نئی دہلی(ملت ٹائمزایجنسیاں)
ملک کا 14 وا صدارتی انتخاب تقریبا 46 سال پرانی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا جائے گا، اگرچہ آئین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 1971 کی آبادی کی بنیاد پر ہونے والے صدارتی انتخابات میں کئی ریاستوں کو اتنا نمائندگی نہیں ملے گی، جتنی کہ اس صدارتی انتخابات میں انہیں ملنی چاہئے تھی۔ قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے صدر کا الیکشن بالواسطہ الیکشن نظام کے تحت الیکٹرال بورڈ کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس میں ووٹنگ کرنے والے ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کے ووٹوں کی قیمت بھی ریاست کی کل آبادی کے حساب سے طے ہوتی ہے، اسے متناسب نمائندگی نظام کہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت ریاست کی کل آبادی میں اسمبلی حلقوں کی تعداد کا حصہ دیا جاتا ہے، پھر اس سے حاصل اعداد و شمار کو ایک ہزار سے ضرب دیتے ہیں، اس میں حاصل شدہ تعداد ہی صدارتی انتخابات میں اس ریاست کے رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت کہلاتا ہے۔
اسی طرح ایم پی کی اہمیت، تمام ریاستوں سے منتخب شدہ ممبران اسمبلی کے ووٹوں کی کل اہمیت جوڑی جاتی ہے، پھر اس سے حاصل تعداد کا راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے منتخب کئے گئے ممبران کی کل تعداد سے ضرب دیا جاتا ہے۔ اس سے حاصل تعداد ہی ایم پی کے ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے، اگر اس طرح ضرب دینے کے بعد 0.5 سے زیادہ بچتاہے تو ان کی اہمیت میں ایک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہندوستان کے مردم شماری کمشنر اور جنرل رجسٹرارآفس کی مردم شماری کے مطابق سال 1971 میں ملک کی کل آبادی 54.81 کروڑ تھی، جبکہ 2011 کے آخری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی کل آبادی بڑھ کر 121.01 کروڑ پہنچ گئی۔ ایک اندازے کے مطابق 2017 میں ملک کی کل آبادی 128 کروڑ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔اندازے کے طور پر 1971 کے بعد 2017 کے درمیان کل 46 سالوں میں ملک کی آبادی ڈھائی گنا تک بڑھ گئی ہے، لیکن صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کرنے والے نمائندوں کے ووٹوں کا تعین 1971 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی کیا جا رہا ہے یعنی کچھ دنوں کے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات بھی 46 سال پرانی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی ہونے والے ہیں۔