عمر فاروق قاسمی
غالباً یہ تب کی بات ہے جب راقم الحروف آٹھ نو سال کا طفل نو خیز رہا ہوگا، کچھ زیادہ شعور تو نہیں تھا تاہم اتنا بھی کم شعور نہیں تھا کہ کچھ بھی یاد نہیں رہے ناظرہ قرآن کریم نہیں تو اسی کے آس پاس ہی کا دور رہا ہوگا مدرسہ محمود العلوم دملہ میں فصل اگہنی کے چندہ کے لیے غالباً چھٹی ہو چکی تھی تاہم دملہ واطراف کے طفلانِ مکتب اس چھٹی سے مستثنٰی تھے یہ استثنائی حالت مجھے بھی میسر تھی اور میں بھی مدرسہ میں آنا جانا کیا کرتا تھا ان طفلانِ کم شعور کے درمیان ایک ایک متوسط قامت دبلے پتلےنہیں تو موٹے تازے بھی نہیں استاد نما طالب علم اور طالب علم نما استاد مدرسہ میں نظر آئے، مدرسہ میں شور تھا کہ ایک طالب علم استاد بحال ہوا ہے اپنی کم شعوری کی وجہ سے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی کہ ایک طالب علم استاد کی کرسی پر کیسے بیٹھ سکتا ہے تاہم کسی کے سمجھانے پر پتہ چلا کہ ابھی کچھ سال قبل یہ صاحب مدرسہ محمود العلوم میں اپنا تعلیمی میعاد مکمل کر کے دیوبند گئے تھے اور اب رسمی فراغت کے بعد اس وقت کے لائق و فائق مہتمم مولانا ابرار احمد قاسمی نے بحیثیت استاد انہیں بحال کیا ہے، اسی وقت یہ بھی پتہ چلا کہ وہ صاحب محبت مادری اور شفقت پدری دونوں سے محروم ہو چکے ہیں، باپ کا انتقال تو پہلے ہوچکاتھا کچھ دنوں قبل ماں بھی اپنا رستہ لے چکی ہے، غربت و افلاس کی کھینچا تانی اور ستمہائے روزگار کی کشا کش کے درمیان ان کی تعلیم مکمل ہوئی ہے اور اب وہ صاحب مدرسہ محمود العلوم کے مسند تدریس پر فائز ہوچکے ہیں۔ یہ صاحب جن کا ذکر جمیل سطور بالا میں گزرا کوئی اور نہیں ہمارے مشفق و مربی استاد اور روحانی باپ حضرت مولانا صلاح الدین القاسمی مومن پوری بعدہ کٹھیلوی ہیں۔
مولانا موصوف کی ابتدائی تعلیم محمد پور جرہٹیہ ضلع دربھنگہ میں ہوئی وہیں انہوں نے چار پانچ پارہ قرآن مجید حفظ بھی کیا اس کے بعد ان کا تعلیمی سلسلہ کچھ دنوں کے لئے منقطع بھی ہوگیا، اسی دوران استاذ محترم جناب حافظ محمد ایوب صاحب کے گھر کوئی بچہ تولد ہوا تو آذان کہنے کے لئے مولانا صلاح الدین صاحب کو بلا یا گیا حافظ صاحب کی اہلیہ نے تحفہ میں ایک مرغ دیا تو مولانا کی والدہ نے کہا کہ کہ یہ مرغ آپ رکھ لیں اور آذان کے عوض اس کو پڑھا دیں، حافظ صاحب کی اہلیہ کو یہ بات گھر کرگئی اور سینکڑوں حفاظ کے اساتذہ جناب حافظ محمد ایوب صاحب جو ان کے والد کے ماموں زاد بھائی تھے ان کو مدرسہ تجوید القرآن سمڈیگا رانچی لے گئے اور دوبارہ تعلیم و تعلم کی شاہراہ پر گامزن کردیا حافظ صاحب کی زیر نگرانی وہاں انہوں نے عربی سوم تک تعلیم حاصل کی، جب یکم محرم1400ھ مطابق 1980کو مولانا ابرار احمد قاسمی سابق مہتمم مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ بحیثیت مہتمم دملہ تشریف لائے اور مدرسہ جو انحطاط کا شکار ہو چکا تھا اس کی ترقی و تابانی کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ڈالی گئی تو مہتمم موصوف نے اپنے ساتھ اس ہونہار طالب علم کو بھی لے لیا، پھر کیا تھا مولانا موصوف نے یہاں آکر عربی سوم میں داخلہ لیا اور یہیں عربی پنجم تک کی تعلیم مکمل کی، یہاں ان کے اساتذہ میں مولانا ابرار احمد مولانا نسیم احمد قاسمی کٹھیلا، مولانا عبدالوہاب بریارپور مولانا صلاح الدین چندر سین پوری وغیرہ تھے، چونکہ مولانا غربت و افلاس کے شکار تھے لیکن ذہین تھے اس لیے مہتمم مدرسہ مولانا ابرار احمد قاسمی نے ان کے لیے تینوں وقت کا کھانا جاری کر دیا
جب کہ اس وقت طالب علم کو صرف دو ٹائم کا کھانا ملا کرتا تھا لگ بھگ تین سال کے بعد غالباً 1984میں اعلی تعلیم کے لئے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے دیوبند جانے میں اخراجات کا انتظام حافظ محمد ایوب صاحب کی ایما پر قاری عبیداللہ صاحب دملہ نے کیا چونکہ حافظ محمد ایوب صاحب کی نگاہ دور رس نے اس گوہر تابدار کو بچپن ہی میں پہچان لیا تھا اس لئے مختلف وساطت سے ان کی تعلیمی کفالت کو اپنا فرض سمجھا اور سمڈیگا سے لیکر دیوبند تک ان کی مکمل کفالت ونگرانی کی، دارالعلوم دیوبند میں عربی ششم سے دورہ تک تعلیم حاصل کی، بخاری شریف جلد اول شیخ نصیر احمد خان صاحب سے، جلد ثانی شیخ عبد الحق اعظمی، مسلم شریف بحرالعلوم مولانا نعمت اللہ صاحب، ابو داؤد شریف علامہ بہاری، ابن ماجہ مولانا زبیر صاحب، اور ترمذی شریف مفتی سعید صاحب سے پڑھی، دیوبند سے فراغت کے بعد غالباً 1986 کے اخیر میں مدرسہ محمود العلوم دملہ استاد عربی کی حیثیت سے بحال ہوئے، لگ بھگ سولہ سترہ سال تک اپنی بےپناہ صلاحیتوں سے عنادل محمود العلوم کو فیض یاب کرتے رہے، محمود العلوم کے زمانۂ تدریس کے ابتدائی مرحلے میں جناب مولانا سعید احمد قاسمی کٹھیلوی کی ہمشیرہ سے آپ کا نکاح ہوگیا اور پھر یہیں بود و باش اختیار کرلی، جب مولانا ابرار صاحب کے ذریعے جامعہ فیضان القرآن کا قیام عمل میں آیا اور درجات عربی قائم ہوئے تو محمود العلوم سےاس گوہر کمیاب کو توڑ کر نومولود جامعہ میں جڑ دیا گیا ، بلاشبہ شروع میں تو ایسا لگا کہ کہیں یہ جوہرِ تابدار اپنی دلکشی و رعنائی کھو نہ دے مگر یہ قیمتی ہیرا وہاں بھی چمکتا اور دمکتا رہا اور نہ صرف خود چمکا بلکہ اس کی چمک نے اس نومولود جامعہ کو بھی چمکایا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ وہاں کے شیخ الحدیث بھی ہو گئے۔
ویسے تو موصوف کو راقم الحروف ان کی تدریسی زندگی کی ابتداء ہی سے جانتا ہے، پیش رو طلبہ کی زبانی ان کی صلاحیتوں کا شہرہ اکثر سنا کرتا تھا ہر زمانے کے طلبا ان کی صلاحیتوں کے ترجمان اور ان کی ذہانت و فطانت کے ثنا خواں رہے تاہم ان کی صلاحیتوں کا اندازہ اس وقت ہوا جب عربی اول کی مشہور و معروف کتاب نحومیر ان کے پاس گئی جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں کہ درس نظامی میں نحومیر عربی قواعد کی پہلی کتاب پڑھائی جاتی ہے، عربی زبان کے قواعد کو فارسی زمین میں سمجھنا اور سمجھانا کافی مشکل ہوتا ہے، اکثر اساتذہ یا تو ترجمہ یا ہو بہو فارسی عبارت کو رٹوا دینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں، نتیجتاً طلبہ صرف انہیں مثالوں کو قواعد سے تطبیق دے پاتے جو کتاب میں مذکور ہیں، خارجی مثالوں کو قواعد پر منطبق کرنا ان کے لئے بڑا دشوار ہوتا ہے اور اس طرح وہ نحومیر کی بحث کو ہدایتہ النحو میں اور ہدایتہ النحو کی بحثوں کو کافیہ شرح جامی اور شرح شزور الذہب میں جاکر سمجھتا ہے، لیکن مولانا نحومیر کو زبان کی نوک پر رٹوا تے ضرور تھے لیکن خارجی مثالوں سے قواعد کو ذہن میں اس قدر مستحضر کردیتے کہ اگر کتاب حرف بہ حرف یاد نہ بھی کی جائے تو قواعد کا ماحصل ذہن میں محفوظ ضرور ہوتا، وہ قواعد کو مثالوں پر فٹ کرتے اور پھر ایسی مثالیں کی تلاش کی ذمہ داری طلبہ پر ڈالتے، راقم الحروف نے قدوری بھی انہیں سے پڑھی ہے، کتاب البیوع فقہی ابواب میں سب سے مشکل ابواب مانا جاتا ہے، مولانا موصوف ہر ہر مسئلہ کو سمجھانے سے پہلے صورت مسئلہ فرض کرتے جب مسئلہ کی شکل ذہن میں مستحضر ہوجاتی تو پہر عبارت کو اس پر منطبق کرتے، قدوری میں وہ دلائل سے کم بحث کرتے صورت مسئلہ پر توجہ زیادہ ہوتی، ہاں ایک جیسے دو مسئلے ہوتے اور دونوں کا حکم الگ الگ ہوتا تو وجہ ، فرق اور دلیل بھی بتاتے ، اس کے علاوہ ان سے تفسیر قرآن مجید از ابتدا تا پارہ 8، القراہ الواضحہ، نورالانوار، اور سلم العلوم بھی پڑھی ہے، مدرسہ محمود العلوم کی روٹنگ کے مطابق طلبہ اعلی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند عربی پنجم پڑھ کر ہی جاتے تھے، ششم عربی کے لئے پنجم عربی کا امتحان دینا ہوتا اس لیے طلبہ کی نگاہیں اس بات پر خوب ہوتی تھیں کون سی کتاب کس کے پاس ہے، میری پنجم کی دو اہم کتابیں ان کے ذمہ تھیں، نورالانوار، اور سلم العلوم، دونوں کو انہوں نے پوری محنت سے پڑھایا، بڑی کتابوں میں پہلے ان کی تقریر ہوتی جو حواشی پر لکھی عبارتوں پر مشتمل ہوتی پھر اس تقریر کو عبارت سے مربوط کرتے، سلم العلوم منطق کی بہت مشکل بلکہ مغلق در مغلق کتاب مانی جاتی ہے ہے، ایک تو فن منطق دوسرا اس کا اغلاق اس کو مزید بوجھل بنا دیتا ہے، چونکہ دارالعلوم کے نصاب میں شامل ہے اس لیے اس سے ملحقہ مدارس کے لئے اس کی تدریس مجبوری بھی ہے، اکثر اساتذہ یا تو اس کتاب کو اپنے ذمہ لینے سے کنّی کاٹتے ہیں یا اگر لیتے ہیں تو فن کی پیچیدگی کا بہانہ بنا کر اوٹ پٹانگ ہانکنے ہی کو کمال سمجھتے ہیں، اور اگر طلبہ مطمئن نہیں ہو پاتے تو یہ کہہ کر دامن چھڑا لیتے ہیں ؎
منطقی کو بحر میں خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے پر سرا ملتا نہیں
یا یہ کہہ کر اپنی ناسمجھی پر پردہ ڈال لیتے ہیں کہ ارے اس فن کی کوئی ضرورت نہیں، تاہم مولانا ان سے الگ تھے، ان کی نظر میں یہ بحث بیکار ہے کہ فن کی ضرورت ہے یا نہیں، یا یہ کتاب بہت پیچیدہ ہے، ان کا نظریہ تھا کہ کتاب داخل نصاب ہے تو قابل فہم بھی ہے، کتاب جب ترتیب دی گئی ہے اس کے سمجھنے والے بھی ہیں، ایک استاذ کا کام کتاب کو مغلق اور پیچیدہ اور فن کو زمانہ ناشناس قرار دینا نہیں ہے ان کا کام ہے عبارتوں میں غواصی کر کے اس کے معانی سے طلبہ کو روشناس کرانا، وہ سلم کی ہر عبارت کو پوری شرح و بسط کے ساتھ سمجھاتے اور ہوشمند طالب علم بحث و مباحثہ کے بعد پوری طرح مطمئن ہوکر ہی اٹھتا۔
مولانا کی تحریر میں غضب کا حسن پایا جاتا تھا، عربی ہو یا اردو ہر دو زبانوں میں ان کی تحریر جاذب نظر ہوتی تھی، احقر ہی نہیں بلکہ اکثر عربی کے طلبہ ان سے مشق لیا کرتے تھے، حسن ترتیب اور حسن انتظام ان کی طبعیت میں رچی بسی تھی، اس کا اثر اس وقت مدرسہ کی لائبریری پر بھی ظاہر ہوتا تھا، مدرسہ اور طلبہ دونوں کی لائبریری کے ذمہ دار اور نگراں وہی تھے، محمود العلوم کی لائبریری ان کے زمانے میں جس قدر مرتب تھی ان کے بعد ویسی ترتیب قائم نہیں رہ سکی، کبھی مہینہ تو کبھی دو مہینے میں کتابوں کو دھوپ میں سکھانا، اور اس کے لیے طلبہ کا استعمال کرتے اور انہیں بھی اس چیز کی تربیت دیتے ، کتابوں اور رسائل کی نمبرنگ کرنا سال میں کبھی دو کبھی تین مرتبہ جلد سازوں کو بلا کر پھٹی پرانی کتابوں اور جرائدکی جلد سازی کرانا، یہ ان کی عادت بن چکی تھی، مدرسہ کی جو کتاب یا مجلہ آپ تلاش کریں ؛ فن کے اعتبار سے فہرست کتب اٹھائیے اور الماری میں تلاش لیجیے سب ترتیب وار موجود ملتی کون سی کتاب کس استاد کے پاس ہے کس کتاب پر کس طالب علم نے قبضہ جما رکھا ہے ایک ایک کا حساب و کتاب ان کے پاس موجود تھا، کتاب گم ہونے پر اساتذہ کا حال تو نہیں معلوم لیکن طلبہ سے جرمانہ ضرور لیا جاتا ” زادِ سفر “ گم ہونے پر اس زمانے میں بیس روپے کا جرمانہ مجھے بھی لگا تھا، امید ہے کہ لائبریری کے موجودہ ذمہ داران ان کے اس طریقہ کار کو آگے بڑھائیں، اللہ نے انہیں فن خطابت سے بھی نوازا تھا جامعہ مسجد دملہ میں ان کا خطاب بہت غور سے سنا جاتا، تقریر میں شور شرابہ، گھن گرج اور للکار نہیں ہوا کرتی بلکہ خاموش دریا کی روانی ملتی جو آہستہ آہستہ کھیت و کھلیان کو سیراب کررہی ، تقریر میں سیر و تفریح ہنسی مذاق نہیں بلکہ قرآن و حدیث اثرآفرینی ملتی ہاں کبھی کبھار تازگی لانے کے لیے عبرت انگیز لطائف کا سہارا لے لیا کرتے۔
راقم الحروف کے اندر خطابت کی چاشنی پیدا کرنے میں ان کا اہم رول ہے دوران طالب علمی میں کبھی کبھی اپنے پروگرام میں ساتھ لے جاتے اور زبردستی پانچ منٹ دس منٹ اپنی تقریر سے پہلے کرواتے اس زمانے میں تو اس قسم کا جبر دل پر بہت گراں گزرتا تاہم آج اس کا فائدہ بخوبی محسوس کررہا ہوں۔
مولانا کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جو ملک و بیرون ملک دینی وعلمی خدمات انجام دے رہے ہیں ان میں مولانا حسنین قاسمی ناظم جامعہ عائشہ نورچک، مولانا نسیم احمد قاسمی سابق استاد اشرف العلوم کنہواں، مولانا کمال الدین قاسمی ساؤتھ افریقہ، مولانا جمیل احمد قاسمی ٹیچر مڈل اسکول منگرونی، حافظ حارث ناظم مدرسہ محمدیہ مومن پور، مولانا شمس عالم قاسمی، مولانا محمد انس قاسمی نائب مہتمم مدرسہ محمود العلوم دملہ، مولانا سلمان قاسمی، مولوی ارشد ٹیچر پرائمری اسکول رتھوس، مولانا ممتاز قاسمی بھوپال، مفتی صغیر عالم قاسمی صدر مدرس دارالعلوم بیڑ مہاراشٹر، مولانا مصطفی قاسمی امام جامع مسجد جھنجنوں راجستھان وغیرہ شامل ہیں، مولانا ہمیشہ بچپن ہی سے معاشی پریشانی کے شکار رہے، افسوس کی بات ہے پوری زندگی معاشی بحران کا مقابلہ کیا اور زندگی میں معاشی استحکام نہیں ہوسکا یہ دلیل ہے اس بات کی انہوں نے دگر جبہ و دستار والے کی طرح قوم و ملت کے سرمایہ میں خرد برد نہیں کیا، تیس پینتیس سال میں ایک بائک بھی نہیں خرید سکے، لوگوں کے تعاون سے صرف کھپرا پوش مکان ہی بن سکا، کثیر الاولاد ہیں سات لڑکی اور چار لڑکے ہیں، ایک صاحب زادی اور ایک صاحب زادہ کی شادی ہوچکی بقیہ ابھی چھوٹے ہیں، ماشا اللہ بڑا لڑکا اسامہ سیفی سال گذشتہ دیوبند سے فارغ ہوا ہے او ر ابھی مدرسہ شمس العلوم شاہدرہ میں عربی درجات کے استاد ہیں۔
موت تو آنی ہے اور سب کو یکے بعد دیگرے اس کے آہنی پنجے کا شکار ہونا ہے لیکن مرنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں، کچھ تو وہ ہوتے جو قوم و ملت اور ملک و وطن کے لئے باعث ننگ و عار ہوتے ہیں ان کی موت سے دنیا خوشی مناتی ہے، کچھ وہ ہوتے ہیں جن کا دنیا میں آنا اور دنیا سے جانا برابر ہوتا ہے، وہ کب آئے اور کب گئے، کچھ بھی پتہ نہیں چلتا نہ ان سے کسی کو فائدہ پہنچا اور نہ ہی نقصان، اور کچھ شخصیات وہ ہوتی ہیں جن کے جینے کی تمنا کرتے ہیں، وہ قوم ملت اور ملک وطن باعث فخر ہوتے ہیں، جن کی زندگی کا ایک لمحہ قوم و ملت کے لئے وقف ہوتا ہے، ان کی زندگی کا ایک ایک پارٹ نونہالانِ قوم کی تربیت و تہذیب سے عبارت ہے۔ ہمارے استاد محترم جناب مولانا صلاح الدین قاسمی اسی تیسری صفوں کے ایک فرد ہیں، اللہ ان قبر کو جنت الفردوس کا ٹکرا بنادے اور ان کی روح کا مسکن و ماویٰ وہاں کا گھونسلہ بنے۔
★ نوٹ : مضمون کی تیاری میں جناب مولانا ابرار احمد قاسمی، حافظ محمد ایوب صاحب، ان کے رفیق درس قاضی اعجاز احمد قاسمی، صاحبزادے مولوی اسامہ سیفی کی معلومات اور اپنے ذاتی تاثرات سے مدد لی گئی ہے۔