت مولانا حسین صاحب مدظلہ العالی اور مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ قدم سے قدم ملاکر ساتھ رہے، اور زندگی بھر مدرسہ کے خیرخواہ اور معاون رہے۔

مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ “نگہہ بلند” روشن افکار، کے ساتھ حسن اخلاق اور اعلی کردار کے بھی حامل تھے نیز انتہائی سادہ اور منکسر المزاج تھے، ہمارے خاندان سے ان کا خصوصی ربط و ضبط تھا؛ اسلئے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، وہ اختلاف کی صورت میں غیض و غضب کے بجائے خاموشی کو ترجیح دیتے، “ایک خاموشی سو بلا کو ٹالتی ہے” پر یقین رکھنے والے تھے، دوسروں کو بھی صبر و ضبط اور درگذر سے کام لینے کی تلقین کرتے تھے، ایک واقعہ یادآتا ہے کہ گاؤں میں ایک بڑا تنازع کھڑا ہوگیا، گاؤں کے اکثر ذمہ داران سفر پر تھے چناں چہ مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ فریقین کے درمیان مصالحت کیلئے تنہا آگے بڑھے، طویل بحث و مباحثہ کے بعد بھی ایک فریق باہمی گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے پر راضی نہیں ہوا، حضرت مولانا واپس جانے لگے تو میں نے چپکے سے کہا کہ حضرت! ان سے آپ کا تعلق تو اس طرح کا ہے کہ آپ باہمی گفتگو پر اصرار کرتے ، اور کھلے طور پر ان سے کہہ سکتے ہیں کہ جب تک آپ دو طرفہ گفتگو پر راضی نہیں ہوتے میں واپس نہیں جاؤں گا، حضرت مولانا مسکرانے لگے اور پھر واپس آکر بیٹھ گئے، پھر دیر تک مناتے رہے، آخر کار  انہیں راضی کرکے ہی واپس لوٹے، یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا، در اصل انسان کا دل جب سماج کے لئے دھڑکتا ہے اور ان کے تئیں اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے تو سماج میں ہونے والے باہمی تنازعات پر وہ بے چین ہوجاتا ہے،اور اسے ختم کرنے کیلئے سب کچھ بخوشی برداشت کرلیتا ہے، سب و شتم اور بہتان تراشی کے تیرو نشتر کی بارش اسے ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے کوئی گل پاشی کررہا ہو، یہی حال  مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تھا، وہ کسی بھی تنازع کے خاتمہ کیلئے پیش پیش رہتے، اور ختم ہونے تک چین کی سانس نہیں لیتے تھے۔

ان کی سادگی و شرافت، اور حلم و بردباری نے ہی انہیں گاؤں کے علاوہ پورے علاقہ میں ہر دلعزیز بنایا تھا، بدترین حالات میں بھی ہونٹوں پر تبسم سجائے نظرآتے، ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے،

حضرت مولانا کی وفات بالخصوص کٹھیلا کے لوگوں کیلئے ایک سانحہ سے کم نہیں، اس سماجی تانے بانے کو بنائے رکھنے والے مخلص اور بے لوث  رہنما کی رحلت پر ہر کوئی سوگوار ہے.

وائے گل چین اجل کیا خوب تھی تیری پسند

پھول وہ توڑا کہ ویراں کر دیا سارا چمن

دعا ہے کہ اللہ انہیں بہترین صلہ عطاء فرمائے ،ان کے درجات بلند کرے اور ان کی مغفرت فرمائے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com