مشرّف عالم ذوقی
سابق ایم پی اور آل انڈیا مجلس مشاورت کے سابق صدرسید شہاب الدین چلے گئے . ایک دور ختم ہوا .ہم کچھ دن بعد ان کے نام کو بھی فراموش کر دینگے .ابھی ان کی موت کا غم تازہ ہے ،تو دو چند تحریریں بھی سامنے آ جاینگی . پھر ہم انھیں فراموش کر دینگے .یہ ہوتا آیا ہے .یہ سلسلہ چلتا رہیگا .لیکن کیی باتیں ایسی ہیں ،جن پر غور کرنا ضروری ہے .بابری مسجد شہادت سے قبل مسلمانوں کے درمیان سید شہاب الدین کا نام محض ایک نام نہیں تھا ،یہ نام محض ملی مسائل سے وابستہ نام نہیں تھا ،اس نام کے پیچھے ایک ویژن تھا .اس ویژن نے ہی مسلم انڈیا اخبار کو جاری کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا .اور مسلم انڈیا بھی صرف ایک عام سا اخبار نہیں تھا .یہ اخبار مسلمانوں کے لئے ایک مضبوط زمین تلاش کرنے کا نام تھا ..لیکن جو زمانہ سید صاحب کا زمانہ تھا ،اس زمانے میں بھی مسلمانوں کو تقسیم کرنے والے ٧٢ فرقے موجود تھے .جیسے آج ہیں .آخر وہ اسباب کیا ہیں کہ مسلمانوں کی غربت میں کویی کمی نہیں آتی ،اور ملی مسائل کی روٹیاں توڑنے والے محلوں میں رہنے لگتے ہیں .ہوایی سفر کرتے ہیں .پیٹرول پمپ کے مالک بنتے ہیں ..پیسے کماتے ہیں .پیسے کمانے کے لئے واحد راستہ مسلمانوں کے مسائل سے ہو کر گزرتا ہے .سید صاحب ایسے نہیں تھے .امبیسڈر رہ چکے تھے .تعلیم یافتہ تھے .پیسوں کی کمی نہیں تھی . بابری مسجد شہادت کا غم ایسا تھا کہ وہ خاموش ہو گئے .اور یہ خاموشی آخری سانس تک بنی رہی .بات ٢٠٠٠ کی ہے .پہلی بار ایک پروگرام میں انکے قریب بیٹھنے کا موقع ملا .میں نے ایک سوال کیا .کیا بابری مسجد کی شہادت کے لئے باضابطہ مسلم جماعتوں کی طرف سےکویی بڑی ڈیل ہوئی تھی ؟ وہ مسکراہے .گھر آنے کے لئے کہا .میں جا نہیں سکا .بات آیی گیی ،ختم ہو گیی .ناول آتش رفتہ کا سراغ میں بھی میں میں نے اس ایشو کو اٹھانے کی کوشش کی . ونود مہتا انگریزی کے بڑے صحافی تھے .آلوک مہتا ان کے چھوٹے بھایی ہیں .وہ ہندی آوٹ لک کے ایڈیٹر تھے .اب بھی ہندی اخبار سے وابستہ ہیں .الوک نے جب اپنے ہندی اخبار کی اشاعت شروع کی ، تو پہلے ایڈیشن میں پہلے صفحے پر یہ خبر شایع کی کہ بابری مسجد ایک ڈیل تھی .یہ بات بھی اب ١٧-١٨ سال پرانی ہو گی .لیکن اس کے بعد یہ خبر ان کے اخبار سے بھی غایب ہو گیی .بابری مسجد شہادت کے بعد میں نے کیی مضامین میں مسلم رہنماؤں کو نشانہ بنایا .ان میں سید صاحب بھی شامل تھے .میرا سیدھا سوال تھا ..بابری مسجد شہادت سے قبل مسلم لیڈران جس انداز میں چیخ رہے رہے تھے ،وہ چیخ شہادت سے ایک ہفتہ قبل کہاں کھو گیی تھی ؟شہادت کے کچھ دنوں تک پر اسرار خاموشی چھایی رہی .پھر مسلم لیڈران نے بولنا شروع کیا جس کی کویی ضرورت نہیں تھی .اور اس وقت مسلم لیڈران کی بے بسی ،لاچاری اور ناکام سیاست کا پورا ہندوستان گواہ تھا .
سید صاحب اس وقت کے حالات سے واقف تھے .وی پی سنگھ کی حکومت میں انکا بول بالا تھا .انکی ایک آواز پر ہندوستان کےتمام مسلمان اٹھ کھڑے ہوتے تھے .شاہ بانو کیس میں اس وقت ہم بھی اس جادو کے چشم دید گواہوں میں شامل رہے ہیں .آزادی کے بعد وہ پہلے ملی قاید تھے ،جن کی آواز پر بھروسہ کیا جاتا تھا .اب ایسا کویی قاید کم از کم میری نظر میں نہیں .اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سنجیدگی سے ملی مسائل پر غور کرتے تھے .مسلمان قوم انکے سیاسی کاروبار کا حصّہ نہیں تھی .وہ مسلم قوم کے درد سے آگاہ تھے .اور مسلم لیڈران کی سیاست سے بھی .جنکا کویی توڑ ان کی نظر میں نہیں تھا . .آج بھی نام نہاد قاید سیاسی پارٹیوں کے اشتراک سے مسلمانوں کی ڈیل کر رہے ہیں ،سید صاحب اس معاملے میں مختلف تھے .اور اسی لئے وہ ملی قیادت کی رسم نبھانے والوں سے دور تھے . اگر ایسا کچھ وہ جانتے تھے تو انکا بیان کیوں نہیں آیا ؟ ان سے میرے اختلاف کی وجہ صرف یہی تھی ..انکو بولنا چاہیے تھا .اگر وہ کویی بیان جاری کرتے تو بہت سے چہرے بے نقاب ہوتے .شاید نہ بولنے کے پیچھے ایک وجہ یہ رہی ہو کہ وہ اس بات سے بھی واقف تھے ،کہ اگر مسلمانوں کا بھروسہ اپنے قایدین سے اٹھ گیا تو کبھی کویی قیادت مستقبل میں پھل پھول نہیں پاے گی . لیکن اس باوجود میرا خیال ہے کہ انھیں بولنا چاہیے تھا .وہ اسکالر تھے .علم نفسیات سے آگاہی تھی .اس لئے انکی خاموشی بھیانک تھی .،اس خاموشی میں کیی راز دفن تھے .انہوں نے کبھی قاید ہونے کا دعوا پیش نہیں کیا لیکن وہ ایک ایسی آواز تھے ،جس میں سطحی جذباتیت اور اشتعال انگیزی کو دخل نہیں تھا .یہ آواز اب خاموش ہے ..یہ آواز اپنے ساتھ بہت کچھ لے گی .ان کی زندگی میں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی تھا ،جو انھیں تسلیم نہیں کرتا تھا .یہ وہ لوگ تھے جو انکی مقبولیت اور علم کی دولت سے خائف رہتے تھے .آج کسی بھی قاید کے پاس مسلمانوں کو لے کر کویی ا سٹرٹیجی نہیں ہے . مسلم انڈیا کے شروعاتی دور میں سید صاحب نے مردم شماری پر آواز بلند کی .پہلی بار احساس ہوا کہ حکومت مسلم آبادی کے جو اعداد و شمار پیش کرتی ہے ،اس میں بہت سی کمیاں ہیں .وہ ایسے ہی نکتوں پر آواز اٹھاتے تھے .
آج ایک فاشسٹ حکومت ، مسلمانوں کو برباد کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے .اوقاف کی زمینوں پر قبضہ ہو رہا ہے .ملی مسائل میں دخل دیا جا رہا ہے .شر انگیز بیانانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے .مرنے کے بعد مسلمانوں کو جلاہے جانے کی صلاح دی جا رہی ہے .کیا ٢٥ سے تیس کروڑ مسلم آبادی کی آواز خاموش کی جا سکتی ہے ؟ یہ آواز اس لئے خاموش ہے کہ ہمارے پاس کویی قاید نہیں .ایک قاید آیا تھا .مسلم سیاست نے اسکی آواز بھی چھین لی .قیادت آج بھی مسلہ ہے ..مسلمانوں کی بڑی آبادی کو قیادت درکار ہے .یہاں اب بھی سیاست کا بازار گرم ہے .جیسے ہی کویی آواز بڑی ہونے لگتی ہے ،خرید فروخت کا سلسلہ شروع ہونے لگتا ہے ..آج صدمہ اس بات کا ہے کہ ہم نے ایک قاید کھو دیا .ایک تعلیم یافتہ ،سیکولر ذہن رکھنے والا قاید . صدمہ اس بات کا بھی ہے ، کہ سیاسی وجوہات نے سید صاحب کی آواز کو برسوں پہلے ہی خاموش کر دیا تھا .دانشور کی خاموشی ہی اس کی موت ہے …