فلسطین کے خلاف جنگی مجرموں کا اتحاد

محمد انعام الحق قاسمی

ریاض ، مملکت سعودی عرب

اسرائیل کو گرین سگنل

 آج کل غزہ کی پٹی اب اسرائیلی جنگی جرائم کی نمائش اور خونی کھیل کا میدان بنا ہوا ہے۔ لوگ اسے ٹی وی سکرین پر اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اخلاقیات اور انسانیت کا ذرہ برابر بھی  حصہ کسی شخص کے اندر ہوگا تو  ایسی وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت ضرورکرے گا۔ لیکن امریکی رہنما ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ صدر جو بائیڈن ان بدترین جنگی جرائم کو دیکھکر بھی عمداً بالکل آنکھ اور عقل کے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مسٹر اینٹونی بلنکن 12 اکتوبر 2023ء  کو تل ابیب سے روانہ ہوئے۔  13 اکتوبر 2023ء کو امریکی وزیر دفاع  ریٹائرڈجنرل لائیڈ آسٹن پہنچے۔ بلنکن کی طرح، مسٹر آسٹن نے بھی، اپنی آمد کے پہلے لمحات میں، اسرائیلی اموات پر گہرے تعزیت کا اظہار کیا، لیکن فلسطینیوں کی موت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ گویا فلسطینی انسان نہیں ہیں اور ان کی موت کسی ذکر اور ہمدردی کے مستحق نہیں۔ یہ امریکی رہنما غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کو دیکھنے کے بعد بھی اندھے ثابت ہوئے ہیں ۔ ایسا اندھا پن ان کے جسمانی اندھے پن کا نہیں بلکہ اخلاقی موت کا مرہون منت ہے۔ صرف ثابت شدہ جنگی مجرم ہی اس طرح کے جنگی جرائم کی حمایت اور اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔

مظلوم فلسطینیوں کے خلاف جنگی مجرموں کا اتحاد، غزہ میں مسلسل جنگی جرائم، اور مشرق وسطیٰ میں بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست

 اسرائیلی صیہونیوں کی طرح امریکہ اور یورپی استعماری سامراج اپنے بدصورت جنگی جرائم جیسے پیشہ ورانہ جنگوں، نسل کشی، نسلی تطہیر، لوگوں کو جبری بے گھر کرنے، کمزوروں کو غلام بنانے اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی کالونیوں میں لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ امریکہ میں ریڈ انڈین، آسٹریلیا میں ایبوریجینز اور نیوزی لینڈ میں ماوریوں کو معلوم جنگی مجرموں نے تقریباً پاک کر دیا ہے۔ اسرائیل اب فلسطین میں ان تمام گھناؤنے جرائم کا ارتکاب اپنی بدترین شکل میں کر رہا ہے خاص طور پر غزہ میں۔ امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کو فوری فوجی امدادات بھیج رہے ہیں۔ وہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے لیے بحث کرتے ہیں لیکن فلسطینیوں کی بقا کے حقوق اور آزادی پر خاموش رہتے ہیں۔ وہ حماس کے زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی پر گونگے بہرے نظر آتے ہیں۔ وہ غزہ کے نہتے اور مظلوم لوگوں پر اسرائیلی بمباری پر بھی خاموش ہیں – جنگی جرائم کے خاتمے کا مطالبہ تو چھوڑ دیں۔

 اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے خلاف ان کی کارروائی دفاعی ہے۔ لیکن جب بے گناہ شہریوں کے رہائشی مکانات تباہ ہوتے ہیں اور نہتے مرد، عورتیں اور بچے مارے جاتے ہیں تو جنگ دفاعی نہیں رہتی۔ گھروں، ہسپتالوں اور مساجد پر بمباری کسی طرح بھی دفاعی جنگ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ غزہ کے لوگوں پر ہوا، خشکی اور سمندر سے لنگڑی بطخ  [نہتے و مظلوم عوام]   پر بے دریغ بمباری خالص بربریت اور بدترین جنگی جرم ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے اہم اسٹیک ہولڈرز جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس اس کی مذمت کرنے میں کوئی عقل اور اخلاق کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ انہیں صرف اسرائیل کی سلامتی کی فکر ہے۔ وہ حماس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے جنگی جرائم پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں۔  13 اکتوبر 2023ء کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر انتونیو گوٹیرس نے اپنی پریس کانفرنس میں اسرائیل سے جاری بمباری کو روکنے کے لیے بھی نہیں کہا۔ یہ انتہائی شرمناک ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے آپریشن کو روکنے کیلئے ان کی تقریر میں ایک لفظ بھی نظر نہیں آیا۔

 اسرائیلی مظالم صرف غزہ تک محدود نہیں ہیں۔ 13 اکتوبر 2023ء  کو غزہ میں اسرائیلی بمباری کے خلاف احتجاج کرنے پر مغربی کنارے میں 14 فلسطینی شہید کردیئے گئے۔ ہیومن واچ جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف سفید فاسفورس جیسے زہریلے کیمیکل کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن اسرائیلی ضابطہ اخلاق میں ایسے قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ چونکہ اسرائیل کو دنیا میں کہیں بھی جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اس لیے اسے اپنے ہولناک جنگی جرائم میں کسی قسم کی پابندی کا سامنا نہیں ہے۔ اقوام متحدہ صرف خاموش تماشائی کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔  اور امریکہ اسرائیل کا ساتھ دے کرامت مسلمہ کے خلاف  اپنی سازش و دسیسہ کاریوں کو جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہے۔

 دوسری عظیم تباہی  [نکبہ]

 فلسطینیوں کو اب ایک اور نکبہ (بڑی تباہی) کا سامنا ہے۔ نکبہ فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے زبردستی نکال باہر کرنا ہے۔ پہلا نکبہ 1948 میں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے پاک کرنے کے لیے ہوا تھا۔ پہلے نکبہ میں تقریباً 500 گاؤں تباہ کیے گئے اور 600,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا تھا۔ اس طرح بیرون ملک سے درآمد شدہ یہودیوں کے لیے خالی جگہیں بنائی گئیں تھی۔ نکبہ کے اس دوسرے مرحلے میں اب فلسطینیوں کو غزہ سے نکالا جا رہا ہے۔ غزہ کے زیادہ تر باشندے فلسطین کی سرزمین سے آنے والے پناہ گزین ہیں۔ اب وہ مصر کیلئے ایک مسئلہ بننے کیلئے صحرائے سینا میں دوبارہ پناہ گزین ہونے جا رہے ہیں۔

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کے آپریشن کو دو مرحلوں میں مکمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل نے اپنے پہلے مرحلے میں غزہ شہر اور غزہ کی پٹی کے شمالی حصے کے 1.2 ملین لوگوں سے 24 گھنٹوں میں اپنے گھر خالی کرنے کو کہا ہے۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ایک بیرونی ملک دوسرے ملک کے لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ یہ بھیانک دہشت گردی ہے۔ یہ حقیقت میں اسرائیل کی تخلیق کے پہلےدنوں سے ہی اس کا بنیادی نظریہ ہے۔ جب اسرائیل شمالی غزہ کا کنٹرول سنبھال لے گا تو نسل کشی کا دوسرا مرحلہ غزہ سے باقی آبادی کو نکالنے  کے ساتھ ہی شروع کر دے گا۔جب نسل کشی کا عمل مکمل ہو جائے گی تو غزہ کا مکمل الحاق شروع ہو جائے گا۔ اسی طریقہ کار کو گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی یروشلم کے الحاق پر لاگو کیا گیا تھا۔

 اسرائیل: ریاستی دہشت گردی کا ایک نصابی کتاب ہے

 دہشت گردی کا مطلب سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ ایک معیاری لغت کے مطابق دہشت گردی سیاسی مقصد کے لیے طاقت کا استعمال ہے۔ اس طرح کی دہشت گردی اسرائیل نے 1948 میں اپنی تخلیق کے پہلے دن سے ہی استعمال کی ہے۔ درحقیقت اسرائیل ریاستی دہشت گردی کا ایک درسی کتاب ہے۔ اسرائیل نے یورپ، روس، امریکہ اور مشرق وسطیٰ سے درآمد شدہ یہودیوں کے لیے مقبوضہ زمینوں میں رہائشی بلاکس بنانے کے لیے فلسطینیوں کے گھروں کو بلڈوز کرنے جیسے دہشت گردی کے مکروہ حربے استعمال کیے ہیں۔ ہیگن جیسے صہیونیوں کے دہشت گرد گروہوں نے پوری مقامی آبادی کو دہشت زدہ کرنے کے لیے بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کیا۔ فلسطین میں امن کے قیام کو ان کے لیے جان بوجھ کر ناممکن بنایا گیا۔ اس طرح اسرائیل کی اصل بنیاد دہشت گردی پر ہی رکھی گئی ہے۔ اب، یہ اس کے ذریعے زندہ رہتا ہے اور اس کے ذریعے پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ سامراج بذات خود بدترین بین الاقوامی دہشت گردی کی ایک شکل ہے، اسرائیلی دہشت گردی کو کلاسیکی جدید سامراجیوں جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر سابقہ استعماری طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

   مغربی لیڈروں کی اخلاقی موت

 تمام معاشروں میں زیادہ تر لوگ معصوم ہوتے ہیں۔ وہ قابل سزا جرائم میں ملوث نہیں  ہوتے ہیں۔ اس لیے اجتماعی سزا جنگی جرائم کی بدترین شکل ہے۔ یہ اخلاقیات، انسانیت اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ کسی بھی ریاست کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ بے گناہ مردوں، عورتوں، بچوں، مریضوں اور معذوروں کو سزا دے۔ ہر جنگ کا اپنا اصول ہوتا ہے۔ یہ اندھا دھند بمباری کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسی کارروائیاں جنگی جرائم ہیں۔ عام لوگوں کو سزا دینے کے لیے اسرائیل نے غزہ کو بجلی، پانی، کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی سپلائی بند کر دی ہے۔ اسرائیل لوگوں کو بھوک سے مرنے کے لیے ہر قدم اٹھا رہا ہے۔

 اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کے لوگوں کو انسانی جانور قرار دیا ہے ۔ لہٰذا انہیں قتل کرنا اسرائیل کی ریاستی پالیسی ہے۔ لہذا، وہ اندھا دھند بمباری کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہر اس چیز کی سپلائی روک دی جو جسمانی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اخلاقیات اور انسانیت کا ذرہ برابر بھی جزء کسی فرد کے اندر ہوگا تو اس طرح کے مذموم فعل کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کے رہنما ایسی اخلاقیات اور انسانیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کھل کر جنگی مجرموں کا ساتھ دیا ہے۔ وہ ایسی اجتماعی سزا کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ غزہ پر اسرائیلی جنگ کو روکنا نہیں چاہتے۔ وہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو روکنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی فکر صرف فلسطینیوں کو سزا دینا ہے، خاص کر حماس جیسی مزاحمتی تحریک کو۔ جو بھی اسرائیل پر تنقید کرتا ہے اسے یہود مخالف اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی جنگی جرائم کے یہ مغربی حامی درحقیقت اخلاقی موت کے شکار لوگوں کے نصابی کتب کے مقدمات ہیں۔

 یوکرین کی جنگ پر روس کی مذمت کے لیے مغربی طاقتیں جو بیانیہ استعمال کرتی ہیں وہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کے لیے استعمال نہیں کی جاتیں۔ جبکہ روس نے کبھی بھی یوکرین کے شہروں پر اتنی بے دریغ بمباری نہیں کی۔ یوکرین میں اپنی ایک سال سے زیادہ کی جنگ میں، روس نے رہائشی مکانات کی اتنی تباہی نہیں کی جتنی اسرائیل نے غزہ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں کی ہے ۔ نہ ہی روس نے اتنے بے گناہ لوگوں کو مارا جتنا اسرائیل نے صرف 7 دنوں میں غزہ میں مار ڈالا ہے ۔ اسرائیل پہلے ہی غزہ میں 2,215 سے زیادہ شہریوں کو ہلاک اور 70 فیصد سے زیادہ گھروں کو تباہ کر چکا ہے۔ مرنے والوں میں 700 بچے بھی شامل ہیں۔

 بدترین غداری اور ایک نئے دور کا آغاز

 اسرائیل فلسطینیوں کی سب سے طاقتور مزاحمتی تحریک حماس کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ بھی افغانستان میں طالبان کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح کے امریکی حب الوطنی کو بڑی ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی افواج اب افغانستان کی سرزمین پر موجود نہیں ہیں لیکن طالبان خوش اسلوبی سے غالب ہیں۔ ویٹنام اور عراق میں امریکہ کا یہی انجام ہوا۔ اس کے ہزاروں ایٹمی وار ہیڈز اور بڑی فوج اس کے غرور کی حفاظت نہ کر سکی۔ اور اسرائیل امریکہ سے زیادہ طاقتور نہیں ہے۔ یہ ناقابل تسخیرامریکہ ہوا کے ساتھ خاک میں مل گیا اور اس کو منہ کی کھانی پڑی.

اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی کارروائی بلا اشتعال تھی۔ لیکن وہ اس سادہ سی تاریخی حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ قابض اسرائیلی جنگی مجرم گزشتہ 75 سالوں سے فلسطینیوں کو اپنی بدترین مجرمانہ کارروائیوں سے مشتعل کر رہے تھے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ جہاں ناانصافی ہو وہاں مزاحمتی تحریک ناگزیر ہوتی ہے۔ اسرائیل بدترین ناانصافیوں کی ریاست ہے۔ یہ روئے زمین پر ایک خوفناک نسل پرست اور ظالم ریاست ہے۔ لہٰذا حماس جیسی مزاحمتی تحریکیں اسی تناظر کی فطری پیداوار ہیں۔

 اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادی سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو دہشت زدہ کرنا ان کی واحد اجارہ داری ہونی چاہیے۔ گویا تمام حقوق ان کی ہی اجارہ داری ہے۔ اور دوسروں کو صرف ان کے حوالے کرنا اور ان کے آگے سپردگی کرنا ان کی پیدائشی حق  ہے۔ ایسی تصوراتی بنیاد میں اسرائیلی قبضے کے خلاف کسی بھی احتجاج کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایسے سامراجی دلائل خریدتے اور ان کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس لیے وہ یوکرین پر روسی قبضے کو جنگی جرم سمجھتے ہیں۔ لیکن فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو یہودیوں کا حق الٰہی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوسلو معاہدہ جس پر اسرائیل اور پی ایل او دونوں نے دستخط کیے تھے، مردہ ہو گیا ہے۔

اوسلو معاہدے میں فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو فلسطینیوں کے لیے ایسی ریاست کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اوسلو معاہدہ صرف PLO کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس وقت پی ایل او کو فلسطین کا واحد نمائندہ قرار دیا جاتا تھا۔ چونکہ اسرائیل کو تسلیم کیا گیا تھا، اس لیے اس معاہدے کو ختم کرنا پڑا۔ اور یاسر عرفات کو بھی مرنا پڑا۔ اس معاہدے کو صرف PLO کے رہنماؤں کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور درحقیقت یہ فلسطینی عوام کے ساتھ غداری کا بدترین فعل تھا۔ اب نہ اسرائیل اور نہ ہی امریکہ اوسلو معاہدے پر بات کرتے ہیں۔

 امریکہ کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے مطلق العنان و غدار عرب لیڈروں نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے اور اپنے تجارتی و سفارتی تعلقات استوار کرنے میں مصروف ہیں۔ حماس بہادری و جوانمردی اور ایمانی قوت کے ساتھ  اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی اور اپنی معجزانہ طاقت کا مظاہرہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کو اسرائیل کا قدیم دشمن کہا جاتا ہے۔

 حماس نے کامیابی سے مسئلہ فلسطین کو قبرستان میں گڑے مردے ہونے  سے زندہ کیا ہے۔ یہ حماس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ حتیٰ کہ سیکولر عرب اور مزعوم سیکولر فلسطینی بھی حماس کی تعریف کرتے ہیں۔ بدترین مطلق العنان عرب حکمران بھی حماس پر تنقید کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ دنیا بھر کے مسلمان حماس کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے بڑے شہروں میں بھی زبردست احتجاجی ریلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

اب یہ فلسطینی تاریخ کا  ایک نیا سیاق و سباق ہے۔ یہ درحقیقت مشرق وسطیٰ کی نئی جغرافیائی سیاست کا آغاز ہے۔ حماس مسلم دنیا کی سیاست پر بھی نمایاں طورپر  اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مسلم امہ کی جغرافیائی سیاست میں واقعی ایک مخصوص پیش رفت ہو رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے بدصورت چہرے کے ساتھ  شاید ہی اس پر قابو پا سکیں گے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی حماس کے بہت سے جنگجوؤں کو مار سکتے ہیں لیکن اس کے جنگجو اسلامی نظریے کو نہیں مار سکتے۔ وہ سدا ان کے دل و دماغ میں زندہ و جاوید رہے گا۔

دراصل یہ مجاہدانہ اقدامات ہی فلسطین کو آزادی سے ہمکنار کریں گے۔ غرب اور امریکہ صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com