سید شہاب الدین کی زندگی عزم کی تصویر تھی

مولانا ارشد فیضی
موت ایک ایسی سچائی ہے جسے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کر لینا پڑتا ہے مگر انسانوں کی بھیڑ میں بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا اچانک بیچ سے اٹھ کر چلا جانا صرف ایک مخصوص طبقہ کو ہی متاثر نہیں کر تا بلکہ اس کے چلے جانے کے بعد سماج کا ایک بڑا طبقہ سوگوار ہو جاتا ہے مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تردد نہیں کہ سید شہاب الدین ان ہی لوگوں میں سے ایک تھے جن کے اچانک انتقال سے سیاسی وصحافتی حلقے میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھر پائی بہت مشکل سے ہو پائے گی کیونکہ وہ ہندوستانی سیاست کی آبرو ۔صحافت کے بے تاج بادشاہ ۔ قومی قیادت کے بے لوث مسافر ۔انڈین فارن سروس کے سینئر افسر، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر، مسلم انڈیا کے ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے ایسے مخلص متحرک وفعال اور قد آور قائد تھے جن کی پوری زندگی عزم مصمم سے عبارت رہی اور انہوں نے ہمیشہ قومی مفادات کے لئے وہ کام کئے جنہیں قابل قدر کہا جا سکتا ہے یہ باتیں پیام۔انسانیت کے صدر مولانا محمد ارشد فیضی قاسمی نے سید شہاب الدین کے لئے منعقد ایک تعزیتی نشست میں کہی انہوں نے کہا کہ موصوف نے اپنی پوری زندگی جس عزم وحوصلہ اور خود اعتمادی کے ساتھ گزاری اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں وہ قوم کے لئے گھلنے والے ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے نہ تو کبھی حالات کے سامنے ہتھیار ڈالے اور نہ ہی اپنے عزم کی راہ کو مصلحت یا مصالحت کے عمل سے کمزور ہونے دیا مولانا فیضی نے کہا کہ وہ پوری زندگی بابری مسجد کی بازیابی اور ملک میں مسلمانوں کے وجود واستحکام کو یقینی بنانے کی جد وجہد کرتے رہے اور اس پورے معاملے میں ان کی صاف گوئی اور جد وجہد نمونے کی حیثیت رکھتی تھی انہوں نے کہا کہ سید شہاب الدین 1979۔ سے 1996 تک ممبر پارلیمینٹ بھی رہے اور سیاست کے پلیٹ فارم سے ان کی قابل ذکر وابستگی رہی لیکن اس پورے مرحلے میں کسی بھی طرح کی خود غرضی ومفاد پرستی کے بغیر ہمیشہ اپنے مضبوط مشوروں سے سیاست کے میدان میں اپنے وقار کی عمارت کا تحفظ کیا،وہ کام کرنا اور کام۔لینا دونوں جانتے تھے جو زندگی کی رفتار کے ساتھ ان کی امتیازی شناخت بن گئی ، انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف شرعی معاملے میں کھلا ذہن رکھتے تھے بلکہ اس حوالے سے وہ مسلمانوں کو زندگی کے اس رخ پر دیکھنا چاہتے تھے جہاں ان کی سلامتی کے امکانات کو تقویت حاصل رہے شاید یہی وجہ تھی کہ ان کو جب بھی موقع ملا انہوں نے کھل کر حکومت اور ملک کے ذمہ دار طبقہ کے سامنے اپنا موقف رکھا، مولانا فیضی نے کہا کہ صحافت ان کا مضبوط مشن تھا جسے انہوں نے ہمیشہ ملک وقوم کی حفاظت اور ہندوستان کے جمہوری قدروں کی بقاء کو یقینی بنائے رکھنے میں استعمال کیا ان کی سب سے بڑی اور قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی زندگی کے جس عمل کے ساتھ بھی میدان میں رہے انہوں نے نہ صرف ہر جگہ اپنی پہچان چھوڑی بلکہ انہوں نے کسی سے متاثر ہونے کی بجائے سماج کے ہر طبقہ کو اپنے اعمال وکردار اور قوت ارادی سے متاثر کرنے میں کامیابی حاصل کی وہ نہ تو حالات کے غلام بنے اور نہ ہی اپنے قلم وصلاحیت کو سیاست کا غلام بننے دیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں کسی بھی میدان میں اپنے لئے جگہ بنا لینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود سید شہاب الدین نے سیاست سے لے کر صحافت اور سماج کے ہر طبقے میں اپنی انفرادیت کے جو آثار چھوڑے وہ ہمیشہ ان کی عظمت کا احساس دلاتے رہیں گے ۔وہ بہت ہی خوددار اور سنجیدہ فکر رکھنے والے انسان تھے اور عام طور پر وہ وہاں سے سوچنا شروع کرتے تھے جہاں بہت سارے لوگوں کی سوچ جاکر رک جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے بہت سے قائدین کو ان کے نظریات سے اختلاف بھی رہا مگر ان سب کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ سید شہاب الدین کی زندگی ایک دئیے کی طرح تھی جس نے خود جل کر انسانی زندگی کو روشن کرنے کا فرض نبھایا، انہوں نے کہا کہ وہ ایسے متحرک و فعال قومی رہنما تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو ہر وقت رواں دواں رکھا شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی میں تھک ہار کر بیٹھ جانے والی کوئی بات نہیں تھی وہ اپنے عزم کے دھنی تھے اور پوری ہنر مندی کے ساتھ کامیابی کی منزل تک پہنچ جانے کا ہنر جانتے تھے،انہوں نے کہا کہ سید شہاب الدین کی رحلت کے ساتھ ہی سیاست وصحافت اور قومی قیادت کے ایک ایسے عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے جس پر فخر کیا جا سکتا تھا ۔