مالی وصیت کیسے اور کن کے لئے کریں؟

مفتی محمد فیاض عالم قاسمی

اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے انسان کی جان ومال کا حقیقی مالک اللہ رب العزت کو قرار دیاہے،اور زمین پر اللہ کی نیابت اور خلافت حاصل ہونے کی وجہ سے اسے اپنے مال وجان پرعارضی ملکیت عطاکی ہے، اور اسی بناء پر اپنے مال پر کسی قدر تصرف کر نے کا اختیاربھی دیاہے، تاکہ وہ اپنے لئے کھانے پینے اور بودو باش کا انتظام کرے نیز اپنے قریبی رشتہ داروں کے نان ونفقہ کا بھی بند وبست کرسکے۔

انسان کی روح اس کے جسم سے نکلتے ہی اس کی یہ ملکیت اس سے سلب ہوجاتی ہے اور مال مکمل طور پر اسی مالکِ حقیقی کے قبضہ میں رہ جاتاہے،لیکن چوں کہ موت سے قبل اس نے اس مال کی حفاطت کی تھی، اس لیے اس کے کفن ودفن اور قرض وغیر ہ میں اس مال متروکہ کو استعمال کر نے کی اجازت دی گئی ہے۔اس کے بعد بھی اگرمال بچ جائے تو جن لوگوں کا اس میت کے ساتھ قریبی رشتہ تھا اور جن کے نان ونفقہ کا انتظام وہ اسی مال سے کیا کر تاتھاتو خداوند قدوس نے اس مال متروکہ کوان ہی لوگوں کے درمیا ن متعینہ حصوں میں تقسیم فرمادیااوراس مال کی حفاظت ان پر لازم کر دیا۔ اس سے استفادہ کر نے نیز اس کے قریبی رشتہ داروں کے نان ونفقہ کابند وبست کر نے کو ضروی قرار دیا۔

جب انسان بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتاہے تواسے قدم قدم پر دوسروں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر کوئی اس کی اچھی طرح سے خدمت کرتا ہےاورقدم قدم پر ساتھ دیتاہے ، وہ اس احسان کے بدلے اپنی وفات سے پہلے اسے کچھ مال یاجائداد میں سے کچھ حصہ دئے جانے کی وصیت کرتاہے۔اسی طرح بعض دفعہ انسان اپنی جائداد کاکچھ حصہ کسی مدرسہ یامسجد یاکسی رفاہی ادارہ کو وصیت کرناچاہتاہے،مگر ناواقفیت کی وجہ سے وصیت باطل ہوجاتی ہے۔ہم نے علماء ہند کے اردو فتاویٰ کے باب الوصیۃ کا جائزہ لیا توہمیں معلوم ہوا کہ وصیت کے اکثر سوالوں میںوصیت باطل ہوئی ہے،اس طرح وصیت کرنے والوں کی خواہشات اپنے محسنین کے حوالہ سے پوری نہیں ہوپاتی ہیں۔اسی طرح اگر اس کے کسی بیٹے یابیٹی نےدیگر وارثین کے مقابلہ میںاپنے والدبزرگوارکی زیادہ خدمت کی تو اس کے لیےبھی ہبہ کے بجائے وصیت کئے جانے کی رسم موجود ہے۔

وصیت کیاہے؟متروکہ مال سے میت کی تجہیز وتکفین اور قرض کی ادائیگی کے بعد اور اس کے وارثین میں مال تقسیم ہونے سے قبل وصیت کا درجہ ہے۔وصیت یہ ہے کہ مر نے والا اپنی موت کے بعد اپنے مال کا تعلق کسی غیروارث سے کر دے، مثلا یوں کہے کہ میرے مر نے کے بعد میرااتنا مال فلاں کو دے دیا جائے، یافلاں کام میں تصرف کیا جائے ۔الوصیۃ اسم لما اوجبہ الموصی فی مالہ بعد موتہ۔ (بدائع الصنائع: ۶/۴۲۷(

وصیت کی شرائط:چوں کہ تجہیز وتکفین اور قرض سے میت کا حق متعلق ہے اور وارثین کے درمیان تقسیم کر نے میں خودمال کا حق ِحفاظت متعلق ہے، اس لئے اس میں کوئی خاص شرط نہیں لگائی گئی، جب کہ وصیت جو خالص اجنبی اور غیر کے لئے ہوتی ہے ،اس میں دو شرطوں کو ملحوظ رکھا گیا ۔

پہلی شرط:وصیت کسی وارث کے لئے نہ ہو،یعنی بیٹابیٹی،ماں باپ،اوربیٹےکی موجودگی میںبھائی بہن کےلیےوصیت جائزنہیں ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کا حق متعین کر دیا ہے، لہذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے۔ (ترمذی:۲/۳۲)

دوسری شرط :وصیت ثلث مال یعنی ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو۔چنانچہ حضرت سعد ؓ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں بیمارہوکر قریب المرگ ہوگیا تو آں حضورﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارامال ہے اور میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں دوسروں کے لیے پورے مال کی وصیت کردوں تو آپ نے فرمایا:نہیں!میں نے کہا تو کیا آدھے کی کردوں؟آپ نے فرمایا: نہیں! میں نے کہا ایک تہائی کی کردوں؟ تو آپ نے فرمایاکہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔پھر آپ نے فرمایاکہ اپنی اولاد کو مالدار بناکر چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ انھیں مفلس بناکرچھوڑا جائے اور وہ دردر ٹھوکریں کھاتاپھرے۔(مسلم ۲/۴۰، ترمذی ۲/۳۴)

پس اگر کوئی ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرے یا اپنے وارث ہی کے لئے وصیت کرے مثلاًاس کے مر نے کے بعد فلاں کو ایک تہائی سے زیادہ مال دیا جائے یا اس کے مرنے کے بعداس کے فلاںوارث کواتنامال( اس کے شرعی حصہ کے علاوہ) دیا جائے، تو ایسی وصیت معتبر نہیں ،البتہ اگر دیگر ورثاء مورث کی وفات کے بعد راضی ہوجائیں توپھراس کااعتبارہوگا، مورث کی وفات سے پہلے ان کی رضامندی کاکوئی اعتبار نہیں۔نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:لاوصیۃ لوارث الا ان یجیز ھا الورثۃ ۔(سنن سعید بن منصور:۴۲۶)حضرت ابن مسعودؓ ،شریح ؒ، طاوسؒ ، سفیان ثوریؒ، امام ابوحنیفہ ؒ، امام شافعی ؒاور دیگر فقہاء کایہی مسلک ہے۔(اوجز المسالک ۱۴/۳۴۸)(الدرالمختارمع ردالمحتار ۱۰/۳۴۰)

وصیت کرنے کاحکم؟ غیر وارث کے لئے وصیت کے سلسلے میں یہ تفصیل ملحوظ ہے کہ اگرمورث کے وارثین مالدار ہیں یا مال بہت زیادہ ہے توان کے لیے وصیت کر نا مستحب ہوگا، چنانچہ مفتی شفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں: باجماع امت یہ ظاہر ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے ان کے لئے میت پر وصیت کر نا فرض اور لازم نہیں ہے البتہ بشرط ضرورت صرف مستحب رہ جاتی ہےاور اگر وارثین غریب ہیں یا مال کم ہے تو وصیت کرنا بہتر نہیں ہے۔ (معارف القرآن:۱/۴۳۹(

فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ اگر کسی کے چھوٹے بچے ہوں، یا بڑے ہوں لیکن مال کم ہو تو امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام ابویوسف ؒ کے نزدیک وصیت نہ کرنا بہتر ہے اوراگر اولاد بڑے ہوں اور مال بھی زیادہ ہو تو پہلے واجبات کی وصیت کرے پھر رشتہ داروں کے لیے، اس کے بعد پڑوسیوں کے لئے کرے۔ (فتاویٰ قاضیخان علی الہندیۃ ۳/۴۹۳(

حضرت عبداللہ ابن عمر ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ کسی بھی مسلمان کے پاس کوئی مال ہوجس کی اسے وصیت کرنی ہے، تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ دوراتیں گزرجائیں اوراس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔(صحیح بخاری:۲۷۳۸(

اس حدیث میں جہاں ایک طرف وصیت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہیں دوسری طرف اس بات کابھی حکم دیاگیاہے کہ وصیت نامہ بنوالیاجائے، تاکہ وارثین اوروصی کے درمیان کسی طرح کااختلاف نہ ہو۔واضح رہے کہ قانونی طورپر وصیت کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس لیے کسی بھی طرح کی جائزوصیت ہواس کو قلمبندکرلیناچاہئے،اس کے لیے کسی شرعی ادارہ مثلادارالقضاءسےوثیقہ اوروصیت نامہ بنوالیناچاہئےتاکہ بعد وفات کسی طرح کی کوئی شرعی قباحت اور اختلاف نہ ہو۔