امت روایات میں کھو گئی

( ان نوجوانوں کے نام ! جو میلاد النبی کے جلوس میں ڈی۔جے کی دھن پر تھرکنے کو عشقِ رسول تصور کرتے ہیں)  

 مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری 

لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔(الاحزاب: ۲۱)

محترم قارئین کرام!

  الحمد للہ ماہ ربیع الاول رواں دواں ہے یہ وہ ماہ مقدس ہے جس میں حضور ﷺ کی ولادت با سعادت عرب کے تپتے صحرا میںآمنہ بی بی کے بطن مبارک اور عبد اللہ ابن عبد المطلب کی پشت مبارک سے آفتاب نبوت لے کر دنیا میں رونما ہوئی، نبی پاک ﷺ کی مبارک زندگی اور آپ ﷺ کی متبرک سیرت سمجھ کر عمل کرنے کی ضرورت ہے،قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ:’’ اے لوگو! تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔لیکن افسوس ہے کہ ہم نے سیرت طیبہ پر چلنے کے بجائے باطل خیالات وافکارو خرافات کو اپنی زندگی کا مقصد و محوربنا رکھا ہے۔جس کی وجہ سے آئے دن ہم پستیوں کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہوئے جا رہے ہیں نتیجتاًدن بدن روئے زمین سے ہماراوقارمجروح ہواجا رہا ہے۔اس لئے ماہ ربیع الاول اور اس میں کئے جانے والے خرافات پرروشنی ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ امت محمدیہ باطل کی باطل پروری سے محفوظ رہ سکے اور ہادی کی رشد و ہدایت کے مطابق زندگی گزار کر دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی حاصل کر سکے۔

پیدائش مبارک:

  ۹؍ ربیع الاول یوم دو شنبہ مطابق ۲۰؍اپریل ۵۷۱؁ء مطابق یکم جیٹھ ۶۰۲۸؁ب،عبد اللہ ابن عبد المطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف ابن قصی ابن کلاب ابن مرّہ ابن کعب اب لُوَی ابن غالب ابن فہر ابن مالک ابن نضرابن کنانہ ابن خزیمہ ابن مدرکہ ابن الیاس ابن مضرابن نزارابن معد ابن عدنان(حاشیۂ بخاری) کے گھر میں صبح صادق کے بعدطلوع آفتاب سے قبل ایک بچہ کی ولادت ہوئی جس کا نام نامی ان کے دادا عبد المطلب نے’’ محمد ‘‘ رکھا۔یعنی جس کی سب سے زیادہ تعریف کی جائے اورعرب میں ابن حجر عسقلانی کے قول کے مطابق ’’محمد‘‘نامی کوئی آدمی نہیں ہوا۔اس لئے آپ کے دادا نے آپ کا یہ نام تجویز فرمایا۔ہاں! البتہ غیر عرب میں دس آدمیوں کا یہ نام بتحقیق ابن حجر عسقلانی رکھا گیا ہے۔

دعاء خلیل اور نوید ِمسیحا:

 خالد بن معدان تابعی ؒکی روایت ہے کہ صحابہ نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ اپنا حال بیان فرمائیے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعاعیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں میری ماں نے جب میں پیٹ میں تھا خواب میں دیکھا تھاکہ انکے بد ن سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔(ابن سعد۱ مستدرک حاکم جلد دوم وسیرت النبی ﷺ ج ۳ ص۳۱۲)

 حضرت ابو عبد اللہ محمدبن اسماعیل البخاری ؒنے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔’’کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ‘‘ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِی التَّارِیْخ وَاَحْمَدُفِیْ الْمُسْنَدِ)میرا نبی ہونا طے تھا جبکہ حضرت آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔

 اللہ رب العزت نے اگر چہ تخلیق کے لحاظ سے ابو الانبیاء حضرت آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش پہلے اور فخر کائنات محبوب رب العالمین کی بعثت اور پیدائش بعد میں فرمائی اورآپ آسمانِ دنیا سے مکہ کی سرزمین پر عام الفیل ماہ ربیع الاول میں اترے۔

خلعت نبوت سے سرفرازفرمایا جانا:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت محبوب تھی ،آپ نے مکہ مکرمہ سے تین چار کلو میٹرکی دوری پر پہاڑ تلاش کیا جس کو جبل نور کہتے ہیں وہی اصل جبل حرا ہے۔غارحراکی خلوت میں وقت گزاررہے تھے کہ سترہ رمضان المبارک ۱۰؍ اگست ۶۱۰؁ ء کا سال تھا،آپ کے سامنے ایک نورانی شخصیت نمودار ہوئی اوراس نے کہا پڑھئے!حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ نے شرح بخاری فتح الباری میں لکھا ہے کہ ان کے پاس جنت کے ریشم کا ایک ٹکڑا تھا جس پر تحریر تھا کہ پڑھئیے آپ نے جوا ب دیا ’’مَااَنَا بِقَارِیٍٔ‘‘(میں پڑھا ہوا نہیں ہوں)یہ جواب اس بات کو بتاتا ہے کہ آپ کے سامنے تحریر پیش کی گئی تھی کیونکہ اگر تحریر نہ ہوتی اور کوئی شخص آکر یہ کہتا کہ پڑھئیے تو آپ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ کیا پڑھوں،لیکن اگر کوئی کتاب یا تحریر پیش کی جائے اور کہاجائے کہ پڑھیئے تو آپ کہہ سکتے ہیںکہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔

 قرآن پاک میں اللہ نے سرورکونین ﷺ کو ان کی ذمہ داریٔ حیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا ’’یَاَیُّھَاالْمُدَّثُِِّرُ‘‘ (پارہ: ۲۹ سورہ: مدثر)مدثر اس پرندے کو کہتے ہیں جو اپنا گھونسلہ ایک ایک تنکاجمع کر کے بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خوبصورت تشبیہ دی ہے کہ چھ سو سال گذر چکے نبی کوئی نہیں آیا ۔ ۵۷۱ ؁ء میں فخر دوعالمﷺ پیدا ہوئے اور ۶۱۱ ؁ء میں نبوت مل رہی ہے چھ سو دس سال مکمل ہوچکے ہیں،دنیا کا سارا گھونسلہ ٹوٹ چکا ہے، دنیا کا گھونسلہ انسان سے بنتا ہے، انسان تنکا تنکا ہو کے اڑ گئے ہیں، دنیا میں ایسا کوئی گھونسلہ نہ تھا جس میں انسان کو امن ملتا، چین اور آرام ملتا تو اللہ نے اپنے نبیﷺ کوکہہ دیا ’’یَاَیُّھَاالْمُدَّثُِِّر‘‘۔(سورہء مدثر آیت ۱) اے گھونسلے کو دوبارہ تعمیر کرنے والے اٹھ جائیے! اورہمت کر کے خلق خدا کی اصلاح کی خدمت سنبھالیے!آپ کی برکت سے یہ گھونسلہ پھر آباد ہوگا ۔چنانچہ تاجداردوعالم ﷺنے اپنی داعیانہ زندگی کی شروعات فرمائی اور انقلاب آفریں دور کا آغاز ہوا۔

سیرت طیبہ:

 حضرت سعد ابن ہشام ام امؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے ا خلاق سے آگاہ فرمائیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنْ‘‘کہ قرآن کریم ہی آپ کے اخلاق ہیں ۔کیا آپ قرآن کریم نہیں پڑھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم‘‘(سورہ قمر آیت نمبر ۴)راوی نے عرض کیا کہ میں عورتوں سے الگ رہنا چاہتا ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’کہ تم ایسا نہ کرو،کیا تم نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا ! لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ‘‘(احزاب آیت نمبر ۲۱) رسول اللہ ﷺ نے شادیاں کیں اور آپ ﷺ کی اولاد بھی ہوئیں ۔(مسند احمد،حدیث نمبر۲۵۱۰۸)

 ماہ ربیع الاول میں کی جانے والی خرافات:

 آج ہم اس مہنیہ کی آمد پر اپنے گھروں،محلوں،بستیوں اور شہروں کو مجلسوں سے آباد اور کافوری شمعوں کی قندیلوں سے تو روشن کرتے ہیں لیکن اپنے دل کی تاریکیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات سے منور نہیں کرتے،پھولوں کے گلدستے سجاتے اور عرق گلاب کی چھینٹوں سے اپنے رومال و آستین کو تو معطر کرتے ہیں،مگر اپنے آپ کو اسوہ ٔ حسنہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور نہیں کرتے،ہماری راتیں مجلس آرائیوں اور جشن طرازیوں میں تو کالی ہو جاتی ہیں،پر ہم انہیں اعمال حسنہ سے روشن نہیں کرتے۔آج کے مسلمانوں کا المیہ دیکھئے کہ ماہ ربیع الاول کی آمد پر طرح طرح کی خرافات نگاری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عاشقان رسول ہیں،میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بے عمل اوباش نوجوان فلمی گانوں کے دھنوں پر ناچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عاشقان رسول ہیں (نعوذ باللہ)کیا یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے؟۔

’’حقیقت خرافات میں کھو گئی امت روایات میں کھو گئی ‘‘

 کیا آپ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا مہینہ خیرالقرون کے عہد میں بارہا آیا،حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دو بار،حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں دس بار، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بارہ بار،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں چار بار آیا، مگر کوئی بھی شخص اس دور کے متعلق ایک بھی ایسی روایت دکھا سکتا ہے؟جس میں میلاد کے جشن و جلوس کا تذکرہ ہو!۔چیلینج کے ساتھ کہتا ہوں کہ کوئی نہیں دکھا سکتا۔

 عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اس طرح سے ادھم مچانے اور ہلڑبازی کو کوئی باشعور مسلمان جائز نہیں کہہ سکتا ہے،خود بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ علماء نے اسے ناجائز کہا ہے اور لکھا ہے،مشہور بریلوی عالم دین مولانا غلام رسول سعیدی” صحیح مسلم شریف ”کی شرح (جلد سوم ص 70) میں لکھتے ہیں:بعض شہروں میں عید میلاد کے جلوس کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا ہے،جلوس تنگ راستوں سے گزرتا ہے اور مکانوں کی کھڑکیوں اور بالکونی سے نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شرکائے جلوس پر پھول پھینکتی ہیں،اوباش نوجوان فحش حرکتیں کرتے ہیں،جلوس میں مختلف گاڑیوں میں فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی دھنوں پر ناچتے ہیں اور نماز کے اوقات میں جلوس چلتا رہتا ہے،مساجد کے آگے سے گزرتا ہے اور نماز کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا،اس قسم کے جلوس میلادالنبی صلی اللہ علیہ کے تقدس پر بدنما داغ ہے،اسکو فورًا بند کردینا چاہئے کیونکہ ایک امر مستحسن کے نام پر ان محرمات کے ارتکاب کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہیں ۔

 مولانا کے اس قدر واضح الفاظ میں وضاحت کہ ان محرمات کے ارتکاب کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔یعنی اس کا شریعت میں کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ زر خرید اور بکاو مولویوں کی من گھڑت اور خود ساختہ باتیں ہیں،اسکے باوجود اگر کوئی نادان مسلمان اس ماہ کی آمد سے مذکورہ اعمال کا سبق لیتا ہے،تو یہ اس کے خرافات میں کھو جانے کا المیہ ہے۔

 ماہ ربیع الاول کا پیغام آج کے مسلمان کے لئے اگر کوئی ہو سکتا ہے تو یہ کہ وہ اپنے معاملات اور طرز حیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن زندگی کو داخل کر کے جنت کا حقدار بن جائے،خرافات،بے اصل اور من گھڑت باتوں سے اجتناب کر کے جہنم کا ایندھن بننے سے بچے۔اللہ ہمارا حافظ و نگہبان ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں ’’اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں،اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔(سورہ تحریم،آیت نمبر ۶۔)

 ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خرافات اور بے جا اسراف سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرے۔ خصوصاً علماء کرام کو چاہیے کہ وہ مسلم نوجوانوں کو ان خرافات سے بچنے کی سختی سے ہدایت کریں۔اللہ تعالی ہمیں اسوہِ رسولﷺ کو اپنی زندگیوں میں رائج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے قلوب و اذہان کو نبی کریم ﷺکی مبارک سنتوں سے آراستہ فرمائے۔ آمین۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com