مغرب زدہ مسلمان فکر و تہذیب کے دو راہے پر ! (۲)

شمع فروزاں
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی

ہندوستان اس وقت تیزی سے مغرب کے راستہ پر گامزن ہے ، یہاں بھی برادرانِ وطن نے اپنے مذہب کو پوجا پاٹ تک محدود کردیا ہے ، افراد کی مبالغہ آمیز آزادی سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹ پر ہمارا ملک دستخط کرچکا ہے اور خاندانی نظام بکھراؤ کی طرف بڑھ رہا ہے ، نوجوانوں میں یہ مزاج بن رہا ہے کہ معاملات میں ہمارے بزرگوں کو دخل دینے کا حق نہیں ، عورتوں میں یہ احساس بڑھ رہاہے کہ انھیں گھریلو زندگی تک محدود نہیں رکھا جاسکتا ، وہ شمع خانہ کی بجائے شمع محفل بننے کے لئے بے چین ہیں ، یہ صورت حال نہ صرف ہندوستان کی ہے ؛ بلکہ اکثر غریب ترقی پذیر اور مسلم ملکوں کی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے ۔

اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی خدا کے تصور اور مذہب کی تعلیمات سے وابستہ ہونی چاہئے ؛ اسی لئے اسلام نے جیسے عبادت کے احکام دیئے ہیں ، اسی طرح سماجی زندگی ، معاشی جدوجہد اور اجتماعی نظام کے لئے بھی اُصول و ضوابط مقرر کئے ہیں ؛ اس لئے اسلام ایک ایسی تہذیب کا تصور پیش کرتا ہے ، جو خدا کے احکام اور مذہب کی تعلیمات کے تابع ہو ، وہ اگرچہ ہر انسان کی شخصی آزادی کا قائل ہے ، اس کے نزدیک ہر شخص پیدائشی طورپر آزاد ہے ؛ اسی لئے تمام مالی اور غیر مالی معاملات میں فریقین کی رضامندی ضروری ہے ، جس کو فقہ کی اصطلاح میں ایجاب و قبول کہا جاتا ہے ، خود مذہب کو قبول کرنے کے معاملہ میں بھی جبر و اکراہ کی گنجائش نہیں ہے : ’’ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ‘‘ ( البقرۃ : ۲۵۶) لیکن اس کی آزادی اخلاقی حدود کی پابند ہے ، وہ شریعت کے مقرر کئے ہوئے دائرہ میں رہتے ہوئے ہی آزاد ہے اور یہی آزادی اس کے لئے مفید ہے ، بے قید آزادی انسان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہے ، آپ کو سڑک پر چلنے کی آزادی ہے ؛ لیکن اگر آپ آزادی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مخالف سمت میں چلنا شروع کردیں ، یا ریڈ سگنل کی بھی پرواہ نہ کریں تو اپنے آپ کو بھی خطرہ میں ڈالیں گے اور سامنے سے آنے والی سواری کو بھی ؛ اس لئے وہی آزادی انسان کے لئے مفید ہے ، جو اخلاقی اور شرعی حدود کی پابند ہو ۔
اخلاقی حدود کو قائم رکھنے میں ایک اہم کردار خاندان کا ہے ، خاندان فرد کی جان و مال اور عزت و آبرو کی بھی حفاظت کرتا ہے ، ہر ضرورت میں اس کے کام بھی آتا ہے اور اس کی نگرانی انسان کو بے قید بھی نہیں ہونے دیتی ، وہ جب کوئی قدم اُٹھاتا ہے تو اسے ماں باپ کا خوف ہوتا ہے ، خاندان کے بزرگوں کا ڈر ہوتا ہے ، اپنے چھوٹوں سے حیا دامن گیر ہوتی ہے ، اگر کوئی غلطی کرتا بھی ہے تو چھپ چھپاکر اور لوگوں کی نظروں سے بچ بچاکر ، یہ چیز اسے بے راہ روی سے بچاتی اور گناہ کے مواقع سے دُور رکھتی ہے ، آپسی ظلم و زیادتی سے بھی دُور رکھتی ہے ، والدین کے حقوق کا پاس و لحاظ پیدا کرتی ہے ، میاں بیوی میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور رشتہ نکاح میں استحکام کا سبب بنتی ہے ۔
مغربی تہذیب اپنی پوری قوت ، معاشی وسائل ، فکری ملمع سازی کی صلاحیت اور پروپیگنڈہ کے ہتھیار کے ساتھ مشرق پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہے ، اس صورت حال کے مقابلہ کے لئے تین باتیں ضروری ہیں :
پہلی بات ہے نئی نسل کی فکر سازی ، جب تک سوچ تبدیل نہ ہو اسلامی تعلیمات کی حقانیت اس پر واضح نہ ہو ، اس کو یہ بات سمجھا نہ دی جائے کہ بے قید آزادی انسان کے لئے زہر ہے نہ کہ امرت ، وہ محسوس نہ کرلیں کہ اللہ اور اس کے احکام پر عمل کرنے میں ہی ان کی دنیا سے لے کر آخرت تک کی کامیابی ہے ، تب تک ان کی زندگی میں تبدیلی نہیں آسکتی ، دل و دماغ کی تبدیلی کے بغیر صرف زبان سے کسی بات کا قائل ہوجانا ایسا ہی ہے جیسے پیتل کے برتن پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے اور اسے سونا سمجھ لیا جائے کہ معمولی خراش اس کی حقیقت کو کھول کر رکھ دے گی ، اسی طرح بے شعوری کے ساتھ جو بات تسلیم کی جاتی ہے ، اس میں ثابت قدمی نہیں ہوتی ، فریق مخالف کا ایک ہی حملہ اس کے یقین کو پاش پاش کردیتا ہے ؛ اس لئے ہمیں نئی نسل کی فکری تربیت پر توجہ دینی چاہئے اور قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ عقل و حکمت کی مدد لے کر انھیں قائل کرنا چاہئے ؛ تاکہ وہ مغرب کی فکری یلغار کے مقابلہ ٹھہر سکیں ۔
اسی لئے قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اپنی نسلوں کی ایمانی تربیت کی بہت فکر تھی ، حضرت یعقوب علیہ السلام پر جب موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے صاحبزادوں سے نماز ، روزہ کے بارے میں تو سوال نہیں کیا ؛ لیکن ایمان کے بارے میں سوال کیا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے ؟ :’’ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ‘‘ ( البقرۃ : ۱۳۳) اور رسول اللہ ا نے یہاں تک تاکید فرمائی کہ کوشش کرو کہ تمہارے بچوں کی زبان سے پہلا کلمہ جو نکلے ، وہ لا اِلٰہ اِلا اللہ ہو : ’’ افتحوا علی صبیانکم أول کلمۃ بلا إلٰہ الا ﷲ‘‘ ( شعب الایمان ، حدیث نمبر : ۸۲۸۲) صورت حال یہ ہے کہ جو ماں باپ دین دار ہیں اور کسی حد تک بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں ، وہ بھی بچوں کو صرف وضوء ، نماز اورروزہ کے نواقض ( یعنی وہ باتیں جو ان کو توڑ دینے والی ہیں ) سکھاتے ہیں ؛ لیکن نواقض ایمان کی تعلیم نہیں دیتے ، یعنی ان باتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ، جو انسان کو ایمان سے محروم کردینے والی ہیں اور جس کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ ایمان سے باہر ہوجاتا ہے ، اس پر پوری توجہ کی ضرورت ہے ، عمل کی کوتاہی سے انسان فاسق اور گنہگار ہوتا ہے ؛ لیکن فکر و ایمان میں خلل سے انسان کفر و ارتداد تک پہنچ جاتا ہے ، کبھی یہ کفر وارتداد واضح صورت میں آپ کے سامنے ہوتا ہے اور کبھی ظاہری دین داری کے پردے میں چھپا ہوتا ہے ، مگر ہوتی ہے یہ بھی کفر ہی کی ایک صورت ، اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے ۔
فکری تربیت کے بعد دوسری ضرورت عملی و اخلاقی تربیت کی ہے ، یہ بھی بہت ضروری ہے ، آج ہمارے سماج میں تصور پیدا ہوگیا ہے کہ بچوں کو اچھے کپڑے پہنانا ، عمدہ کھانا کھلانا ، ان کی ہر خواہش کو پورا کرنا اور اچھے مہنگے اسکول میں تعلیم دلادینا کافی ہے ، کم سے کم کسی مسلمان کے لئے یہ انداز فکر ہرگز روا نہیں ، اگر بچوں کی اخلاقی تربیت نہیں کی گئی تو یہ ساری مادی سہولتیں ضائع ہوجاتی ہیں ، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا اپنی اولاد کا اکرام کرو اور انھیں بہتر ادب سکھاؤ : ’’ أکرموا أولادکم وأحسنوا أدبھم‘‘ (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۳۶۷۱) ایک موقع پر آپ ا نے ارشاد فرمایا : کسی باپ نے اپنی اولاد کو بہتر تربیت سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا : ’’ ما نحل والد ولداً من نحل أفضل من أدب حسن‘‘ (سنن ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۹۵۲) ایک اور روایت میں ہے کہ باپ نے اپنی اولاد کے لئے بہتر تربیت سے اچھا کوئی ترکہ نہیں چھوڑا : ’’ماورث والد ولداً خیراً من ادب حسن‘‘ ۔ (المعجم الاوسط ، حدیث نمبر : ۳۶۵۸)
تربیت کوئی ایسا سودا نہیں ہے ، جسے بازار سے خرید کرلیا جائے ، جیسے بچوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں خرید کی جاتی ہیں ؛ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں باپ خود اپنے بچوں پر وقت لگائیں ، وہ روزانہ کم سے کم گھنٹہ دو گھنٹہ اپنے بچوں کے ساتھ دینی باتوں میں گزاریں ، انھیں اخلاقی کہانیاں سکھائے ، انھیں رسول اللہ ا کی سیرت کے منتخب واقعات بتائے ، رسول اللہ ا نے اپنے مختلف ارشادات میں اس بات پر توجہ دلائی ہے کہ والدین کو کن پہلوؤں سے اپنی اولاد کی تربیت کرنی چاہئے ؟ آپ ا نے فرمایا جب تمہارے بچے ۷ سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا حکم دو اور نہ پڑھے تو سرزنش کرو اور ان کے بستر الگ الگ کردو ، ( سنن ابی داؤد ، کتاب الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۵۹۴ ) کن چیزوں پر خصوصی توجہ دی جائے ، ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ ا نے فرمایا کہ تین باتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دو ، ایک : نبی کی محبت ، دوسرے : اہل بیت کی محبت ، تیسرے : قرآن مجید کی تلاوت : ’’ ادبوا أولادکم علی خصال ثلاث : علی حب نبیکم ، وحب أہل بیتہ و علی قراء ۃ القرآن‘‘ ۔ ( الدیلمی : ۱۱؍۲۴)
اسی طرح ماں باپ کو بچوں کے ساتھ یا بچوں کے سامنے کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے ، جو بچوں کے ذہن پر منفی اثر ڈالنے والی ہو ، آپ ا نے ارشاد فرمایا : جو بچے سے کہے کہ یہاں آؤ ، میں یہ دوں گا ، پھر وہ نہ دے تو یہ جھوٹ ہے : ’’ من قال للصبی : تعال ھاک ، ثم لم یعطہ فھی کذبہ‘‘ ( مسند احمد ، حدیث نمبر : ۹۸۳۶) بعض دفعہ بچہ کوئی اچھا کام کرنا چاہتا ہے ؛ لیکن والدین اس کے خلاف ہوتے ہیں ، جیسے اولاد کی خواہش ہے کہ ڈاڑھی رکھے ؛ لیکن ماں باپ اسے پسند نہیں کرتے ، بچے چاہتے ہیں کہ ناجائز ملازمت اور رشوت سے بچیں ، مگر والدین اسے بیوقوفی سمجھتے ہیں ، بچے چاہتے ہیں کہ سنت کے مطابق نکاح کی تقریب انجام دی جائے ؛ لیکن والدین تکلفات ، فضول خرچی اور مطالبۂ جہیز وغیرہ پر مصر ہوتے ہیں ، بچے چاہتے ہیں کہ ان کا نکاح کردیا جائے ؛ کیوں کہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ؛ لیکن والدین کی ضد ہوتی ہے کہ جب تک مکان نہ بنالیں اور فلاں اور فلاں کام نہ کرلیں ، اس وقت تک شادی نہ کی جائے ، یہ سب باتیں غلط ہیں اور اولاد کو گناہ کی طرف لے جانے والی ہیں ، والدین کو چاہئے کہ اولاد کی تربیت تو کرے ہی اور اگر ان کی تربیت یا کسی اور محرک کی وجہ سے بچوں میں دینی رجحان پیدا ہوجائے تو اس پر عمل کرنے میں والدین ان کا تعاون بھی کریں ، ان کا رویہ تعاون کا ہو نہ کہ مخالفت کا ، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اس باپ پر رحم کرے گا ، جو نیکی کے معاملہ میں اولاد کی مدد کرے : ’’ رحم اللہ والداً أعان ولدہ علی برہ ‘‘ (مصنف لابن ابی شیبہ ، حدیث نمبر : ۲۵۴۱۵) ایک اور موقع پر آپ انے فرمایا : تم لوگ نیکی پر اپنی اولاد کی مدد کیا کرو : ’’ أعینوا أولادکم علی البر‘‘ ۔ (المعجم الاوسط ، عن ابی ہریرہ ، حدیث نمبر : ۴۰۷۶)
تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ اسلامی اسکولس قائم کریں ، بچے اپنے بیداری اور نشاط کے اوقات کا زیادہ تر حصہ اسکول میں گزارتے ہیں ، گھر آنے کے بعد بھی ان کا اچھا خاصا وقت اسکولی سرگرمیوں ہی کی نذر ہوجاتا ہے ، انھیں جو دوست میسر آتے ہیں ، وہ بھی ان کے اسکول ہی کے دوسرے طلباء ہوتے ہیں ؛ اس لئے موجودہ دور میں بچوں پر نصابی کتابوں کا ، اساتذہ کا ، اسکول کے ساتھیوں کا اوراسکول میں ہونے والی غیر درسی مصروفیات کا سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے ۔
دوسری طرف ہمارے موجودہ نظام تعلیم میں نہ صرف یہ کہ اخلاقی تعلیمات کا کوئی حصہ نہیں ہے ؛ بلکہ ایسا مواد شامل نصاب کیا جارہا ہے ، جو بچوں کو اخلاقی بگاڑ کی طرف لے جاتا ہے ، مخلوط تعلیم عام ہے ، اساتذہ کو اس بات کی ممانعت ہے کہ وہ بچوں کو تنبیہ کریں اور اندیشہ ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارا نظام تعلیم مکمل طورپر مغربی نظام تعلیم کے سانچے میں ڈھل جائے اور جو دینی و اخلاقی صورت حال وہاں ہے ، وہی صورت حال ہمارے ملک میں بھی پیدا ہوجائے ؛ اس لئے اس بات کی بے حد ضرورت ہے کہ مسلمان ایسے اسکول قائم کریں ، جس میں معیاری تعلیم کے ساتھ بنیادی دینی تعلیم کا اہتمام کیا جائے ، دینی و اخلاقی تربیت دی جائے اور طلبہ و طالبات کے لئے صاف ستھرا ماحول فراہم کیا جائے ، ہمیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ ہم ایک سکولر حکومت یا برادرانِ وطن سے اس بات کی توقع رکھیں کہ وہ ہمارے بچوں کو ہمارے مذہب کی تعلیم دیں گے اور جو ہماری ذمہ داری ہے اس کو وہ ادا کریں ۔
غرض کہ آئندہ نسلوں کے ایمان اور اخلاق و اعمال کی حفاظت کے لئے بچوں کو فکری و شعوری طورپر مسلمان بنانا ، ان کی اخلاقی تربیت کرنا اوران کے لئے بنیادی اسلامی تعلیم اور دینی تربیت کے ساتھ اسلامی اسکولوں کو قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے ، ورنہ ہم عند اللہ جوابدہ ہوں گے ؛ چنانچہ آپ ا نے فرمایا : انسان اپنے گھر کے لوگوں سے متعلق نگراں و ذمہ دار ہے اور جو لوگ اس کی نگرانی میں ہیں ، وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے ، اسی طرح عورت اپنے شوہر کے گھر کے ساتھ ساتھ اولاد پر بھی ذمہ دار اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے : ’’ والرجل راع علی أھل بیتہ ، وھو مسؤل عن رعیتہ والمرأۃ راعیۃ علی أھل بیت زوجھا ، وولدہ وھی مسؤلۃ عنھم‘‘ ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الاحکام ، حدیث نمبر : ۷۱۳۸)(ملت ٹائمز)