کرکٹ ؛ کھیل یا جنگ

مولانا ندیم الواجدی

چمپینز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان نے ہندوستان کو ایک سو اسی رنوں سے شکست دی اور چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، یہ خبر آپ کی طرح ہم نے بھی سنی اور پڑھی، بہ ظاہر اس خبر میں کوئی خاص بات نہیں ہے، کھیل رات دن ہوتے ہیں اور جیت ہار کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے، لیکن اگر کرکٹ کا میچ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوتو پھر یہ کھیل کھیل نہیں رہتا، بل کہ دو روایتی حریفوں کے درمیان جنگ کی شکل اختیار کرلیتا ہے، راقم الحروف کو اس کھیل سے اس حد تک تو دل چسپی ہے کہ یہ معلوم کرلیتا ہے کہ کون سی ٹیم کھیل رہی ہے اور اس کا اسکور کیا ہے لیکن اتنی دل چسپی کبھی نہیں رہی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ٹی وی سیٹ سے چپک کر بیٹھ جائے، اور ہر چوکے چھکے پر تالیاں پیٹ پیٹ کر بے حال ہوجائے، خاص طور پر ان دو ملکوں کے کھیل سے اگر یہ دونوں آمنے سامنے ہوں تو دل چسپی سے زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے، اور اسکور معلوم کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی، ہمارے ملک کا ماحول کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ اگر پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان جیت جاتا ہے تو مسلمانوں کی خاموشی کو افسوس اور ان کی خوشی کو نفاق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگر پاکستان جیت جاتا ہے تو غلطی سے کوئی مسلمان مسکرا بھی دے تو اسے غدار کا خطاب دے دیا جاتا ہے، ماضی میں کئی فسادات ان دونوں ملکوں کی شکست وفتح کے نتیجے میں رونما ہوئے، کئی سالوں سے ہندوپاک کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے ملکوں میں نہیں جارہی تھیں اور نہ دوسرے ملکوں میں ان کے مقابلے ہورہے تھے، اس سے بڑا سکون تھا لیکن برا ہو ویلنراور لندن والوں کا کہ انھوں نے چمپینز ٹرافی کے کھیل منعقد کرکے ان دونوں ٹیموں کو آمنے سامنے کرہی دیا، جب دو ٹیمیں کھیلتی ہیں تو کسی ایک ہی کو فتح نصیب ہوتی ہے، اگر میچ فکس نہ ہو تو اسے محنت سے زیادہ مقدر کا کھیل سمجھا جاتا ہے، اس ٹرافی میں بھی ایسا ہی ہوا، محض اتفاق سے پاکستان کی ٹیم ایک سو اسی رنوں سے جیت گئی اور ہماری ٹیم ایک سو اٹھاون کے اسکور پر سمٹ کر رہ گئی، کھلاڑی اوول کے میدان میں کرکٹ کو کھیل سمجھ کر کھیل رہے تھے، لیکن دونوں ملکوں کے کڑوڑوں لوگ اسے ہندومسلم جنگ کے نقطۂ نظر سے دیکھ رہے تھے، کھیل سے پہلے، کھیل کے دوران اور کھیل کے بعد سوشل میڈیا پر جس طرح کے تبصرے ایک دوسرے کے خلاف دیکھنے اور پڑھنے کو ملے ان سے ایسا لگتا تھا کہ کھیل نہیں ہورہا ہے بلکہ محاذ جنگ پر لڑائی چل رہی ہے، برادران وطن کی بات تو ہم بعد میں کریں گے پہلے ہم پاکستان کے مسلمانوں پر ماتم کرلیں کہ انھوں نے کھیل کے پتے رمضان کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا یہ عبادت کا مہینہ ہے، اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، ایک اچھے مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے کہ وہ اپنے ہر لمحے کی قیمت وصول کرے، اس کے برعکس فائنل والے دن جس طرح سلطنت خداداد کے مسلمانوں نے رمضان کو بالائے طاق رکھ کر کھیل کی جنگ میں شرکت کی اس سے بڑی مایوسی ہوئی ہے، اگر بات عوام تک محدود رہتی تو بھی دل کو سمجھا لیا جاتا وہاں تو جبہ ودستار والے بھی اسے کفر واسلام کی جنگ سمجھ کر اس میں حصہ لے رہے تھے۔
پاکستان کے اُردو روزنامے ’’جسارت‘‘ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک مضمون نظر سے گزرا، اس کے لکھنے والے پاکستان کے مشہور عالم دین، معروف صاحب قلم علامہ زاہد الراشدی صاحب ہیں، راقم نے ان کا یہ مضمون پڑھا تو اپنا سر پیٹ لیا، بہت دیر تک تو یہ یقین ہی نہیں آیا کہ فکر دیوبند کی ترجمانی کرنے والے علامہ راشدی صاحب بھی اس طرح کی باتیں کرسکتے ہیں، جہاں تک کرکٹ سے ان کی، ان کے بیٹوں، پوتوں اور والدہ محترمہ کی دل چسپی کا معاملہ کا ہے اس پر کچھ کہنا بیکار ہے، یہ تو اپنا اپنا شوق ہے، والدہ صاحبہ نے پاکستان کی جیت کے لئے اتنی نفلیں قبولیں جتنے رنوں سے پاکستانی ٹیم کی جیت مقدر تھی، اس سلسلے میں بھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے،اب ان کی والدہ صاحبہ ایک سو اسی نفلیں ادا کررہی ہوں گی، ظاہر ہے قبولی ہیں تو ادا بھی کرنی ہوں گی، ہمیں تو اعتراض اس بات پر ہے کہ انھوں نے اس کھیل کو روم وفارس کی جنگ سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی دنوں میں مشرکین مکہ روم کی طرف اور مسلمان فارس کی طرف تھے اور روم کی فتح کی خبر سن کر کفار خوشی سے جھوم اٹھتے تھے اور فارس کی فتح کی خبر سن کر مسلمانوں کے چہرے جگمگا اٹھتے تھے یہی صورت حال اس کھیل میں بھی سامنے آرہی ہے، علامہ راشدی صاحب ایک ذمہ دار عالم سمجھے جاتے ہیں، ان کے قلم سے اس طرح کے تصورات کی اشاعت کو ذمہ دارانہ نہیں کہا جاسکتا، پہلی اور قطعی بات تو یہ ہے کہ کرکٹ صرف ایک کھیل ہے، ہم سب کو مل کر دونوں ملکوں کی حکومت اور عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اگر دونوں ملکوں کے لئے کرکٹ کھیلنا ضروری ہی ہے تو وہ اسے کھیل سمجھ کر کھیلیں، جنگ سمجھ کر نہ لڑیں، کیوں کہ جنگ چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو ان دونوں میں سے کسی کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے، اگر جنگ کرنی ہے تو غربت سے، جہالت سے، فرقہ واریت سے، مسلکی منافرت سے، کرپشن سے، ناانصافیوں سے کریں، اسی میں دونوں ملکوں کی بھلائی ہے، اس کوشش کے بجائے جب ہم کھیل کو ہندو مسلم جنگ کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے لئے تاریخ کے دامن سے الٹی سیدھی دلیلیں لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم نہ انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور نہ اپنے ملک کی بھلائی کے بارے میں سوچتے ہیں۔
روم اور فارس کی جنگ مجوسیوں اور عیسائیوں کے درمیان لڑی گئی تھی، مشرکین مکہ اپنے عقائد ونظریات کے لحاظ سے خود کو مجوسیوں کے قریب تصور کرتے تھے اور آسمانی مذہب ہونے کے خیال سے مسلمان فارس کے نصاری کو اپنا سمجھ رہے تھے، یوں یہ جنگ مشرکین اور مسلمانوں کی دل چسپی کا موضوع بن گئی تھی، اس میں مشرکین اور مسلمان براہِ راست شریک نہیں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جب فارس کے مجوسیوں نے رومیوں پر غلبہ پایا تو مسلمانوں کے چہرے لٹک گئے اس وقت قرآن عظیم نے فتح فارس کی پیش گوئی کی جو بعثت نبوی کے پانچ سال بعد سچ ہوکر رہی، اس تاریخی واقعے کو کرکٹ کے کھیل پر منطبق کرنے کی اس کوشش کو اس کے علاوہ کیا کہیں گے کہ پاکستان کے اہل علم بھی جذبات کی رو میں بہہ رہے ہیں۔
جہاں تک برادران وطن کا معاملہ ہے انہیں بھی کھیل کو کھیل سمجھنا چاہئے، کرکٹ کے کھیل میں ہندوستان نے پاکستان کو کئی بار شکست دی ہے، اور آئندہ بھی دے گا، اگر اس بار ہم ہار گئے تو اس قدر جذباتی بننے کی ضرورت نہیں ہے، ان کو ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں اپنے نظرئیے کو بھی تبدیل کرنا چاہئے، کشمیر کے مسلمانوں کے آئینے میں باقی مسلمانوں کو دیکھنے کی کوشش نہ کی جائے ، ان کے مسائل الگ ہیں، باقی ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو اپنے ملک سے اتنی ہی محبت ہے جتنی آپ کو ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کا ملک ہر کھیل میں جیتے اور اس کے کھلاڑی ہر کھیل میں اپنے ملک کا نام روشن کریں، میڈیا کے پروپیگنڈے سے متأثر نہ ہوں، آج کل ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے اس میں دکھلایا گیا ہے کہ کسی ایک بڑے ہال میں سینکڑوں ڈاڑھی ٹوپی اور کرتے پاجا مے والے لڑکے اور عمر رسیدہ لوگ جمع ہیں، سامنے دیوار پر ایک بڑی اسکرین پر کھیل کے مناظر دکھلائے جارہے ہیں اور وہ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر خوشی سے بلیوں اچھل رہے ہیں اس ویڈیو کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ یہ بمبئی کے میرا روڈ کی مسجد کا منظر ہے، اے بی پی نیوز نے اس کا سچ جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ میرا روڈ بمبئی میں اس طرح کی کوئی مسجد ہے ہی نہیں، ویسے بھی الحمد للہ ہماری مسجدوں میں اس طرح کی خرافات کا کوئی گزر نہیں، معلوم ہوا کہ یہ منظر پاکستان کے کسی شہر کا ہے اور وہاں پاکستانی ٹی وی کے اسپورٹ چینل کی نشریات دیکھی جارہی ہیں، در اصل کچھ گروپ کسی نہ کسی بہانے ہندومسلم منافرت پھیلا کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں، برادران وطن کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے، اور مسلمانوں کی حب الوطن کو شک کے دائرے میں لانے سے گریز کرنا چاہئے، ویسے ہماری دلی تمنا یہ ہے اور دُعا بھی ہے کہ ہندوپاک کے درمیان کبھی کوئی کھیل نہ ہو، حکومتیں اور کھلاڑی تو ان کھیلوں کے ذریعے نفع کماتے ہیں اور عوام بیچارے اپنی جانیں گنواتے ہیں، اب جنگ کا یہ کھیل یا کھیل کی یہ جنگ ہمیشہ کے لئے ختم ہی ہوجائے تو بہتر ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں