قدیم فقہی کتابوں کو نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں لیکن جدید مسائل پر مشتمل ایک کتاب شامل نصاب ہونی چاہیئے :مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب عالم اسلام کے معروف اسلامی اسکالر، نامور فقیہ، دور رس اور نکتہ سنج عالم دین ہیں، شگفتہ و شستہ قلم کے حامل اور عظیم مصنف ہیں، آپ کی سرپرستی اور نگرانی میں سینکڑوں ادارے چل رہے ہیں جن میں المعہد العالی اسلامی حیدر آباد اور دارالعلوم سبیل الفلاح جالے سر فہرست ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آپ سکریٹری ہیں، فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ سمیت کئی عالمی اداروں کی آپ کو رکنیت حاصل ہے، اس کے علاوہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی پوری ذمہ داری آپ کے سر ہے جہاں آپ جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز ہیں،1989 میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے قائم کیا تھا ، قاضی صاحب کی وفات کے بعد اسے آگے بڑھانے میں مسلسل رواں دواں ہیں عالم عرب اور مسلم دنیا کا معتبر اور باوقار فقہی ادارہ ماناجاتاہے، اب تک اس کے پچیس سمینار ہوچکے ہیں،دو سو سے زائدفیصلے ہوچکے ہیں، چھبیسواں سمینار مشہور مذہبی ،تاریخی شہر اجین میں4 تا6 مارچ منعقد ہوا ،سمینار کے موقع پر ہی اجین کے ہوٹل پریسڈینٹ میں ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے فیس بک لائیو پر مولانا سے خصوصی گفتگو کی اور بڑی تعداد میں وہاں دیکھاگیا، قارئین کے اصرار مسلسل کے بعد اسے اب تحریری شکل دی جارہی ہے(ادارہ)

سوال:
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے قیام کے اسباب و محرکات کیا تھے؟
آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں جس شریعت سے نوازا ہے وہ قیامت تک کیلئے ہے، کچھ مسائل صراحت کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں وہ قیامت تک اسی طرح رہیں گے، اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیل ممکن نہیں ہے، کچھ مسائل وہ ہیں جن کے لئے اصول مقرر کئے گئے ہیں، ہر زمانے میں پیدا ہونے والے مسائل کو ان اصولوں پر منطبق کیا جائے گا، سترہوں صدی میں جو صنعتی انقلاب اس کی رفتار بہت تیز تھی، اس کی وجہ سے مسائل کے پیدا ہونے کی رفتار بھی بڑھ گئی، دنیا میں معاشی نظام تبدیل ہوا، سیاسی نظام میں فرق آیا، زندگی کے معیارات میں عظیم فرق واقع ہوا اور پھر نئی ٹیکنالوجی کے بہت سے ایسے آلات و اسباب پیدا ہوئے جو پہلے نہیں تھے لیکن اس سے اب کام لیا جاتا ہے تو ان ساری چیزوں نے نئے مسائل کو جنم دے دیا، ان مسائل استخراج کے لئے فقہ میں قرآن و حدیث میں پختہ علم رکھنے والا ہو، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ان مسائل سے اچھی طرح واقف ہو، اس کی صورت سے واقف ہو تو ان مسائل کو اجتماعی طور پر حل کرنا زیادہ مناسب ہے، اسی مقصد کے لئے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے 1989 میں اسے قائم کیا تھا۔
سوال:
عالم عرب اور مسلم دنیا میں اس تنظیم کو کیا حیثیت حاصل ہے؟
عالم عرب، مسلم ممالک اور خود اپنے ملک میں اس کو باوقار اور قابل اعتماد فقہی ادارہ کی حیثیت حاصل ہے، مختلف عرب علماء نے موجودہ دور کے اجتماعی فقہی اداروں کے فیصلے کو جمع کیا ہے اس میں انہوں نے جنوبی ایشیا سے اسلامک فقہ اکیڈمی کو بھی شامل کیا ہے، کئی عرب اسکالرس نے اکیڈمی کے فیصلے پر پی ایچ ڈی کی ہے، پڑوسی ملک میں کئی عدالتی فیصلے فقہ اکیڈمی کے فیصلے کے مطابق کئے گئے ہیں۔
سوال:
اکیڈمی کے فیصلے کو اہل مدارس اور ارباب علم تک پہونچانے کی کیا کوشش ہوتی ہے اور اجتہاد شدہ مسائل سے ان سبھی کو کیسے واقف کرایا جاتا ہے۔

منظور شدہ تجاویز اور قرار داد تمام اہم اداروں کو پوسٹ اور میل کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں، اس کے علاوہ اخبارات میں یہ بھی چیزیں شائع ہوتی ہے، فیصلے کے مجموعے بھی شائع ہوتے ہیں، ہندوستان میں شاید ہی ایسا کوئی ممتاز عالم اور مفتی ہو جو اکیڈمی کے فیصلے سے واقفیت نہ رکھتا ہو۔
سوال:
مدارس میں جو نصاب تعلیم رائج ہے اس میں سے بہت سے مسائل متروک ہوگئے ہیں جن کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے، دوسری طرف اکیڈمی جدید مسائل کو مستنبط کررہی ہے تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ نئے سرے سے کتابیں مرتب کرکے شامل نصاب کی جائیں تاکہ جدید مسائل بھی شامل ہوجائیں۔

بہت متانت اور بڑے اعتماد کے ساتھ مولانا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اصل میں جو فقہی کتابیں ہیں اس میں بعض کتابیں تو بہت اہم ہیں اور انہیں ہٹایا نہیں جاسکتا ہے جیسے قدروی، ہدایہ وغیرہ ہیں، پھر جو مسائل متروک ہیں وہ کم اور محدود ہیں، دوسری بات یہ کہ فقہ اسلامی ایک دوسرے سے مربوط ہیں ایسے میں میرا نقط? نظر یہ ہے کہ اساتذہ کی تربیت ایسی کی جائے کہ وہ جد ید مسائل کی طر ف رہنمائی کردے۔
سوال:
آپ کے بقول قدیم کتابیں بہت اہم ہیں جسے ہٹانے کی گنجائش نہیں ہے تو کیا یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ جدید مسائل پر مشتمل کوئی ایسی کتاب تیار کی جائے جو نصاب میں شامل ہو۔

یہ ہوسکتا ہے کہ جو بنیادی کتابیں ہے اس کو باقی رکھتے ہوئے کوئی نئی کتاب تیار کی جائے، خاص طور پر اکیڈمی نے معاشیات پر خصوصی کام کیا ہے اور ایک کتاب بھی مرتب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، خاص طور پر اہل مدارس سے میں درخواست کروں گا کہ جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اس میں تبدیلی طلبہ کے لئے مفید نہیں ہے البتہ جدید مسائل پر مشتمل کچھ کتابیں شامل کی جانی چاہیئے ہیں اور مطالعہ میں اسے رکھنا چاہیئے۔
سوال:
اکیڈمی میں عرب اور مسلم ممالک کے علماء و اسکالرس آتے رہتے ہیں تاہم پاکستان کے نظر نہیں آتے ہیں۔

پاکستان کے بھی آئے ہیں مفتی رفیع عثمانی صاحب آچکے ہیں، مفتی تقی عثمانی صاحب آچکے ہیں، اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں اس لئے وہاں کے حضرات کا یہاں آنا دشوار ہے، پاکستان میں یہ ادارہ بہت مقبول ہے وہاں کے علماء اور فقہاء اس کا حوالہ پیش کرتے ہیں وہاں کے عدالتی فیصلے اسلامک فقہ اکیڈمی کی قرار داد کے مطابق دیئے گئے ہیں۔
سوال:
اسلامک فقہ اکیڈمی کا امارت شرعیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے کیا تعلق ہے اور ان کے درمیان بنیادی فرق کیا ہیں، بظاہر ان تینوں میں بہت سی چیزیں مشترک نظر آتی ہے اور سبھی کا مقصد مسلمانوں کی فلاح نظر آتا ہے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی انتظامی اعتبار سے ایک مستقل ادارہ ہے لیکن اس کا فکری رشتہ امارت شرعیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے جڑا ہوا ہے، آپ جانتے ہیں کہ اس کے بانی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی امارت شرعیہ کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی اس لئے اس میں امارت شرعیہ کی اس میں نمائندگی بھی زیادہ تر ہوتی ہے، امارت شرعیہ کا اصل مقصد قانون شریعت کا نفاذ ہے، اکیڈمی کا اصل مقصد قانون شریعت کی تحقیق ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اصل مقصد شریعت کا دفاع ہے اور اس کو بچانا ہے، اس میں جو علمی مدد ہوسکتی ہے ہم کرتے ہیں، ہمارے اکثر ٹرسٹی بورڈ کے ممبر ہیں۔
سوال:
آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری ہیں اور اس کے بانیوں میں آپ کو شمار کیا جاتاہے، ابھی کورٹ میں جو طلاق ثلاثہ کا مقدمہ چل رہاہے اس کی پوزیشن کیا ہے اور کیا لگتا ہے کہ بورڈ مقدمہ جیت پائے گی۔

دیکھئے یہ تو آپ کے علم میں ہوگا کہ کورٹ نے اس پر ایک بینچ بنادی ہے، بورڈ جو کوشش کرسکتاہے وہ کررہا ہے، ابھی وکلاء کی ایک میٹنگ ہوئی تھی، مجھے بھی شریک ہونا تھا لیکن سمینار کی وجہ نہیں ہوسکا، بورڈ حتی الامکان کوشش کررہا ہے اور امید ہے کہ بورڈ کے موقف کو کامیابی ملے گی، تین طلاق کے مسئلے پر بورڈ اور ہم سب لوگوں کا موقف یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا اختلافی مسئلہ رہا ہے اس لئے جو طبقہ جس رائے کا حامی ہے اس کے حق میں اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور ان کے نظریہ کو باقی رکھا جائے حلف نامہ میں نظریہ کی وضاحت بھی کی گئی ہے اور صراحت کے ساتھ لکھ بھی دیا گیا ہے کہ ہر کسی کو اس کے نظریہ کے مطابق حق دیا جائے۔
سوال:
بورڈ کے ذمہ داروں نے ان خواتین سے ملاقات کرنے اور ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی ہے جنہوں علاحدہ خواتین پرسنل لاء بورڈ بنا رکھا ہے، ذکیہ سومن اس کی بانی ممبر ہیں۔

دیکھئے جو غلطی نادانستہ کی جاتی ہے تو وہ ملاقات کرنے سے درست ہوجاتی ہے لیکن جو غلطی دانستہ طور پر کی جائے اس سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ ذکیہ سومن صاحبہ کے نام سے ہی واضح ہے کہ کی ان کی ذہنیت کیا ہے، انہوں نے ہندو میرج ایکٹ کے تحت شادی کی ہے، ان کے شوہر غیر مسلم ہیں انہیں اسلام سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ جہاں پانی کا چشمہ موجود ہو وہاں سے پانی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی جہاں خشک زمین ہو وہاں سے پانی کی امید رکھنا بے سود بات ہوگی۔
سوال:
بورڈ کی ہمیشہ کوشش رہے کہ مسلم خواتین کو عدلیہ میں جانے سے روکا جائے تو بورڈ کو ا س میں اب تک کہاں تک کامیابی ملی ہے۔

مولانا نے جیسے ہی یہ جواب دینا شروع کیا وہاں اکیڈمی کے سکریٹری برائے سمینار مولانا عبید اللہ اسعدی صاحب آگئے مولانا انہیں ہاتھ کے اشارے سے بیٹھتے ہوئے کہا اور پھر انہوں نے جواب دینا شروع کیا کہ بورڈ ابھی تمام دارالقضاء کا سروے کررہا ہے، آپ اسے اس طرح دیکھئے کہ اگر یہ دارالقضاء نہ ہوتے تو سوچئے یہ کہ کورٹ میں کتنے مقدمے جاتے، اس سلسلے میں مسلم وکلاء نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں کہ ان کے پاس جو طلاق وغیرہ کے مسائل آتے ہیں تو وہ انہیں شرعی عدالتوں میں جانے کا مشورہ دیں۔
سوال:
آپ کی زیرنگرانی ایک ادارہ حیدر آباد میں المعد العالی اسلامی کے نام چل رہاہے جہاں قضاء و افتاء کی تعلیم کے ساتھ انگریزی زبان و ادب کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ مرکزالمعارف کا سالانہ تقریری پروگرام رواں برس حیدر آباد میں ہوا تھا۔ یہ ادارہ اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہے؟
المعہد العالی ایک تعلیمی ادارہ ہے جہاں فضلاء کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے اچھے فوائد مرتب ہوئے ہیں، قضاء، افتاء اور دعوت کا بھی شعبہ ہے۔
سوال:
تین طلاق کے مسئلے میں اجتہاد ممکن ہے؟

اجتہاد اس مسئلے میں ہوتاہے جو محل اجتہاد ہو اور تین طلاق متفق علیہ مسئلہ ہے اس کی صحیح صورت یہی ہے کہ جس کا جو نظریہ ہے اس کو اسی پر عمل کرنے دیا جائے۔
آخری سوال
آپ کی خدمات کا سلسلہ بہار میں بھی جاری ہے اور آبائی وطن جالے میں قائم مدرسہ دارالعلوم سبیل الفلاح چل رہاہے، وہاں ابھی شرپسند عناصر نے حملہ کیا، مدرسہ کو نقصان پہونچایا، طلبہ کی پٹائی کی، اس پورے قضیے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔
وہاں سے قریب میں دلتوں کی آبادی ہے جنہیں اکسایا گیا اور ایک سازش کے تحت استعمال کیا گیا تاہم حکومت بہار کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے فوراً کاروائی کی، فورس آگئی، کئی تھانوں کی پولس آگئی اور مجرموں کے خلاف کاروئی کی جارہی ہے، جو مسلم نوجوان آئے ہم انہیں روکے رکھے اور عمل کے رد عمل کے طور پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی ورنہ فساد بھڑک سکتے تھے، اہل مدراس سے بھی ہم کہیں گے وہ یکجتہی کے قیام پر توجہ دیں اور برادران وطن کے درمیان جو غلط فہمیاں پائی جاتی یں اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں، باہمی تعلقات استوار قائم کرنے پر توجہ دیں۔
سوال:
اکیڈمی کا یہ 26 واں سمینار مذہبی شہر اجین میں ہورہا ہے، اس حوالے آپ کے کیا جذبات و احساسات ہیں شہر کے تئیں، یہاں کے مسلمانوں کے تئیں اور کیسا رہا یہ سمینار؟

جتنے بھی مہمان آئے وہ بیحد متاثر ہیں اور ان کے تئیں ہمارے دل میں جذبہ شکر و سپاس ہے، یہ دیکھ بھی خوشی ہوئی کہ اجین شہر ہندؤں کے مذہبی مقام ہونے کی وجہ سے ایک خاص مذہبی شناخت رکھتا ہے یہاں مسلمانوں کی بھی قابل ذکر آبادی ہے، جگہ جگہ مسجد ہے مسلمانوں کے مدرسے ہیں اور سب سے اہم یہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بہت ہی خوشگوار تعلقات ہیں۔

گفتگو کا یہ سلسلہ کچھ دیر اور برقراررکھناتھا،مولاناسے ناظرین کے سوالات بھی کرنے تھے جنہوں نے فیس بک پر لائیو دیکھ کر کیاتھا لیکن اسی دوران مولانا عبید اللہ اسعدی صاحب سکریٹری برائے سمینار آگئے ،دوسری طرف تجاویز کی نشست کا سلسلہ جاری تھا جس کی نگرانی مولانا کو کرنی تھی اس لئے قلت وقت کی بنا پر انٹرویویہیں پر ر ک گیا اور فیس بک ناظرین کے سوالات بھی نہیں کئے جاسکے جس کے لئے ادارہ معذرت خواہ ہے ،انہیں مذکورہ گفتگو کے ساتھ جانبین سے کلمات تشکر کے ادئیگی پر انٹرویوکایہ سلسلہ رک گیا ۔
جلد ایک نئی شخصیت کے ساتھ حاضر ہوں گے اور ان کے افکار وخیالات ملت ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے ۔