شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
یوپی کے حالیہ الیکشن نے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ملک کے تمام محب وطن ، انصاف پسند اور سیکولر مزاج شہریوں کو مایوس کردیا ہے اور ان کے لئے بڑے اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے، اس میں فرقہ پرست طاقتوں کو خود ان کی اُمید سے بھی زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے ، اس میں ایک طرف ان کی کوششوں کا دخل ہے اور دوسری طرف سیکولر پارٹیوں کی غفلت شعاری اور مسلمانوں کی بے شعوری کا، فرقہ پرست طاقتیں عرصے سے اپنی کوششوں میں مشغول تھیں، انھوں نے گاؤں گاؤں اور گلی گلی اپنے لوگوں کو پھیلادیا تھا، جو دروازہ دروازہ پہنچ کر نفرت انگیز پرچار میں مشغول تھے ، نفرت انگیز باتیں آسانی سے لوگوں کے جذبات کو متأثر کرتی ہیں اور بالخصوص اگر غریبوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ فلاں گروہ تمہارا حق کھاتا جارہا ہے تو اس احساس کی وجہ سے حقیقی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور لوگ فرضی مسائل میں اُلجھ جاتے ہیں ، کوشش بہر حال رنگ لاتی ہے ، چاہے وہ درست مقصد کے لئے ہو یا نادرست مقصد کے لئے ؛ اس لئے یہ کوشش رنگ لائی اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ بی جے پی دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوچکی ہے۔
سیکولر پارٹیاں ایک تو آخر دم تک آپس میں لڑتی رہیں، پارٹی کے اندر بھی انتشار برپا رہا، دوسرے انھوں نے صرف جلسوں اور ریلیوں کو کافی سمجھا، گھر گھر پہنچ کر ذہن سازی کی کوشش نہیں ہوئی اور نہ ان کی طرف سے سوشل میڈیا کا کما حقہ استعمال ہوا، وہ فرقہ پرست پروپیگنڈے کا جواب بھی نہ دے سکے، اور عوام کو یہ نہیں بتاسکے کہ یہ ملک گنگا جمنی تہذیب کا ملک ہے ، صدیوں سے یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زندگی بسر کرتے آئے ہیں ، اس ملک کو آزاد کرانے میں، اس کی ترقی میں اور اس کے تحفظ میں سبھوں کی کوششیں شامل ہیں؛ بلکہ اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیوں نے نفرت انگیز پروپیگنڈوں کا جواب دینے کے بجائے ذات پات کا اور نام نہاد اقلیت دوستی کا سہارا لینے کی کوشش کی۔
مسلمانوں کی بے شعوری کی صورت حال یہ ہے کہ ان کے ووٹ خزاں رسیدہ درخت کے پتوں کی طرح بکھر گئے، پانی کے معمولی قطرات جب موج بن کر متلاطم ہوتے ہیں، تو وہ چٹانوں کو بھی اپنے راستوں سے ہٹادیتے ہیں؛ لیکن اگر قطروں میں تقسیم ہوجائیں تو ہوا کا معمولی جھونکا اسے فضا میں تحلیل کردیتا ہے، اب یہ بات مسلمان سیاسی قائدین کے سوچنے کی ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور آئندہ اس سے بچنے کی کیا صورت ہوگی؟ اور علماء اور مذہبی قائدین کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ بکھرے ہوئے مسلمانوں کو جمع کرنے میں کیوں ناکام رہے اور کس حد تک اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی؟
اجتماعیت کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ، ایک : ایثار ، دوسرے : اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا ، ایک ہی حلقہ سے جب کئی کئی مسلم اُمیدوار کھڑے ہوں ، یا مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی متعدد جماعتیں اپنے اُمیدواروں کو کھڑا کردیں تو ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ مسلم ووٹوں کی تقسیم اوراس تقسیم کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کی کامیابی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا ، ایسے مواقع پر اگر بعض حضرات ایثار سے کام لیں اور اجتماعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مقابلہ سے ہٹ جائیں ، یا مسلم تنظیمیں آپس میں حلقوں کی تقسیم کرلیں تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی منزل کو پاسکیں گی ، ورنہ یہ بے ایثاری اور اجتماعی مفاد کے مقابلہ انفرادی مصالح کو ترجیح دینے کا رجحان سبھوں کو ناکامی و محرومی سے دوچار کرے گا اور بار بار انھیں اِس تجربے سے گزرنا پڑے گا ، اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمان اسی صورت حال سے گزررہا ہے ، اُمت میں اتحاد انضمام سے قائم نہیں ہوسکتا ہے ، تقسیم سے قائم ہوسکتا ہے ، اگر ہم چاہیں کہ سب لوگ ہمارے ساتھ آکر مل جائیں تو یہ بات دوسروں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی ؛ لیکن اگر حلقے تقسیم کرلئے جائیں تو ہوسکتا ہے کہ اس سے سبھوں کو کامیابی کا کوئی حصہ مل جائے ۔
اتر پردیش کی اس شکست میں کئی سبق آموز پہلو بھی ہیں ، پہلی بات یہ ہے کہ اپنے ہر پروگرام کو لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کردینا اورنوشتۂ دیوار بنادینا عقل مندی نہیں ہے ، اس سے آپ کے مخالفین جاگ جاتے ہیں ، آپ کے عزائم فلک شگاف نعروں کی شکل اختیار کرکے فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں ؛ لیکن آپ کے دشمن ردعمل کے طورپر ایک منصوبہ بناتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں ؛ اس لئے الیکشن میں مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی اخبارات کے ذریعہ کرنے کے بجائے سینہ بہ سینہ لوگوں تک پہنچاکر کرنا بہتر ہے ، یہ طرز عمل مخالفین کو جگانے کا سبب نہیں ہوتا ہے ، آج کل میسیج اور واٹس ایپ کے ذریعہ یہ بات آسان ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کا ایک تھنک ٹینک ہو جو ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل گھر گھر اپنا پیغام پہنچائے کہ انھیں اپنے حلقہ میں کس اُمید وار کو ووٹ دینا ہے ؟
رسول اللہ ا کا معمول تھا کہ جب آپ کسی مہم پر تشریف لے جاتے تو ساری تیاری ہوتی ؛ لیکن قریب ترین رفقا کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ آپ کا کہاں کا ارادہ ہے ؟ صرف غزوۂ تبوک کے موقع سے آپ انے صحابہ کو پہلے سے اپنے ارادہ سے باخبر کردیا تھا ؛ کیوں کہ غالباً مدینہ میں ایسے لوگ نہیں تھے ، جن کا رومیوں سے ربط ہو ، اگر آپ سے منزل دریافت بھی کی جاتی تو مبہم طریقہ پر فرماتے کہ فلاں علاقہ کی طرف جانے کا ارادہ ہے ، متعین طورپر اپنی منزل کا ذکر نہیں فرماتے ، یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ نے اپنے سفر کو اس قدر مخفی رکھا اور ایسا نامانوس راستہ اختیار کیا کہ مکہ کی سرحد تک پہنچنے پر بھی لوگوں کو کوئی خبر نہیں ہوسکی ، اسی طرح مکی زندگی میں انفرادی طورپر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ، مگر آپ نے کبھی اس کا اعلان و اظہار نہیں فرمایا ؛ بلکہ بعض حضرات کو مصلحت کے تحت قبول اسلام کو چھپانے کا حکم دیا ؛ لیکن آج کل مسلمانوں میں قبل از وقت تشہیر کا مزاج عام ہوگیا ہے ، نہ صرف سیاسی قائدین بلکہ مذہبی رہنما بھی کھلے عام کسی فریق کی تائید اور کسی کی مخالفت کا اعلان کردیتے ہیں ، یہی حال دوسرے معاملات میں بھی ہے ، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کرلے تو اخبار میں اشتہار شائع ہوتا ہے : ’’ فلاں شخص فلاں کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوا ‘‘ اس میں قبول اسلام سے زیادہ ’ دست حق پرست ‘کی تشہیر مقصود ہوتی ہے ، یہ طرز عمل مسلمانوں کو تمام ہی مسائل میں اور خاص کر سیاسی اعتبار سے بہت نقصان پہنچا رہا ہے ، مسلمان خود تو متفق نہیں ہوپاتے ؛ کیوں کہ جب ایک ہی جگہ سے کئی کئی مسلمان مسلمانوں کی خدمت کے نام پر اُٹھیں گے ، تو ان کا متحد ہونا ممکن نہیں ہوگا ، اسی طرح جب آپ مجمع عام میں کسی کو کلمہ پڑھاتے ہیں یا اخبارات ورسائل میں اس کی تشہیر کرتے ہیں تو فطری طورپر ، پہلے جس سماج سے اس کا تعلق تھا ، اس سماج کے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے ؛ اس لئے موجودہ نازک حالات میں بڑی حکمت سے کام لینے کی اور اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے اور منصوبوں کو صیغۂ راز میں رکھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہمارے مخالفین چاہتے ہیں کہ ہم مشتعل ہوں ، ہماری گفتگو تیز اور دوسروں کے لئے اہانت پر مبنی ہو ، ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کریں ؛ کیوں کہ ہمارا لب و لہجہ جتنا تیز ہوگا ، مخالفین کا ووٹ بینک اسی قدر مضبوط ہوگا اور انھیں نفرت پھیلانے میں سہولت ہوگی ، اشتعال انگیز تقریر چاہے ایک جگہ ہو ؛ لیکن اس کا اثر پوری ریاست اور پورے ملک میں ہوتا ہے ، چاہے وہاں مسلمان اُمید وار میدان میں موجود ہو یا نہ ہو ، اس سے عمومی سطرح پر مخالفانہ رائے بنتی ہے ، رسول اللہ ا کی حیات طیبہ میں ہمیں اس کا سبق ملتا ہے ، مدینہ میں منافقین کا ایک ایسا گروہ موجود تھا ، جو مسلمانوں کا بغلی دشمن تھا اور مسلم سماج سے ہر طرح کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے زندگی گزار رہا تھا ؛ لیکن مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش میں شریک ہوتا تھا ، رسول اللہ ا کو ان افراد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطلع کردیا گیا تھا ؛ لیکن آپ کی اعلیٰ ظرفی اور مصلحت اندیشی کا حال یہ تھا کہ آپ انے کبھی اس پردۂ راز کو اُٹھانے کی کوشش نہیں کی ؛ کیوں کہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ یہ ان مسلمانوں کے لئے غلط فہمی اور رنج کا باعث بنے ، جو حقیقت حال سے واقف نہیں تھے اور جن کا منافقین سے قریبی ربط و ضبط تھا ، اسی طرح یہود قدم قدم پر مسلمانوں اور خود رسول اللہ ا کو تکلیف پہنچاتے تھے ؛ لیکن آپ نے کبھی بھی پوری قوم یہود کے تئیں سخت رویہ اختیار نہیں فرمایا ؛ بلکہ جس قبیلے کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی ، آپ نے صرف ان کے خلاف کارروائی کی ۔
آپ کی حکمت عملی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ نے مدینے میں آباد مختلف لوگوں سے الگ الگ قبیلے کی حیثیت سے معاملہ طے کیا ، تمام یہودیوں کو ایک کمیونٹی کا درجہ نہیں دیا ؛ بلکہ آپ نے الگ الگ قبیلے کی حیثیت سے ان سے معاملہ رکھا ؛ اسی لئے جب یہودیوں کے ایک قبیلہ کا مسلمانوں سے ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ٹکڑاؤ ہوا تو دوسرا قبیلہ غیر جانب دار ہوگیا ، اس ملک میں مسلمانوں کی یہی پالیسی ہونی چاہئے کہ برادرانِ وطن کی مختلف ذاتوں کے ساتھ الگ الگ طریقہ پر معاملات کریں ، ہندو بھائیوں میں بڑی تعداد انصاف پسند بھی ہے ، ان میں بھی ایک طبقہ ظلم وجور کا شکار رہا ہے ، ہم جب مسلمانوں پر ظلم وجور کی باتیں کریں تو تمام ہندوؤں کو اپنا فریق نہ بنائیں ، ہماری گفتگو سنگھ پریوار اور سنگھ ذہنیت کے حامل لوگوں تک محدود رہے اور ہم بار بار اس بات کو واضح کریں کہ ہندو بھائیوں سے ہماری لڑائی نہیں ہے ، ہم سب ایک ملک کے باشندہ ہونے کی نسبت سے بھائی بھائی ہیں ، ہماری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ مسلمان اور غیر مسلم دو مقابل فریق نہ بن جائیں ، ورنہ جب ایک طرف اسی فیصد لوگ اور دوسری طرف پندرہ تا بیس لوگ ہوں تو ظاہر ہے کہ کامیابی پہلے فریق ہی کو حاصل ہوگی ۔
ان سبق آموز پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور قابل توجہ امر یہ ے کہ اس وقت الیکشن کے نتائج سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے ہیں اور ان کی ہمتیں ٹوٹ گئی ہیں ، وہ اس انتخابی شکست کو اپنی شکست سمجھنے لگے ہیں ؛ حالاں کہ ایسا نہیں ہے ، اگر نتیجہ اس کے برعکس ہوتا اور اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں کامیاب ہوتیں تب بھی ایسا نہیں تھا کہ مسلمانوں کو اقتدار میں کوئی بڑا حصہ مل جاتا یا ، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانوں سے سب کچھ چھین لے گی ، ہم سیاسی پارٹیوں کے سہارے اس ملک میں نہیں رہتے ہیں ، ہماری قوت ملک کے دستور سے ہے ، جو پارٹیاں اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں ، انھوں نے بھی کبھی ہمارے غم کا مداوا نہیں کیا ، اور مسلمان ایسا لقمۂ تر بھی نہیں ہیں کہ موجودہ حکومت انھیں چبا جائے ، ہم اس ملک میں برابر کے شہری ہیں ، اس کے چپہ چپہ پر ہمارے خون جگر کے نقوش ثبت ہیں ، ہم نے مجبوری کی بناپر اس ملک میں رہنا قبول کیا ہو ، ایسا نہیں ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو پڑوسی ملک میں چلے جائیں ؛ لیکن مسلمانوں نے اپنی پسند سے اس ملک کا انتخاب کیا ، اس لئے ہمیں پوری قوت اور دل جمعی کے ساتھ اپنے حقوق کی لڑائی لڑنی چاہئے اور ہمت نہیں ہارنی چاہئے ، یہ انتخابی جنگ ایک عارضی واقعہ ہے ، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔
مسلمانوں کے لئے بزدلی اور ہمت ہارنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، رسول اللہ ا نے اپنی حیاتِ طیبہ میں قدم قدم پر اس بات کا خیال رکھا کہ مسلمانوں میں حوصلہ ہارنے کا مرض پیدا نہ ہو ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے ایک مہم پر صحابہ کا ایک دستہ بھیجا ، اتفاق سے وہ دشمن کے مقابلے میں ٹھہر نہیں پائے ، جب واپس ہوئے تو مدینے میں چھپ کر داخل ہوئے اور آپس میں مشورہ کیا کہ ہم حضور اکی خدمت میں حاضر ہوں گے ، اگر حضور انے ہماری توبہ کو قابل قبول سمجھا ، تب تو ہم مدینہ میں ٹھہریں گے ، اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم مدینے سے واپس ہوجائیں گے ؛ چنانچہ فجر کی نماز سے پہلے مسجد میں جاکر بیٹھ گئے اور جیسے ہی رسول اللہ ا حجرۂ مبارکہ سے باہر نکلے ، کھڑے ہوگئے اورشرمندگی کے ساتھ کہنے لگے : ہم بھاگے ہوئے لوگ ہیں : ’’ نحن الفرارون‘‘ رسول اللہ اہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : نہیں ؛ بلکہ تم دوبارہ حملے کے لئے پیچھے ہٹے ہو : ’’ أنتم العکارون‘‘ ہم لوگ آگے بڑھے اور آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیا ، پھر آپ انے ارشاد فرمایا : میں مسلمانوں کی کمک ہوں ’’ أنا فءۃ المسلمین‘‘ ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۲۶۴۷) یعنی اگر مسلمان فوج پیچھے ہٹ جائے تو میں اس کے لئے سہارا ہوں ، اس حدیث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ صحابہ جو احساس شکست کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے تھے ، آپ نے چاہا کہ ان کا حوصلہ ٹوٹنے نہ پائے ؛ کیوں کہ جب کسی قوم کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی قوت مقابلہ ختم ہوجاتی ہے اور اس کی حیثیت اس فوج کی ہوجاتی ہے ، جو دشمن کا سامنا کرنے سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دے ۔
غزوۂ اُحد کا موقع صحابہ کے لئے بڑا ہی حوصلہ شکن تھا ؛ کیوں کہ اہل مکہ نے مدینے کی سرحد پر پہنچ کر یہ حملہ کیا تھا ، ستر صحابہ شہید کردیئے گئے ، بہت سے صحابہ زخمی ہوئے ، یہاں تک کہ خود رسول اللہ ا خون سے لہو لہان ہوگئے ، رسول اللہ ا کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر اس موقع پر مسلمانوں کی ہمت کو سہارا نہ دیا گیا تو ان کی قوت مقابلہ ختم ہوکر رہ جائے گی ؛ اسی لئے آپ نے صحابہ کو ترغیب دی کہ وہ اہل مکہ کا پیچھا کریں اورصحابہ نے دُور تک مکہ واپس ہونے والی فوج کا تعاقب کیا ؛ حالاں کہ وہ خود زخموں سے چو رچور تھے ، اس کا دہرا فائدہ ہوا کہ ایک طرف صحابہ کا حوصلہ بلند ہوا ، دوسری طرف اہل مکہ نے محسوس کیا کہ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اپنا حوصلہ کھودیا ہو ؛ اسی لئے حالاں کہ انھوں نے مسلمانوں کو آئندہ سال بدر میں مقابلے لئے چیلنج کیا تھا ؛ لیکن آئندہ سال مسلمان تو بدر میں پہنچے ، مگر اہل مکہ کو اس کی ہمت نہیں ہوسکی ۔
غزوۂ اُحد ہی کے موقع پر مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے قرآن نے کہا : ’ تم بزدل اور رنجیدہ نہ ہو ، اگر تم پختہ ایمان کے حامل ہوجاؤ تو تم ہی غالب رہوگے‘ : ’’ وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ (آلِ عمران : ۱۳۹) مختلف مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی ہے ، ( تفسیر خازن : ۱؍۴۲۴ ) ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَا ءِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۔ (حٰمٓ السجدۃ : ۳۰)
بے شک جن لوگوں نے کہا : کہ اللہ ہمارا رب ہے ، پھر وہ ثابت قدم ہوئے تو ( ان کی مدد کے لئے ) ان پر فرشتے اُتریں گے ( اور کہیں گے : ) تمہیں نہ خوف و دہشت ہو اور نہ رنج و غم ، اور تم کو جنت کی خوشخبری ہو ، جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا تھا ۔
یعنی ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر حوصلہ شکن واقعات پیش نہ آئیں گے ، اور وہ رنج و غم سے دوچار نہ ہوں گے ؛ لیکن ایسے مواقع پر مسلمانوں کا رد عمل ان قوموں سے مختلف ہونا چاہئے ، جو خدا پر یقین نہیں رکھتے ؛ کیوں کہ ان کی منزل دنیا ہے اور ہماری منزل آخرت ، یہ یقین جتنا مضبوط ہوگا ، مسلمانوں کے قدم میں اسی قدر جماؤ پیدا ہوگا ، حوصلہ شکن حالات سے ان کی ہمتیں ٹوٹیں گی نہیں ؛ بلکہ ان کے حوصلے اور مضبوط ہوں گے ؛ کیوں کہ ان کے سامنے خدا کا وعدہ ہوگا کہ مسلمان شکست سے دوچار ہوں گے ؛ لیکن بالآخر فتح و کامرانی ان ہی کے ہاتھوں ہوگی ، جو ہارتا ہے ، وہی آئندہ جیتا بھی ہے ، جس میں ہارنے کا حوصلہ نہ ہو ، وہ کبھی جیت کا منھ نہیں دیکھ سکتا ؛ اسی لئے ہمیں ہرگز حوصلہ ہارنا نہیں چاہئے اورایسا نہیں ہونا چاہئے کہ خدا کے غیبی نظام کے مقابلے دنیا کے مادی نظام پر ہمارا یقین بڑھ جائے ، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی رات ایسی نہیں ہے جس کی صبح نہ ہو ، جب رات کی تاریکی گھٹاٹوپ ہوجاتی ہے تو اسی کے جلو سے صبح کا رُخ روشن کائنات کے اُفق پر نمودار ہوتا ہے۔