نئی دہلی: (نسیم اختر /ملت ٹائمز )
جماعت اسلای ہند کے امیر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا سید جلال الدین عمری نے تین طلاق پر پابندی کی افادیت پرخدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاق پر پابندی سے مسلم خواتین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیوں کہ تین طلاق کو کا لعدم قرار دیا جاتا ہے تو بھی اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو پریشان کرنا چاہے تو ان پابندیوں کے باوجود وہ ایسا کر سکتا ہے اور اپنی بیوی کو ازدواجی حقوق سے محروم کر سکتا ہے۔ اور ان پابندیوں سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہونگی اور خواتین کا وقار زد میں آئے گا۔ جماعت اسلامی ہند کے ماہانہ پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا عمری نے واضح طور پر اپنے الفاظ دہرائے کے مسلم معاشرے میں طلاق کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے جتنا کہ بتایا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار سے ثابت ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کا تناسب بہت کم ہے ۔ اس موقع پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے گائے کو قومی جانور بنانے کے مطالبہ پر مشتمل جمعیت علماءہند کے صدر مولانا ارشد مدنی صاحب کے بیان کی حمایت کی اور کہا کہ ان کی بات میں وزن ہے اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ پورے ہندوستان میں گائے کے تعلق سے حکومت یکساں قانون بنائے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ جن لوگوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اس پہلے بھی کچھ تنظیموں نے ملاقات کی ہے ۔اس طرح کی ملاقاتوں کوئی فائدہ سامنے نہیں آتا ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے مشترک موقف کی ترجمانی نہیں ہوپاتی ہے۔انہوں جماعت کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام مسلم جماعتوں پر مشتمل ایک مشترکہ وفد وزیر اعظم سے ملاقات کرے اور اپنا موقف رکھے ۔ملت ٹائمز کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی تنہا وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرے گی اگر ملک کی ملی تنظیموں کا مشترکہ وفد وزیراعظم سے ملاقات کرے گا تو جماعت اس میں ضرور شریک ہوگی اور ایسی کسی بھی ملاقات کو جماعت کی حمایت حاصل ہے ۔
مسلم پرسنل لا بیداری مہم کے کنوینر محمد جعفر نے میڈیا کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمامپندرہ روزہ کل ہند مسلم پرسنل لا بیداری مہم کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی۔ یہ مہم 23اپریل سے 7 مئی تک ملک بھر میں چلائی گئی۔ اس مہم کا اصل مقصدامت مسلم کو ان کے پرسنل لاسے واقف کرانا اور برادران وطن کے درمیان اسلام کے عائلی قوانین ، مثلاََ نکاح ، طلاق، میراث وغیرہ کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تبارک تعا لیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ عوام نے اس مہم کو کافی سراہا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے مہم کین خبر کو بڑی جگہ دی۔ تمام مسالک کے سرکردہ مسلم مذہبی علماء نے بھی اس مہم کی حمایت کی۔اس مہم کی خاص بات یہ تھی کہ مہم کے دوران منعقدہ کئی پریس میٹس اور شریعہ کانفرنسوں کو جماعت اسلامی ہند کی مختلف ذمہ دار خواتین نے خطاب کیا۔ مہم کے دوران انفرادی ملاقاتیں کی گئیں، جھگی جھوپڑیوں، چھوٹے بڑے گاؤں اور قصبوں میں پروگرام، نکڑ سبھائیں، ریلیاں، سمینار، سمپوزیم منعقد کیے گئے ۔ علاوہ ازیں، خطبات جمعہ بھی مہم کا حصہ رہے، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں تک رسائی ممکن ہو سکی اور طلاق کے صحیح اسلامی طریقہ کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا۔مسلمانوں کو شادیوں میں نام و نمود سے بچنے اور بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی تلقین کی گئی۔ محمد جعفر نے کہا کہ علماء اور وکلاء کے ساتھ خصوصی ملاقاتیں کی گئیں۔ ملک کے کئی شہروں میں کاؤنسلنگ سنٹرس اور شرعی پنچایتیں قائم کی گئیں۔ مہم کے دوران جماعت 14.5کروڑ لوگوں تک پہنچنے میں کا میاب ہوئی۔
جاعت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ گائے اور ہندوستانی ثقافت کے تحفظ کے نام پر ملک میں جس طرح سے بے گناہ شہریوں کو تشدد کا نشانا بنایا جا رہا ہیاس سے ایسا لگتا ہے کہ امن و امان قائم رکھنے والی مشینری پوری طرح ناکام ہو گئی ہے ۔ سماج دشمن عناصر کے ذریعہ ملک بھر میں پھیلائی جا رہی لا قانونیت اور انتشار پر انہون نے اپنے غم و غصے کا اظہارکیا ۔ انہوں نے کہا کہ ان بد معاش عناصر کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ پولیس اہلکاروں پر تھانوں کے اند ر ہی حملے کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پولیس اہلکار خاموشی اور بزدلی کے ساتھ ان کے حملوں کو برداشت کیے ہوئے ہیں اور اپنے فرض کے ساتھ لا پروائی برت رہے ہیں۔ گؤ رکشا کے نام پر حالیہ قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو اس لیے ہلاک کر دیا گیا کیونکہ ان کا تعلق ایک خاص فرقہ سے تھا۔ جماعت سمجھتی ہے کہ پچھلے تین سالوں میں نفرت پر مبنی جرائم اور مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف حملوں میں تیزی آئی ہے ۔ جماعت محسوس کرتی ہے کہ اتر پردیش میں نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے حالات نے بد ترین صورت اختیار کر لی ہے۔ جماعت کا مطالبہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں لا قانونیت کے واقعات پر قد غن لگائیں اور یہ ثابت کریں کہ وہ ملک میں امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں سنجیدہ ہیں۔
نربھیا کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کے معاملے میں سپریم کورٹ نے چار مجرموں کے خلاف موت کی سزا کو برقرار رکھا ہے۔ محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے ۔ جماعت ہمیشہ سے مطالبہ کرتی رہی ہے کہ اس طرح کے سنگین جرائم کے لیے سخت سے سخت سزا متعین کی جائے۔ کیونکہ اس طرح کے فیصلے مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں میں خوف پیدا کریں گے اور سنگین جرائم کے ارتکاب سے روکیں گے ۔ تاہم اس وا قعے کا افسو س ناک پہلو یہ ہے کہ اہم ملزم صرف اس وجہ سے سزا سے بری ہو گیا کہ وہ کم سن تھا۔ جماعت محسوس کرتی ہے کہ اس طرح کے مجرمانہ فعل کے لیے موجودہ قانون کا جائزہ لیا جانا چاہیے ، تاکہ تکنیکی وجہ سے کوئی ظالم سزا سے بچ نہ پائے، کیونکہ دیگر مجرموں کی طرح وہ بھی ایک ہی طرح کی سزا کا مستحق محسوس ہوتا ہے۔ حال ہی میں اسی طرح کے جرائم کے سلسلے میں ایک فیصلہ ممبئی ہائی کورٹ کا آیا ہے۔ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ بلقیس بانو کے ایک بیٹے اور اس کے خاندا ن کے کئی افراد کو 2002کے گجرات فساد میں قتل کر دیا گیا تھا اور بلقیس بانوکے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی۔ ممبئی ہائی کورٹ نے بلقیس بانو معاملے میں مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ جماعت سمجھتی ہے کہ جرم کی سنگینی کے لحاظ سے نربھیا اور بلقیس دونوں کا معاملہ Rarest of the rareکا ہے۔ حالات اورواقعات پر غور کیا جائے تو حقیقت میں بلقیس بانوکا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ جماعت امید کرتی ہے کہ اگر معاملے کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جاتا ہے تو نربھیا کی طرح بلقیس بانوں کو بھی انصاف ملے گا۔