شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
جمعیۃ علماء کناڈا کی دعوت پر راقم الحروف کو ۹؍ فروری ۲۰۱۷ء سے تقریباً دو ہفتوں کے لئے ٹورنٹو اور وِین کووَر کے سفر کا موقع ملا ، ٹورنٹو کناڈا کی راجدھانی ہے ، اور وِین کووَر وہاں کا مشہور ساحلی تفریحی شہر ، جس کو اس کے خوبصورت مناظر کی وجہ سے دنیا کے سات خوبصورت شہروں میں شمار کیا گیا ہے اور کئی دفعہ عالمی رائے عامہ میں خوبصورتی ، امن و امان اور ماحول موافق ہونے کے اعتبار سے اس کو اول درجہ حاصل ہوا ہے ، یہ سفر خاص طورپر اربابِ افتاء کے تربیتی پروگرام کے لئے منعقد کیا گیا تھا ، مؤرخہ : ۱۱؍ فروری کو مسجد ابوبکر صدیقؓ کے ’ کانفرنس ہال ‘ میں جدید مسائل اور ان کا حل ، اجتہاد اور عصر حاضر ، اختلاف اور ادب اختلاف اور ۱۲؍ فروری کو اسی ہال میں فقہ الاقلیات یعنی ’ غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں کے شرعی مسائل ، نیز تکثیری سماج میں مسلم وغیرمسلم تعلقات جیسے اہم موضوعات پر توسیعی خطابات رکھے گئے تھے ، اور اخیر میں سوال و جواب کا کھلا سیشن رکھا گیا تھا ، کچھ کمی بیشی کے ساتھ یہی موضوعات وِین کووَر میں بھی تھے ، وہاں یہ پروگرام مسجد نور ( سرے) کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا ، دونوں ہی پروگرام علماء اور اربابِ افتاء کے لئے مخصوص تھے ، ٹورنٹو اور اس کے مضافات میں چوں کہ علماء کی تعداد زیادہ ہے ؛ اس لئے اس میں ۷۰ سے ۸۰ تک شرکاء کی تعداد تھی اور میرے لئے قابل تعجب بات یہ تھی کہ دوسرے دن شدید برف باری کے باوجود مدعوئیں نے بہ پابندی وقت شرکت کی ، وِین کووَر کے علاقہ میں علماء کی تعداد کم ہے ؛ بلکہ مسلم آبادی ہی کم ہے ؛ اس لئے شرکاء کی تعداد نسبتاً کم تھی ۔
اِس وقت اِن پروگراموں پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے ؛ بلکہ اس حقیر نے وہاں کے جو حالات دیکھے اور ان کو دیکھنے کے بعد جو احساسات قائم ہوئے ، ان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ؛ کیوں کہ پچھلی دو دہائیوں سے گلوبلائزیشن کے نام پر ہندوستان کے حالات جس طرح بدل رہے ہیں اور جس تیزی سے مغربی تہذیب اپنے بال و پر پھیلا رہی ہے ، ان کی وجہ سے آئندہ وطن عزیز پر اور خود مسلمانوں پر جن سماجی اوراخلاقی اثرات کے پڑنے کا اندیشہ ہے ، وہ تقریباً وہی ہیں جن سے اس وقت مغربی معاشرہ دوچار ہے ، حقیقت یہ ہے کہ وہاں رہنے والے مسلمان اس وقت ایک زبردست تضاد سے دوچار ہیں اور فکری و تہذیبی دو راہے پر کھڑے ہیں ، جو مسلمان اِن ملکوں میں گئے ہیں ، اُن کی پہلی نسل اگر دین دار تھی تو وہ اپنی دین داری کو باقی رکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ، دوسری نسل کو بھی ایک حد تک بچائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ؛ لیکن تیسری نسل کو مغربی فکر و تہذیب سے بچانا بے حد دشوار ہوتا ہے ، مسلمان ان ملکوں میں مسجدوں کی کثرت کے بارے میں سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور یقیناًیہ ہے ہی ایک خوش آئند بات ؛ لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے ، عام طورپر ان مسجدوں کی آبادی بوڑھوں اور نئے تارکین وطن کے ذریعہ ہوتی ہے ، جن کا ایک سیلابِ مسلسل ان ملکوں میں داخل ہوتا رہتا ہے ؛ لیکن جو لوگ آپ کو مسجدوں میں پابند نمازی نظر آتے ہیں اور ان کے چہرے اور لباس سے ان کی گہری دینی وابستگی ظاہر ہوتی ہے ، خود ان کے گھروں میں بھی بعض اوقات حالات بہت ابتر ہوتے ہیں ، ان کے یہاں بھی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ماں باپ کی قید نگرانی سے آزاد اور دل و دماغ اسلامی افکار کی تابعداری کے جذبہ سے عاری ہیں ؛ اس لئے مسلمان گھرانوں میں بھی شوہر و بیوی اور والدین و اولاد کی زندگی میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے ، اور جو والدین مادی فوائد کی قربان گاہ پر دینی اقدار کو بھینٹ چڑھانے کو تیار نہیں ہیں ، ان کا دِل دردمند خون کے آنسو روتا ہے اور ان کو محسوس ہوتا ہے کہ آگے بڑھنا ناگوار تر ہے اور پیچھے واپس ہونا ناممکن ؛ اس لئے وہ سخت کسک کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ۔
اس وقت مغربی تہذیب جس فکری گمراہی اور اخلاقی زوال سے دوچار ہے اور دوچار ہونے سے بڑھ کر اس کی داعی و ترجمان ہے ، میں نے جہاں تک غور کیا ، اس کے تین بنیادی اسباب ہیں ، اور یہ تینوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں ، ایک : مذہب کا انکار اور اس کو ایک فضول چیز سمجھنا ، دوسرے شخصی آزادی کا مبالغہ آمیز تصور ، تیسرے : خاندانی نظام کی تباہی ، اور یہ تینوں باتیں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ جہاں بھی ان میں سے ایک چیز پائی جائے گی ، دوسری چیزبھی پائی جائے گی ۔
مذہب بیزاری کا پس منظر یہ ہے کہ یورپ میں ایک عرصہ تک حکومت اور چرچ کے درمیان لڑائی رہی ہے ، یہ لڑائی بالآخر چرچ کے جور وستم کی وجہ سے ان کی شکست پر ختم ہوئی ، اور چوں کہ یورپ کے سامنے صرف عیسائیت ہی تھی ، اس لئے انھوں نے اس کی ناکامی و نامرادی کو سامنے رکھ کر یہ بات طے کردی کہ مذہب کا زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ، زیادہ سے زیادہ عباداتی رسوم عبادت گاہوں میں انجام دیئے جاسکتے ہیں اور مذہبی تہوار منائے جاسکتے ہیں ؛ لیکن لباس و پوشاک ، کھانا پینا ، لوگوں کے باہمی تعلقات ، سماجی زندگی اور معاملات وغیرہ میں مذہب کا کوئی دخل نہیں ہوگا ، اسی کا اثر ہے کہ مغربی ملکوں میں چرچ فروخت کئے جارہے ہیں ، بڑے بڑے چرچوں میں صرف اتوار کو کچھ عمر رسیدہ لوگ آجاتے ہیں اور بس ، ہفتہ کے دوسرے دنوں میں مختلف پروگراموں کے لئے انھیں کرایہ پر لگادیا جاتا ہے ، اس طرح مغربی تہذیب کی پہلی اینٹ خدا کا انکار ہے ، اگرچہ وہ اپنے آپ کو موروثی نسبت کی وجہ سے عیسائی یا یہودی کہتے ہیں ؛ لیکن خدا کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ ان کی زندگی میں کوئی دخل دے ۔
یہ ایک بنیادی سوچ ہے ، جس پر پورے مغربی تمدن کی اساس ہے ، عمل کے بگاڑ کی اصلاح آسان ہوتی ہے ؛ لیکن جب بنیادی سوچ ہی درست نہ ہو تو اس کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا ، اگر کوئی شخص برائی کو برائی سمجھتا ہو اور اس کا مرتکب ہوتا ہو تو کسی مرحلہ پر یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ آپ اس کو صحیح راستہ پر لے آئیں ؛ لیکن اگر کوئی معاشرہ کسی عمل کو برا سمجھتا ہی نہ ہو ، تو اس کو اس سے بچانا بظاہر ممکن نہیں ؛ اس لئے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم مغربی تہذیب اور اس کے اثرات کا جو رونا روتے ہیں اور اس پر رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں ، اس کا صحیح حل یہ ہے کہ مغرب زدہ مسلمانوں اور مشرقی قوموں کی سوچ کو بدلا جائے ، جو مغرب میں بسنے والی مسلمانوں کی نئی نسل میں عموماً سرایت کرچکی ہے اوردھیرے دھیرے مشرقی ملکوں ؛ بلکہ خود مسلمان ملکوں میں بھی اپنا قدم بڑھا رہی ہے ۔
بہت سے لوگوں کو مغرب میں پائی جانے والی بعض اخلاقی خوبیوں پر بڑا رشک آتا ہے ، اور اخلاق ہے ہی ایسی چیز جو دلوں کو متاثر کرے اور انسان کو اسیر محبت بنالے ، جیسے : ٹریفک اُصول کی رعایت ، راستہ چلتے ہوئے بوڑھوں اور کمزوروں کی مدد ، عورتوں کے نیم عریاں لباس میں ملبوس ہونے کے باوجود چھیڑ چھاڑ کے واقعات کا بہت کم پیش آنا ، معاملات میں دیانت داری ، خرید و فروخت میں دھوکہ دہی سے بچنا ، صفائی ستھرائی کا لحاظ ، اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک ، اگر ان کے ساتھ کوئی ناگوار خاطر بات پیش آئے تو ان کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑا ہونا اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کرنا ، یہ خوبیاں واقعی قابل تقلید ہیں اور ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ ایمان سے تو محروم ہیں ؛ لیکن انھوں نے اسلامی اخلاق کو اپنا طریقۂ زندگی بنالیا ہے ۔
لیکن اگر گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ان کے یہ بہتر اخلاق ایک طرح کا تاجرانہ عمل ہے ، ایسے ہی جیسے ایک ہوش مند تاجر کتنا ہی بداخلاق اور بد زبان ہو ؛ لیکن وہ اپنے گاہک کے ساتھ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے اور مارکٹ میں اپنے آپ کو اس طرح رکھتا ہے کہ گاہکوں کے درمیان ا س کی خوش اخلاقی کا چرچا ہو ، یعنی اس کی زندگی میں ایک تضاد ہوتا ہے ، اس کا ایک چہرہ اپنے گاہکوں کے سامنے ہوتا ہے اوردوسرا عام لوگوں کے سامنے ، مثلاً مغربی اقوام اپنے ملک میں امن و امان قائم رکھتی ہیں ، اگر کسی مسجد پر حملہ ہوا تو ملک کا وزیر اعظم بھی اظہار افسوس کے لئے مسجد پہنچتا ہے ، ملک کا صدر بھی اقلیتوں کی حمایت میں اپنا بیان دیتا ہے ، پولیس مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پوری قوت کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوتی ہے ، اگر حکومت کا اپنے عوام سے کوئی وعدہ ہو تو اس پر قائم رہتی ہے ؛ لیکن دوسرا رُخ یہ ہے کہ یہی قومیں دوسرے ملکوں اور بالخصوص مسلمان ملکوں میں زبردستی دخل دیتی ہیں ، وہی فوج جو اپنے ملک میں ظلم کو برداشت نہیں کرپاتی ، دوسرے ملکوں میں لاکھوں افراد کو تہہ تیغ کردیتی ہے ، اپنے ملک میں اپنے آپ کو قانون کا پابند رکھتی ہے ؛ لیکن جب دوسرے ملکوں میں داخل ہوتی ہے تو بہ جبر اس بات کو منواتی ہے کہ ہمارے فوجی اور کارکن آپ کے ملکی قانون سے مستثنیٰ ہوں گے ، یہاں تک کہ مختلف حکومتوں سے ہونے والے معاہدات کو بلا تامل توڑ دیتی ہے اوراپنے بینکوں میں جمع شدہ کھاتوں کو منجمد کردیتی ہے ۔
اس تضاد کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں امن و امان قائم رہے ؛ تاکہ ان کے یہاں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو ، دنیا بھر سے ماہرین ان کے یہاں پہنچیں ، ٹکنالوجی میں ترقی ہو اور معاشی طورپر ملک آگے بڑھے ، داخلی امن اتنا مستحکم ہو کہ انھیں دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے میں پوری یکسوئی حاصل رہے ، اگر مغربی قوموں کے اخلاق حقیقی اخلاق ہوتے تو انیسویں صدی میں ایشیائی اور افریقی ممالک پر جو مظالم ہوئے ، جاپان میں ایٹم بم برسائے گئے ، ویتنام کو بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا ، وسط ایشیائی ریاستوں میں عوام کے مقتل سجائے گئے اور بلقان کی ریاستوں میں مسلمانوں کو جو منصوبہ بند طریقہ پر ہدف بنایا گیا ، اس کی نوبت نہیں آتی ، اور نہ گیہوں کے ڈھیر ، دودھ کی نہریں اور مکھن کے ٹیلے سمندر میں غرق کئے جاتے ؛ تاکہ عالمی مارکٹ میں ان کی پیداوار کی قیمت کم نہ ہو جائے ، خواہ بھوک کی وجہ سے افریقہ کے لاکھوں افراد اپنی جانیں گنوادیں ۔
غور کیا جائے تو خدا بیزاری اور مذہب سے بے اعتنائی مغربی تہذیب کے رگ و ریشے میں رچ بس گئی ہے ، جب انسان کی زندگی میں خدا کا تصور باقی نہیں رہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ خود اپنے وجود کا مالک ہے ، اسے حق ہے کہ وہ جو چاہے کرے ، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی خواہشات مذہبی اوراخلاقی حدود کی پابند نہیں ہیں ، وہ قیود و حدود سے آزاد زندگی بسر کرسکتا ہے ، سوائے اس کے کہ ملک کا قانون امن عامہ کے نقطۂ نظر سے کسی بات کو منع کرے ، یا کسی عمل سے اس کی نیک نامی متاثر ہو ، یا اس کے معاشی فوائد پر ضرب پڑتی ہو ، وغیرہ ، اللہ کا خوف اور بے لوث اخلاقی تقاضے اس کو کسی عمل سے باز نہیں رکھ سکتے ، اس وقت پورا مغربی معاشرہ اسی اُصول پر زندگی گزارتا ہے ؛ اسی لئے مغربی سماج میں ماں باپ کو یا ٹیچر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ بچوں کی کسی خواہش میں رکاوٹ بنے ، یا ان کی تنبیہ کرے ، زنا ، شراب اور حد یہ ہے کہ ہم جنسی کی شادی کی قانونی اجازت ہے ، اسکول میں شروع سے بچوں کو یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ باپ کا ہونا ضروری نہیں ہے ، تنہاماں کا ہونا کافی ہے ، ایک بچہ کی دو مائیں اور دو باپ بھی ہوسکتے ہیں ، لڑکا چاہے تو لڑکی اور لڑکی چاہے تو اس کے لڑکا بننے میں کوئی حرج نہیں ہے ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی پولیس کا نمبر دیا جاتا ہے کہ اگر ماں باپ نے تم کو کوئی تنبیہ کی تو فوراً پولیس کو خبر کردو اور ان کو پولیس کے نمبر یاد کرائے جاتے ہیں ، اسکولوں میں ابتدائی درجوں سے سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے ، ان سب کے پیچھے یہی تصور کار فرما ہے کہ افراد کو اپنی اپنی خواہش کے مطابق عمل کی آزادی ہے ، ان کے معاملہ میں مذہب یاسماج کو دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔
انفرادی اور شخصی آزادی کے اس مبالغہ آمیز تصور میں خاندان کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں رکھی گئی ہے ، جب ایک شخص کے لئے خدا کی بات ماننا ضروری نہیں ہے ، تو ایک نوجوان اپنے بوڑھے ماں باپ اور خاندان کے بزرگوں کی رائے کو کیوں اہمیت دے ؟ اس لئے بقول اکبر اِلٰہ آبادی ’ بیٹے اپنے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں ‘ وہ کس طرح زندگی گزاریں ، کہاں اپنی رات بِتائیں ، کس کے ساتھ رہیں ، ان کا ساتھ رہنا شادی کے ساتھ ہو یابغیر شادی کے ، کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ؟ ان سب چیزوں میں وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں ، ۱۶ سال کی عمر کے بعد لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی اپنے گھر چھوڑ دیتی ہیں ، زندگی کا معیار کچھ اس طرح کا ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں کو کام کرنا ہوتا ہے ؛ اس لئے نکاح کے رشتہ میں استحکام ختم ہوتا جارہا ہے ، بین مذہبی شادی عام ہے ، طلاق کی کثرت ہے ، منشیات پر کوئی پابندی نہیں اور تعلیمی اداروں میں نہایت خطرناک غیر قانونی منشیات کا سیلاب آرہا ہے ؛ چوں کہ انسان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے ماحول کے اثرات سے بالکل آزاد رہ سکے ؛ اس لئے مسلمانوں کی نئی نسل بھی تیزی سے گرفتارِ بلا ہوتی جاتی ہے اور خاندانی نظام کے بکھر جانے کی وجہ سے نہ کوئی اسے روک سکتا ہے اور نہ ٹوک سکتا ہے ۔ (جاری)