رام نومی کے موقع پر رپورٹنگ کے دوران احمد آباد میں سینئر صحافی سہیل قریشی کو پولیس افسر نے دی دھمکیاں، موبائل فون چھینا اور کوریج سے روکا

احمد آباد: سینئر صحافی سہیل قریشی کو 7 اپریل 2025 کو گجرات کے شہر احمد آباد کے دانی لِمڈا علاقے میں رپورٹنگ کے دوران ایک پولیس افسر کی جانب سے شدید ہراسانی، دھمکیوں اور کوریج سے روکنے کا سامنا کرنا پڑا۔ واقعہ پیر کمال مسجد کے باہر اس وقت پیش آیا جب رام نومی کے موقع پر بی جے پی اور کانگریس کے کارکنان کے درمیان جھنڈے لگانے کے معاملے پر تنازعہ کھڑا ہوا۔

جھڑپ اس وقت سنگین شکل اختیار کر گئی جب رات تقریباً دو بجے بی جے پی کے حامی پیر کمال مسجد کے سامنے جمع ہوئے اور زور زور سے “جے شری رام” کے نعرے لگانے لگے۔ اس دوران سہیل قریشی جو موقع پر حالات کا جائزہ لینے اور رپورٹنگ کے لیے موجود تھے، پولیس انسپکٹر راوت کی بدسلوکی کا نشانہ بنے۔ انسپکٹر نے ان کے کیمرہ مین کا موبائل فون چھین لیا اور ریکارڈنگ روک دی۔

قریشی کے مطابق وہ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے:

“مجھے رات ایک بجے اطلاع ملی کہ وی ایچ پی اور بی جے پی کارکنان پیر کمال مسجد کے سامنے جمع ہو رہے ہیں اور ‘جے شری رام’ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ پولیس کی کئی گاڑیاں موجود ہیں۔ میں نے ہجوم سے بات چیت شروع کی تو ایک شخص نے خود کو بی جے پی انچارج بتایا اور دعویٰ کیا کہ پانچ سو مسلمان اُن کے خلاف جمع ہو چکے ہیں۔ لیکن موقع کی ویڈیو فوٹیج سے واضح ہوا کہ وہاں صرف 20 سے 30 افراد تھے۔ جب میں نے اس تضاد پر سوال اٹھایا تو مجھ پر مسلمانوں کی حمایت کا الزام لگایا گیا۔”

قریشی کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے مسلمانوں سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو پولیس انسپکٹر راوت نے ان کے کیمرہ مین سے موبائل فون چھین لیا، مائیک بند کر دیا اور کوریج سے روکنے کی کوشش کی۔ انسپکٹر راوت نے قریشی پر مجمع کو بھڑکانے کا الزام بھی لگایا اور مبینہ طور پر ان پر حملے کی کوشش کی۔

“کئی بار درخواستوں اور صحافی رئیس سید کی مدد سے مجھے آخرکار اپنا فون واپس ملا،” قریشی نے بتایا۔

سہیل قریشی کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انہیں رپورٹنگ سے روکنے کی کوشش کی گئی ہو۔ رمضان کے آخری جمعہ کو جب وہ مختلف مساجد کے باہر پرامن احتجاج کی رپورٹنگ کر رہے تھے، جہاں مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اپیل پر وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاجاً سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں، تو دانی لِمڈا علاقے میں انہیں دوبارہ انسپکٹر راوت کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

قریشی کے مطابق، وہ اس وقت احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پولیس اسٹیشن گئے، تو انسپکٹر راوت نے ان سے کہا کہ وہ اپنا ایس ڈی کارڈ پولیس کمپیوٹر میں ڈالیں۔ قریشی نے فوٹیج اور دیگر صحافتی مواد کی سلامتی کے پیش نظر ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

قریشی نے بعد میں X (سابق ٹوئٹر) پر ایک تفصیلی پوسٹ میں پولیس کے رویے پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے لکھا:

“وہی پولیس انسپکٹر جو رمضان کے آخری جمعہ کو مساجد کے باہر پرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو حراست میں لیتا ہے، وہی افسر بی جے پی کے کارکنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا جو مسجد کے سامنے ‘جے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑک بند کر دیتے ہیں۔ اور پھر جو صحافی سچائی سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے فون اور کیمرے چھین لیے جاتے ہیں، انہیں دھمکایا جاتا ہے۔ کیا یہی ‘گجرات ماڈل’ ہے؟ کیا یہی وزیر اعظم مودی کا ‘نیا انڈیا’ ہے؟”

صحافتی آزادی پر خطرہ

صحافیوں کی تنظیموں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور اسے صحافتی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں کو ان کے کام کے دوران تحفظ فراہم کیا جائے اور پولیس افسر راوت کے خلاف کارروائی کی جائے۔

کوگیٹو میڈیا فاؤنڈیشن کے صدر اور سینئر صحافی شمش تبریز قاسمی نے اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:

“یہ واقعہ نہ صرف صحافت پر حملہ ہے بلکہ سچائی کو دبانے کی ایک کھلی کوشش ہے۔ سہیل قریشی جیسے بے باک صحافی ملک میں سچ بولنے کی آخری دیوار ہیں۔ پولیس کا یہ رویہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انسپکٹر راوت کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کی جائے اور صحافیوں کو ان کے فرائض کی ادائیگی کے دوران مکمل تحفظ دیا جائے۔”

شمش تبریز قاسمی نے مزید کہا کہ اگر ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کی گئی تو ملک میں آزاد صحافت دم توڑ دے گی، اور سچائی عوام تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com