اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ان متنازعہ اطلاعات کے تناظر میں کہ اسرائیلی فورسز نے غزہ میں امدادی مرکز کے قریب امداد کے منتظر فلسطینیوں پر فائرنگ کی، واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق رفح میں فلسطینیوں کو اس وقت گولی ماری گئی جب وہ ایک امدادی مرکز سے خوراک کے حصول کے لیے انتظار کر رہے تھے، جو غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے زیرِ انتظام اور امریکہ و اسرائیل کی حمایت یافتہ ہے۔ غزہ میں تازہ خبروں تک 21 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس کے زیرِ انتظام سیول ڈیفنس ایجنسی نے ہلاکتوں کی تعداد 31 بتائی ہے۔
غزہ کے لوگ قحط جیسی صورتِ حال سے پریشان ہیں کیونکہ تشدد میں شدت ہے، سرحدی گزرگاہیں بند ہیں اور خوراک کی خطرناک حد تک کمی ہے۔ 2 مارچ کو غزہ کی پٹی میں تمام امداد کے داخلے کو روکنے کے بعد سے بھوک اور غذائی قلت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ 470,000 لوگ تباہ کن بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ پوری آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ 71,000 بچوں اور 17,000 سے زیادہ ماؤں کو شدید غذائی قلت کے لیے فوری علاج کی ضرورت ہوگی۔
مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور نقل و حرکت کی پابندیوں پر گہری تشویش ہے، جو مارکیٹوں، معاش اور خوراک کی حفاظت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ جنوری 2025 کے وسط سے 40,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ دنیا معیشت کو برقرار رکھنے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوڈ واؤچرز اور نقد امداد کو ترجیح دے رہی ہے۔
سات اکتوبر سال 2023 کے بعد سے اسرائیل نے جو غزہ میں کیا ہے، اس نے معصوم عوام کو بھوکا مرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بھوک مری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی 20 لاکھ سے زائد آبادی کو خوراک، پانی اور طبی امداد کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتِ حال کو ‘جنگی جرم’ اور ‘نسل کشی’ قرار دیا ہے۔
غزہ کی معیشت اور بنیادی ڈھانچہ جنگ کے آغاز سے ہی تباہ ہو چکے ہیں۔ زرعی زمینوں، ماہی گیری کی کشتیوں اور گھروں کی وسیع پیمانے پر تباہی نے مقامی آبادی کو خود انحصاری سے محروم کر دیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق، غزہ کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور بیشتر افراد پناہ گزینی کے مراکز میں رہائش پذیر ہیں جہاں صفائی اور صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ کے تمام افراد بھوک کا شکار ہیں اور ایک چوتھائی آبادی قحط کا سامنا کر رہی ہے۔ حملوں اور محاصرے کی وجہ سے 22 فیصد زرعی زمین تباہ ہو چکی ہے اور 70 فیصد ماہی گیری کی کشتیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بیکریاں بند ہیں اور مویشی بھی بھوک سے مر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور محاصرے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
اسرائیل نے امدادی سامان کی ترسیل کو شدید محدود کر دیا ہے۔ اوکسفیم کے مطابق، محاصرے کے بعد صرف دو فیصد خوراک غزہ تک پہنچی ہے۔ اسرائیل نے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں ڈال کر قحط کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے اس صورتِ حال کو ‘بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے’ کے مترادف قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی کارروائیوں کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرم قرار دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پہلے غزہ کی معصوم عوام کو پابندیوں کے باعث بھوکا رکھا جاتا ہے، پھر انہیں امداد دینے کے نام پر بلایا جاتا ہے اور بعد ازاں ان پر گولی چلا کر مار دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں صرف خبروں پر تبصرہ کرنے کے علاوہ بھولی بھالی عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حکومتوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف پیسے کی خاطر اسرائیل کی ہر زیادتی کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ بہرحال، غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بھوک مری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک سنگین انسانی بحران ہے جسے فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس صورتِ حال کا نوٹس لے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ امدادی سامان کی ترسیل کو ممکن بنایا جا سکے اور غزہ کی عوام کو بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کی جا سکیں۔ (بشکریہ قومی آواز)