مولانا ابو الکلام آزاد کے تعلیمی نظریات

ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی
آزادی کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت قربانیاں دیں، کئی بار جیل گئے۔ گاندھی جی ان کی ذہانت، قابلیت ، اور تدبر کو مانتے تھے۔ جواہر لال نہروان کو بڑا بھائی کہتے تھے جب ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا ابو الکلام آزاد کو ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ وزیر تعلیم، کا عہدہ سنبھالتے ہی مولانا نے یہ عزم کیا کہ ہندوستان میں تعلم وتعلیم کی ایسی پختہ بنیاد ڈالی جائے جس پر آنے والی نسلیں ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کاکام بخوبی انجام دے سکیں۔
مولانا آزاد نے سرسید احمد خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوستانی عوام کے کندذہنوں کو تراش کر ان میں جدوجہد، ترقی کرنے کا جوش پیدا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی ساری زندگی اپنے خواب کے تکمیل میں صرف کردی۔ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروے کار لاکر ایسا جہاد شروع کیا جس کا مقصد نسلوں کی تعمیر واصلاح تھا اس مقصد کے تحت انہوں نے قوم کو تعلیم کے حصول کیلئے تیار کیا او رکہا کہ جب تک ہماری قوم تعلیم سے روشناس نہیں ہوگی تب تک زمانے سے قدم ملاکر چلنے کی اہل نہیں ہوگی۔

وہ کہا کرتے تھے کہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہمارے لئے ہرحال میں ضروری کام عوام کی تعلیم ہے یہی کام سب سے زیادہ اہم ہے اور اسی کام سے ہمیں دور رکھا گیا۔ مولانا آزاد نے اپنی تحریر وتقریرکے ذریعہ عوام میں بحیثیت وزیر تعلیم اس زمانے میں ملکی و ریاستی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے مرکزی، ریاستی سطح پر ملک میں تعلیم کو عام کرنے کیلئے کئی اہم اقدام اٹھائے۔نئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں کاقیام عمل میں آیا۔ انہوں نے تعلیم وتحقیق کے جو مراکز قائم کئے ان میں سنگیت اکیڈمی، ساہیتہ اکیڈمی اور للت اکیڈمی قابل تعریف
انہوں نے تعلیم نسواں، پروفیشنل تعلیم اور تعلیم صنعت وحرفت کو بھی اہل وطن کیلئے ضروری قرار دیا۔ ان کی کوششوں سے1948ء میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات مہیا کرانا تھا جو اس زمانے میں نہیں تھی۔1956ء میں انہوں نےUGCکو قائم کرکے اعلیٰ تعلیم کو زیادہ وسائل عطا کئے۔ مولانا آزاد پنڈت نہرو کے اس قول سے متفق تھے کہ اگر ہندوستانی یونیورسٹیاں اپنے کام کو بخوبی انجام دیں تو یہ ملک کی ترقی میں ایک اہم قدم ہوگا۔ آزاد نے دیگر علوم فنون کے ساتھ فنی تعلیم کی ضرورت بھی محسوس کی اور اس کیلئے آل انڈیا کونسل فارٹیکنیکل ایجوکیشن کے نام سے ایک مرکزی ادارہ عمل میں لائے او رملک بھر میں ٹیکنیکی تعلیم کے نئے شعبہ قائم کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے1951ء میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے قیام کو عمل میں لایا جو بعد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑک پور کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد ازاں ملک کے دیگرشہروں میں بھی اس طرح کے کالجوں کی شاخیں قائم کی گئیں جو اس دور میں ملک کی تعلیمی ترقی میں کوشاں ہے۔ مولانا آزاد پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستانی تعلیم بالغانو متعارف کروایا۔ ملک کے ادبی او رتہذیبی ورثے کو محفوظ رکھنے کیلئے انہوں نے شہروں میں ایجوکیشنل لائبریریاں قائم کی جہاں بیٹھ کر لوگ اخبارات پڑھتے اور رسالوں کا مطالعہ کرتے

وزارت تعلیم سنبھالنے کے بعد ۱۸ فروری ۱۹۴۷ء کی پریس کانفرنس میں مولانا آزاد نے تعلیم کے تعلق سے اپنے بنیادی نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔‘‘ چنانچہ تعلیم وثقافت کے ضمن میں مولانا نے جو کام کئے ان میں سب سے اہم کوشش لکھنؤ میں دینی مدارس ، مکاتب اور دارالعلوم کے سربراہوں کی کانفرنس تھی، جس میں انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید معلومات اور ترقی یافتہ صورت کو اپنے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا تھا، مولاناچاہتے تھے کہ مشرقی ومغربی علوم میں ہم آہنگی پیدا ہو، یہ ترقی پذیر ہندوستان کے لئے ان کا ایک پرخلوص جذبہ وکوشش تھی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’تعلیم کا واحد مقصد روزی اور روٹی کمانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جائے اور یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی نظریات کی بنیاد چار امور پر استوار ہے۔ ایک ذہنی بیداری، دوسرے اتحاد وترقی، تیسرے مذہبی رواداری اور چوتھے عالمی اخوت، مولانا کے خیال میں آزاد ہندوستان میں تعلیم کا سب سے اہم مقصد نئی نسل میں ذہنی بیداری پیدا کرنا ہونا چاہئے کیونکہ انگریزوں کے طریقہ تعلیم نے نوجوان نسل کے لئے دو زہریلے نظریات پیدا کردیئے تھے ایک غلامی دوسرے علاحدگی پسندی، انگریزوں کے تعلیمی نظام کا مقصد حکومت کے لئے ایسے کارندے پیدا کرنا تھا جو ان کے کام آئیں، اسی مقصد سے انہوں نے علاحدگی پسندی کا بیج بویا اور طریقہ تعلیم کو اس کے لئے سب سے موثر وسیلہ بنایا، لہذا سب سے پہلے اس زہرکو نئی نسل کے ذہنوں سے نکالنا چاہئے اس کے بعد آزاد ہندوستان کے تعلیمی مقاصد میں غلامی کی جگہ آزادی اور تعصب کی جگہ مذہبی رواداری کو ملنا چاہئے جس کے نتیجہ میں ہم مغربیت کے بجائے اپنے شاندار ماضی پر فخر کرسکیں گے، مولانا تعلیم کو صرف ملازمتوں کے حصول کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اس کے وسیلہ سے ذہنوں میں بیداری لانے اورانہیں آئندہ زندگی میں خودکفیل بنانے پر زور دیتے تھے، تقریباً دو صدیوں تک مغربی اور انگریزی طرز تعلیم نے نئی نسل کو جس علامانہ ذہنیت او رتنگ نظری کا شکار بنادیا تھا، لوگ انگلستان جاکر تعلیم حاصل کرنا باعث فخر سمجھتے اور ملک کے علمی سرمایہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اس صورت حال میں تبدیلی لانا ضروری تھا ، پٹنہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے فرمایا تھا :
’’سوال یہ ہے کہ اب تک تعلیم پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تھا اس پر غیر ملکی حکومت کا قبضہ تھا، جو کچھ انہوں نے پڑھایا، ممکن ہے صحیح ہو۔جس طرح پڑھایا اس نے ہمارے ذہنوں کو بجائے کھولنے کے بند کردیا‘‘۔