ڈاکٹر عمر فاروق قاسمی
(استاد ادب اردو ودیاپتی پلس ٹو ہائی اسکول بسفی مدہوبنی)
یہ بات تب کی ہے جب راقم الحروف مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ مدہوبنی میں زیر تعلیم تھا،یہ یاد تو نہیں کہ صحیح اردو املا لکھنے کی سدھ بدھ ہوگئی تھی یا نہیں؛ لیکن اتنی بات حاشیۂ خیال میں ضرور موجود ہے کہ کتابوں کے سرِ ورق پر اردو اور عربی میں لکھے ہوئے ناموں کو غلط یا صحیح پڑھ لیا کرتا تھا۔ ہر مہینے دو مہینے پر گاؤں کے ڈاکیہ جناب راجا صاحب کے معرفت ’’احیاء العلوم‘‘- جسے اس زمانے میں اَحیاء العلوم پڑھتا تھا – کا اردو ترجمہ قسط وار شائع ہو کر ہمارے مدرسے کی لائبریری میں آیا کرتا۔جس پر ترجمہ نگار کی حیثیت سے مولانا ندیم الواجدی (فاضل دیوبند) لکھا ہوا ملتا۔ دور طالب علمی کا تھا، ابتدائی عربی کا زمانہ رہا ہوگا یا درجہ حفظ کا۔ درسیات کا کما حقہ حق ادا کرنا ہی مشکل تھا غیر درسیات پر توجہ کہاں سے ہوتی۔کبھی کبھی کبھار ان قسطوں کو اٹھا کر دیکھ لیتا کچھ باتیں سمجھ میں آتیں بھی اور کچھ نہیں بھی۔ نہ اس وقت امام غزالی کی جلالت شان سے شناسائی تھی اور نہ ہی اسلامی دنیا میں انسائیکلو پیڈیا کے نام سے متعارف ان کی گہر بار تصنیف اِحیاء العلوم سے واقف تھا ۔ اس لیے الٹنے پلٹنے کے علاوہ کبھی اس کتاب پر توجہ نہ دے پایا۔ البتہ کتابوں کی جلد سازی کے موقع پراس وقت کے ناظم کتب خانہ استاذ گرامی مولانا صلاح الدین قاسمیؒ کو دیکھتا کہ ان متفرق قسطوں کو مختلف جلدوں میں یکجا جمع کرکے جلد ساز کے حوالے کر رہے ہیں، تب ذہن میں کچھ بات آتی کہ شاید عربی کی کسی بڑی اور اہم کتاب ’’ لباس ِاردو ‘‘سے آراستہ ہے ۔ مدرسہ میں موجود اکثر درسی اور غیر درسی کتابوں کے سر ورق پر ’’ دارالکتاب دیوبند ‘‘ لکھے ہونے کی وجہ سے میں اس ادارے سے غائبانہ واقف ہو چکا تھا۔ جب 1999ء میں علم وعرفان کی سرزمین، تحریک آزادی کی چھاؤنی، اور تقریباً پونے دوسو سالوں سے اسلامیانِ ہند کے سب سے بڑے سرچشمۂ علمی دارالعلوم دیوبند میں داخلے کے لیے پہنچا تو ایک دن سیر و تفریح کے درمیان دارالعلوم سے قریب ہی کتاب کی ایک دوکان پر جلی حرفوں سے لکھا ہوا ملا ” دارالکتاب دیوبند “۔ جیسا کہ گذرچکا ہے کہ اس کتب خانہ کے نام سے شناسائی زمانہ ٔ محمود العلوم ہی میں ہو چکی تھی، اس لیے دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ کتابوں کا یہی خزانہ ہے جسے ’’ دارالکتا ب ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پینتالیس پچاس سال کے درمیان ایک ادھیر عمر کی شخصیت متوازن اور معتدل قد قامت ، چاند جیسا شفاف چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، چمکتی اور دمکتی ہوئی کشادہ پیشانی، سیب نما رخسار اور نہایت خوبصورت گھنی ڈاڑھی، کشتی نما ٹوپی اور اس پر سفید کرتا پاجامہ میں ملبوس جنوب کی جانب دارالعلوم دیوبند کی مسجد قدیم کو اپنا کعبہ و قبلہ بنائے ہوئے ایک شخصیت نظر آئی۔ اس وقت نہ تو میں نے کسی سے پوچھا اور نہ ہی کسی نے بتایا کہ یہ شخصیت کون سی ہے؟ چونکہ عربی و اردو میں اسلامی و ادبی ذخائر سے مالا مال یہ کتب خانہ دارالعلوم چوک کے قریب ہی واقع تھا اور اس لیے بھی کہ داخلۂ امتحان کے بعد کا مرحلہ یوں ہی سیر سپاٹے میں گزرتا ہے۔ اسی سیر سپاٹے کے درمیان آمد و رفت کے وقت کسی نے بتا دیا یہی مولانا ندیم الواجدی ہیں۔ چونکہ داخلہ عربی ششم میں ہوا تھا، اس لیے علمی دنیا کے اُس منزل پر ضرور پہنچ گیا تھا کہ شخصیت کی کم از کم اتنی معیار سازی کر سکوں کہ کون مولانا باصلاحیت ہیں اور کون صلاحیت سے عاری ہیں؟کون محض ’’لباس پارسائی‘‘ سے مولانا معلوم ہوتے ہیں اور کون حقیقی علم وفن کی بنیاد پر مولانا ہیں ۔ اس زمانے تک عربی اور اردو میں ان کی کئی کتابیں طلبۂ دارالعلوم کے درمیان دھوم مچا چکی تھیں۔ جن سے ان کی اردو اور عربی ہر دوزبان پر گرفت کا پتہ چلتا تھا۔ اسی وجہ سے دگر کتب خانوں کے مالکان کے مقابلے میں ان کی ایک الگ عزت تھی ۔
دارالعلوم دیوبند میں لکھنے اور چھپنے چھپانے کا جنون پیدا ہوا تو ان کے زیر ادارت نکلنے والے مشہور ماہنامہ’’ ترجمان دیوبند ‘‘ میں راقم کے کئی مضامین شائع ہوئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چھپنے کی خواہش نے ’’ انگڑائی ‘‘ لینی شروع کی تھی ۔اور الفاظ، جملے اور پیراگراف کی تقدیم و تاخیر اور ’’ چھیڑ چھاڑ ‘‘کے ذریعے دوسرے کے مضامین کو ’’ ہڑپ ‘‘ کر اپنا مضمون بنالینے کی ’’ مہارت ‘‘ اس قدر پیدا ہوگئی تھی کہ اصل مضمون نگار بھی اس کواپنے مضمون کا ’’ چربہ‘‘ سمجھنے کی بجائے نیا مضمون سمجھنے لگے ۔ اپنے پیش رو مصنفین کے مضامین کی اصل روح کو باقی رکھتے ہوئے اس کی شکل و صورت ، ناک نقشہ ، اقتباسات جملوں کی ترتیب ، ہیولیٰ اور پرانی صورت جسمیہ کونئی صورت جسمیہ سے تبدیل کر دینے کے بعد جب میں ان کے پاس پہنچتا تو وہ مضمون ہاتھ میں لے کر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد وہ اپنے پاس رکھ لیتے اور اگلا شمارہ جب منظر عام پر آتا تو عمر فاروق مدہوبنی کے نام سے میرا بھی مضمون اس میں شامل ہوتا۔ پھر کیا تھا؟ اس اشاعت کے نتیجے میں گلستانِ دیوبندکے شگفتہ پھولوں کے درمیان میرا بھی چرچا ہونے لگا تھا کہ میں بھی ’’ سلطان القلم ‘‘ ہوں، کیوں کہ ان کا رسالہ ’’ ترجمان دیوبند ‘‘ اس وقت حلقۂ دیوبند میں سند کی حیثیت رکھتا تھا۔ جب کہ حقیقت وہی تھی جو پچھلی سطروں میں مرقوم ہوئی۔ اگرچہ یہ بات غیر اخلاقی لگتی ہے ؛ لیکن یہی غیر اخلاقی حرکت بہت سی مرتبہ انسان کو مضمون نویسی سکھادیتی ہے ۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ مضمون نگاری سیکھنے کے آغاز میں اس قسم کی حرکت کرلینی چاہیے کیوں کہ اس بہانے الفاظ کا ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے اور اقتباسات کو نئے انداز میں ترتیب دینے کے لیے اس ہیرا پھری سے بھی تخلیقی صلاحیت بیدار ہو جاتی ہے ۔
بے شک مولانا ندیم الواجدی ظاہر ی اعتبار سے کتابوں کے محض تاجر تھے ؛ لیکن بباطن خالص علمی کمالات کے حامل انسان تھے، انھوں نے علمی میدان میں بہت سی خدمات انجام دیں۔ وہ ایک محقق، مصنف اور مدرس تھے؛ لیکن بحیثیت تاجر متعارف ہوئے ۔ سچی بات یہ کہ مولانا تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ قلم قرطاس کے بھی دھنی تھے۔ انہوں نے عربی اور اردو کی متعدد کتابیں تحریر کیں اور شائع کیں، جن میں امام غزالی کی ” احیاء العلوم “ کا اردو ترجمہ (چار جلدوں) میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ان کے علا وہ مندرجہ ذیل کتابیں ان کے نوک قلم سے منظر عام پر آئیں : القاموس الموضوعی (عربی، انگریزی اور اردو میں ایک سہ لسانی لغت)، جمع الخصائل شرح الشمائل ، آزادی سے جمہوریت تک،اسلام؛ حقائق اور غلط فہمیاں، انسانی مسائل؛ اسلامی تناظر میں، تین طلاق؛ عوام کی عدالت میں، اسلام اور ہماری زندگی، قرآن کریم کے واقعات، مسلمانوں کی ملی اور سیاسی زندگی، نئے ذہن کے شبہات اور اسلام کا موقف، ہمارے مدارس؛ مزاج اور منہاج، رمضان کیسے گزاریں؟ (اردو و ہندی)، آج رات کی تراویح (اردو و ہندی)، رمضان؛ نیکیوں کا موسمِ بہار، ملتِ اسلامیہ کا دھڑکتا ہوا دل، نگارشات، رشحاتِ قلم، مقالات و مضامین ،قیامت کی نشانیاں اور مولانا وحید الدین خاں کے نظریات، لہُو پکارے گا آستیں کا، آئینۂ افکار، پھر سُوئے حرَم لے چل، ہندوستان کا تازہ سفر، خدا رحمت کُنَد، بے مثال شخصیت باکمال استاذ (ان کے والد واجد حسین دیوبندی کی سوانح حیات)، عربی بولیے ، عربی زبان کے قواعد؛ نئے اسلوب میں ،عربی میں ترجمہ کیجیے ،عربی میں خط لکھیے، جدید عربی زبان ایسے بولیے!،معلم العربیہ (تین حصے)، عربی، انگلش، اردو بول چال، انگلش بولنا سیکھیے، التعبیرات المختارۃ، خُطَبُ الجمعۃ و العیدین۔
ان کے علمی و دینی موضوعات پر مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں مسلسل شائع ہوتے رہے۔زبان میں لطافت کے ساتھ ساتھ فکر ی سلامتی بھی تھی ۔فکر دیوبند کے وہ پکے ترجمان تھے اور دیوبند سے انھیں بے پناہ عقیدت تھی ۔ وہ ایک کتاب پر مقدمہ لکھتے وقت سر زمین دیوبند سے متعلق اپنی عقیدت کا اظہار اس انداز میں کرتے ہیں :
’’میرے عہد کے لوگ‘‘ کا مرکز و محور ایک ایسی سرزمین ہے جو وسیع تر ہندوستان کے نقشے میں ایک نقطے سے بھی کم حیثیت رکھتی ہے، یہ گمنام اور معمولی قصبہ اب سارے عالم میں دیو بند کے نام سے مشہور ہے اور دارالعلوم دیو بند کے قیام نے اس کو عظمت و تقدس کا وہ لباس پہنا دیا ہے جو تا قیام قیامت اس کے سراپا کی زینت بنا رہے گا، مضمون نگار نے اس سرزمین کی ممتاز شخصیتوں کے خدو خال اپنے قلم سے صفحۂ قرطاس پر ابھارنے کی کوشش کی، وہ یہیں پیدا ہوئے، ان کا بچپن یہاں گزرا، جوانی کے شب و روز بھی اسی جگہ گذر رہے ہیں، آسمان دیو بند کے آفتاب و ماہتاب کی ضیا باریوں سے اُن کا متاثر ہونا کچھ حیرت کا باعث نہ ہونا چاہیے۔ حیرت اس وقت ہوتی جب وہ اپنے گھر کی روشنی سے آنکھیں بند کر کے دوسرے گھروں میں اجالے تلاش کرنے نکلتے، حق بات یہ ہے کہ علمائے دیو بند سے متاثر ہونا اور ان کے فضل و کمال سے اپنے قلم کو زینت دینا مضمون نگار کی صالحیت اور سلامتی طبع کی دلیل ہے ۔میں صاحب کتاب کو ان کے اس اقدام پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔‘‘ (میرے عہد کے لوگ ۳۳)
زبان کی روانی اور خیالات کی پختگی ان کے مضامین میں چار چاند لگا دیتی ہے ۔ اردو کے مختلف صنفوں میں انھوں نے طبع آزامائی کی ہے۔ سیرت، سوانح ، اورخاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ اسلامیات کے مختلف شہ سرخیوں پر ان کی گراں قدر خدمات ہیں ۔ اپنے لسانی شگفتگی اور اور انداز بیان کی بر جستگی اور تشبیہات واستعارات کی رعنائی وزیبائی سے خشک سے خشک مضمون کو قابل رشک بنا دیتے ہیں ۔ سادہ اور عام سی گفتگو کو قوتِ اظہار کی چاشنی اور لطائف بیان کے ذائقے سے اس قدر مزیدار بنا دیتے ہیں کہ قاری ختم کئے بغیر نظر ہٹانے کی سکت نہیں رکھ سکتا ۔ مشہور صاحب طر زادیب مولانانسیم اختر شاہ قیصر نے اپنی کتاب ’’ میرے عہد کے لوگ ‘‘ پر ان سے مقدمہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ ان کے پیہم اصرار پر انھوں نے مقدمہ لکھنے کے واقعہ کو اس انداز میں لکھا ہے کہ فوری طور پر آپ محسوس کریں گے مولانا نسیم اختر شاہ قیصرنے واقعی عدالت میں ان پر کوئی مقدمہ دائر کردیا ہے ۔ جہاں مدعی ، مدعی ٰعلیہ اور وکیل استغاثہ سبھی موجود ہیں۔ انھوں نے کس خوب صورتی کے ساتھ اس واقعہ کو بیان کیا ہے ملاحظہ کیجئے :
” دراصل مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اپنی تمام تر بصیرت کے باوجود یہاں غلطی کر گئے اور مجھ جیسے بے بضاعت اور ہیچ مداں کو مقدمہ نگاری کا مکلف کر بیٹھے، میں نے بے حد کوشش کی کہ اس مقدمہ بازی سے نجات حاصل کرلوں، کیوں کہ میں اس کوچے کی راہ و رسم سے بالکل نا آشنا اور وہ ہر طرح پختہ کار اور تجربہ کار۔ میں نے اپنے حق میں کچھ دلائل بھی دیئے، کچھ شواہد بھی پیش کیے؛ لیکن استغاثہ کا وکیل اس قدر مضبوط تھا کہ میری ایک نہ چلی – مجبور ہو کر ٹال مٹول سے بھی کام لیا، کچھ حقیقی اور کچھ مصنوعی مصروفیتوں کے حوالے بھی دیئے، وعدوں پر وعدے کرتے کرتے چار ماہ بھی گزار دیئے یہ سوچ کر کہ شاید خودا کتا جائیں اور اپنی راہ لیں؛ لیکن پہلی مرتبہ یہ اندازہ ہوا کہ مولانا موصوف کو اللہ نے جہاں حلم، شرافت، خوش خلقی، شیریں بیانی جیسے اوصاف سے نوازا ہے وہاں انہیں ایک اور وصف سے بھی متصف کیا ہے اور وہ ہے عزم وارادے کی پختگی، انہوں نے سوچ لیا تھا کہ مجھ بے قصور کو اس مقدمہ میں ضرور پھنسائیں گے، وہی ہوا جو انہوں نے چاہا، وہ خود تو اپنی اس کامیابی پر زیر لب مسکراتے نظر آئے، مگر میں مقدمہ کے نام پر چند ٹوٹی پھوٹی سطر میں لکھ کر اپنی رسوائی کا تماشہ دیکھنے کے خیال سے لرزہ بر اندام ہوں‘‘ ( مقدمہ میرے عہد کے لوگ ص ۴۲ )
ان کے کسی بھی مضمون کو اٹھا لیجیے ، مطالعے کی وسعت ، مشاہدے کی قوت بھر پور انداز میں ملے گی ۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے سے پہلے ایسا لگتا ہے کہ وہ پہلے ہرگوشے کا کامطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہیں ۔ متعلقہ موضوع کے سمندر میں ڈوب کر اس کے اندر مخفی جواہرات کو نکال کر اسے الفاظ کے موتی میں اس خوبصورت کے ساتھ پروتے ہیں کہ آپ عش عش کرنے لگیں گے ۔ واقعہ نگاری کے وقت جو سماں باندھنے کا خوب صورت ہنر اللہ نے انھیں عطا کیا ہے وہ بہت ہی دل کش اور دل ربا ہے، دارلعلوم دیوبند کے مہتم قاری محمد طیب صاحب کی وفات کے وقت کا سماں ان کے گہر بار قلم سے ملاحظہ کیجیے :
’’ہر دن کی طرح آج بھی صبح روشن ہوئی، آفتاب کچھ بلند ہوا، فضا گرم مگر نم آلودتھی، ماحول پر اداسی طاری تھی، ہر شخص ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا آج کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، فضا خاموش خاموش سی ہے، ماحول اداس اداس سا ہے، کوئی نہیں جانتا تھا کہ ابھی کیا ہونے والا ہے، ہم کئی بار آستانۂ قاسمی کے سامنے سے گزرے،سب کچھ پر سکون تھا، اچا نک فرشتۂ اجل پہنچا اور اس نے ہماری صبح کی اداسیوں کا راز فاش کر دیا، بیمار تھے؛ لیکن ایسے بھی نہیں کہ یوں اچانک رخصت ہو جائیں، اپنے گھر کے بیرونی ہال کمرے میں ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے باتیں کر رہے تھے، دیو بند کے ایک مشہور حکیم قریب بیٹھے تھے، تسبیح ہاتھ میں تھی، زبان پر ورد جاری تھا، اچانک دونوں ہاتھ فضا میں اس طرح بلند کئے جیسے نماز کے لئے نیت باندھ رہے ہوں، کلمہ شہادت پڑھا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور اس طرح حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتم دار العلوم دیو بند۱۰شوال ۱۴۰۳، مطابق ۷ار جولائی ۱۹۸۳ء بہ روز اتوار بہ وقت گیارہ بجے دن ہم سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے، ‘‘ (خدا رحمت کند ص۵۷۔۵۸)
اس وقت میرے مطالعے میں مختلف شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ’’ خدارحمت کند ‘‘ ہے ۔ کتاب کے مطالعے کاخلاصہ یہ ہے کہ ان کا قلم جس طرح موضوع کے اعتبار سے ا حاطہ کرتا ہوا نظر آتا ہے اسی طرح اسلوب اور طرز نگارش کے اعتبار سے بھی گل کترتا ہوامحسوس ہوتا ہے ۔ ’’ خلیل بت شکن ‘‘ بن کر ان کی بہت ساری تحریں منظر عام پر آئی ہیں؛لیکن ان کی یہ کتاب ’’ شیوۂ آزری ‘‘ پر مشتمل ہے ۔ خاکہ نگاری ایک قسم کی ’’ بت گری ‘‘، ’’ بت تراشی‘‘ اور’’ شیوہ ٔآزری‘‘ ہے ۔ اگر یہ سچ ہے تو ’’دنیائے آزری ‘‘ میں ماہر’’ بت تراش ‘‘ اورسوانحی خاکہ نگاری کے میدان میں ماہر نقاش کی حیثیت سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ البتہ ابھی دعا گو ہوں کہ خدا نھیں ’’ وارثان خلیلِ بت شکن ‘‘ میں شامل فرماکر جنت نشیں بنائے ۔
آخیر میں رفیق درس برادرم ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی کواظہارِ تعزیت کرتا ہوں ۔ خدا ان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ وہ عظیم والد کے عظیم فرزند ہیں ۔ ’’ الولد سر لابیہ ‘‘ کے حقیقی مصداق ہیں ۔ اگر ان کا کوئی قلمی نسخہ زیور طبع سے آراستہ ہونا چاہتا ہے تو اپنی تحقیقی و تنقیدی صلاحیت کو برو کار لاتے ہوئے اسے صفتِ آراستگی سے متصف کر یں اور مطالعے کی میز کو اس سے سجا دیں ۔