تین طلاق کی روایت ختم ہورہی ہے،صرف0.37 فیصدلوگ ہی دیتے ہیں طلاق ثلاثہ، آئینی مسئلہ بنانا سود مند نہیں ہو گا :کپل سبل کا کورٹ کا جواب 

ابتدائے اسلام سے طلاق ثلاثہ ثابت،مچھالانے کورٹ کوبورڈکی سماجی اصلاح کی مہم سے بھی آگاہ کیا
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
سپریم کورٹ نے آج آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈسے پوچھا کہ کیا خواتین کونکاح نامہ کے وقت تین طلاق کو’’نہ‘‘کہنے کااختیار دیا جا سکتا ہے؟۔چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئین بنچ نے یہ بھی کہا کہ کیا تمام قاضیوں سے نکاح کے وقت اس شرط کو شامل کرنے کے لئے کہا جا سکتا ہے۔بینچ میں جسٹس کورین جوزف، جسٹس آریف نریمن، جسٹس یوللت اور جسٹس عبدالنذیربھی شامل ہیں۔سپریم کورٹ نے پوچھاکہ کیا یہ ممکن ہے کہ مسلم خواتین کو نکاح نامہ کے وقت ’’تین طلاق‘‘کو’’نہ‘‘کہنے کا اختیار دے دیاجائے؟۔بنچ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکی جانب سے پیروی کررہے سینئر وکیل کپل سبل سے جواب طلب کرتے ہوئے کہاکہ ہماری طرف سے کچھ بھی نتیجہ نہ ہٹا دیں۔تین طلاق، تعددازدواج اورنکاح حلالہ کو چیلنج دینے والی درخواستوں پربینچ کے سامنے چل رہی سماعت کا آج پانچواں دن ہے۔بینچ میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی سمیت مختلف مذہبی کمیونٹیز کے رکن شامل ہیں۔کل بورڈ نے کہاتھاکہ یہ مذہب سے جڑے معاملے ہیں اور انہیں آئینی اخلاقیات کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ آج سماعت کے پانچویں دن عدالت نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے، کہ عورت کو یہ حق دیا جائے کہ وہ فوری طور پر دیے گئے طلاق کو قبول نہ کریں۔کیا اس شق کو نکاح نامہ میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق کے فورا بعد بھی شادی نہیں ٹوٹ سکتی ہے ، کورٹ نے بدھ کو پوچھا کہ کیا ایک خاتون شادی کے معاہدے میں تین طلاق کو قبول کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے آج مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل کپل سبل سے پوچھا کہ کیا قاضی نکاح نامہ تیار کرتے وقت شادی کے کنٹراکٹ میں بیوی کو تین طلاق سے انکار کرنے کا اختیار دیتا ہے؟۔ تب سبل نے کہا کہ یہ بہت اچھا مشورہ اور بورڈ اس پر ضرور توجہ دے گا۔ ساتھ ہی ساتھ سبل نے کورٹ میں ایک سروے بھی پیش کیا ، جس کے مطابق مسلمانوں میں صرف 0.37فیصد لوگ ہی تین طلاق کو ترجیح دیتے ہیں۔کپل سبل نے تین طلاق کے حق میں دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ختم ہوتی روایت ہے اور اسے آئینی مسئلہ بنانا سود مند نہیں ہو گا۔ کورٹ کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو اس صورت میں لاگو کیا جا سکتا ہے، جب قاضی مسئلے کوعوام کی سطح تک لگائیں ، بورڈ نے کورٹ کو 14 اپریل 2017 کو مسلم پرسنل لاء کی میٹنگ میں پاس ہوئے ایک فیصلے کے بارے میں بھی معلومات دی، جس میں کہا گیا تھا کہ تین طلاق ایک گناہ ہے، اور ایسا کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیاجائے گا ، مسلم پرسنل لا بورڈ نے طلاق کو لے کر 14 اپریل 2017 کو ایک کوڈ آف کنڈکٹ بھی جاری کیا تھا ۔ واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے منگل کو چوتھے سماعت کے دوران سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ تین طلاق ایک گناہ اور قابل اعتراض پریکٹس ہے، پھر بھی فریقین کے درمیان صلح کرانے کے لئے اسے جائز قرار دیا گیا ہے اور اس کے غلط استعمال کے خلاف مسلم کمیونٹی کو بیدار کرنے کی کوشش جاری ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کمیٹی کے رکن اور سینئر وکیل یوسف ہاشم مچھالا نے کورٹ سے تین طلاق کے معاملے میں مداخلت نہ کرنے کے لئے کہا، کیونکہ یہ ایمان کا مسئلہ ہے اور اس پر عمل مسلم کمیونٹی 14000سال پہلے سے کرتی آ رہی ہے، جب اسلام وجود میں آیا ، مچھالا نے یہ تجویز پانچ ججوں کی آئینی پیٹھ کو تب دی جب بنچ نے ان سے پوچھا کہ تین طلاق کو نکاح نامہ سے مختلف کیوں کیا گیا اور طلاق احسن اور حسن کو اکیلے کیوں شامل کیاگیا،خیال رہے کہ تین طلاق کے مسئلہ پر منگل کو بھی سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے بورڈ کی دلیلیں سنی تھیں۔ بورڈ کے وکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ تین طلاق عقیدت کا معاملہ ہے۔وکیل کپل سبل نے کہا کہ مسلمان گزشتہ 1400سالوں سے اس پرعمل کرتے آ رہے ہیں، لہذا اس صورت میں اخلاقیات اور مساوات کا سوال نہیں اٹھتا ۔