سی اے جی اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ میں آمدنی و چڑھاوا اور اخراجات کی جانچ کرے گی۔ ساتھ ہی خادموں کے دونوں انجمنوں کی بھی تحقیقات کرے گی۔ مرکزی حکومت نے ہی سی اے جی کو اس تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اس کے لیے صدر جمہوریہ سے بھی منظوری مل چکی ہے۔ دراصل پرائیویٹ اداروں کی سی اے جی تحقیقات کے لے صدر جمہوریہ کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران صدر جمہوریہ سے منظوری ملنے کی اطلاع دی۔
دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت اور انجمنوں کے وکیل آشیش کمار سنگھ کو اس سے اے جی تحقیقات کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئیں اور انہیں آرڈر کاپی فراہم کی گئی۔ ہائی کورٹ نے صدر جمہوریہ کی منظوری اور مرکزی حکومت کے حکم کو ریکارڈ پر لانے کو کہا ہے۔ حکم جاری ہوتے ہی تحقیقات شروع کر دی جائے گی۔ واضح ہو کہ مرکزی حکومت کی اقلیتی امور کی وزارت نے گزشتہ سال 15 مارچ کو درگاہ کی انجمنوں کو سیکشن 20 سی کے تحت نوٹس جاری کیا تھا۔ یہ نوٹس مرکزی وزارت داخلہ کے مشورے پر جاری کیا گیا تھا۔ نوٹس کے ذریعہ انجمنوں کی آمدنی اور اخراجات کی تحقیقات سی اے جی سے کرائے جانے پر جواب طلب کیا گیا تھا۔
ذرائع سے ملی اطلاعات کے مطابق وزارت داخلہ کو یہاں غیر ملکی فنڈنگ ہونے اور زیارت کے بدلے ملنے والی رقم کو غلط کاموں میں استعمال کیے جانے کی شکایت ملی تھی۔ خادموں کی انجمنوں نے راجستھان ہائی کورٹ کے وکیل آشیش کمار سنگھ کے نوٹس کا جواب دیا اور ساتھ ہی نوٹس کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا۔ اقلیتی وزارت کی نوٹس کو گزشتہ سال 23 مئی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ نوٹس کے جواب اور ہائی کورٹ میں داخل عرضی میں کہا گیا کہ خادموں کو زیارت کرانے کے بدلے عقیدت مند اپنی خوشی سے بخشش دیتے ہیں۔ اسی پیسے سے خادموں کے پریواروں کا خرچ چلتا ہے۔ خادم درگاہ میں خدمت کے جذبے سے کام کرتے ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ میں کہا گیا تھا کہ صدر جمہوریہ کی منظوری کے بغیر پرائیویٹ اداروں کی سی اے جی کے ذریعہ تحقیقات نہیں کرائی جا سکتی۔
اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر خادموں کی دو انجمنیں یعنی ادارے ہیں۔ درگاہ میں عطیہ خانہ میں چڑھاوے کی رقم حکومت کی دیکھ ریکھ میں چلنے والی درگاہ کمیٹی کو ملتی ہے۔ زائرین کو درگاہ میں زیارت کرانے کی ذمہ داری خادم سنبھالتے ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں درگاہ سے وابستہ خادموں کو زیارت کے لیے آنے والے عقیدت مندوں سے پیسے ملتے ہیں۔
خادموں کو جو پیسے دیے جاتے ہیں، ان میں سے درگاہ پر کتنا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ فلاح و بہبود کے کتنے کام ہوتے ہیں اور زائرینوں کی کوئی مالی مدد کی جاتی ہے یا نہیں، سی اے جی ان تمام کی تحقیقات کرے گی۔ اس کے علاوہ خادموں کی انجمنیں رجسٹرڈ ہیں یا نہیں اور وہ قوانین کے عین مطابق کام کر رہی ہیں یا نہیں، اس کی بھی تحقیقات ہوگی۔ ساتھ ہی، کیا انجمنوں کو زائرین سے پیسے لینے کا حق ہے یا نہیں اس کی بھی تحقیقات ہوگی۔ فی الحال گزشتہ 5 سالوں کی آمدنی-چڑھاوے اور اخراجات کا آڈٹ ہوگا۔ صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد مرکزی حکومت کے محکمہ خزانہ نے حکم بھی جاری کر دیا ہے کہ دونوں انجمنوں کی گزشتہ 5 سال کی آمدنی اور اخراجات کی تحقیقات کی جائے گی۔