نتیش کمار کی ہوئی گھر واپسی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

نتیش کمار اس مہا گٹھ بندھن کا حصہ تھے، جس نے بہار میں مودی کاوجے رتھ روک دیا تھا۔ جبکہ اس الیکشن کو جیتنے کےلئے بھاجپا نے پوری طاقت جھونکی تھی۔ بہار کی جیت نے میڈیا میں خوب سرخیاں بٹوریں اور نتیش ملک کی نئی امیدبن کر ابھرے۔ بہار کے بعد ہونے والے صوبائی انتخابات میں بہار ماڈل کو اپنانے کی خوب باتےںہوئیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ گئے کہ حزب اختلاف میں نتیش ہی ایسے رہنما ہیں جن کی قیادت میں 2019 کا الیکشن لڑا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نتیش کمار کا اچانک لیا گیا فیصلہ جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم ہے یا اس کی اسکرپٹ پہلے ہی تیار کی جاچکی تھی ،صرف صحیح وقت کے آنے کا انتظار تھا۔جو لالو ےادو کے خاندا ن پر لگے کرپشن کے الزامات نے نتےش کمار کو گھر واپسی کا موقع دے دےا۔
بہار کے اسمبلی انتخاب کے دوران سوال اٹھا تھاکہ مہا گٹھ بندھن کتنے دن چلے گا؟ جواب میں پانچ سال چلنے کی بات کہی گئی تھی۔ بیچ میں کئی مواقع ایسے آئے ،جب اس گٹھ بندھن میں درار آنے کا شک ہوا، لیکن لالو یادونے اسے سنبھالے رکھا۔ لالو اور نتیش دونوں لوہیا، جے پی آندولن سے نکلے سماجوادی کنبہ کے فرد ہیں۔ اسے اتفاق ہی کہئے کہ زیادہ تر سماجوادی بھاجپا کا حصہ بن چکے ہیں۔ خود نتیش کمار سترہ سالوں تک این ڈی اے کا حصہ رہے۔ بہار میں بھاجپا کے ساتھ مل کر حکومت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں لالو کا ساتھ راس نہیں آرہا تھا ےا پھر وہ لالو یادو پر سرکار بنائے رکھنے کا دباﺅ بناکر رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوںنے بی جے پی سے نہ کبھی دوری بنائی اورنہ ہی اس کی کسی پالیسی پر اعتراض کیا۔ اس وقت بھی نہیں جب پورا دیش نوٹ بندی کی وجہ سے پریشا ن تھا۔ سنگھ کے سینئر لیڈر کے این گووند اچاریہ نے نوٹ بندی پر سخت تنقید کی تھی لیکن نتیش کمار مودی سرکار کے اس قدم کی تعریف کررہے تھے۔ پٹنہ صاحب گردوارہ میں مودی نتیش کی ملاقات کے بعد سے بہار کی سیاست کے بدلنے کااندازہ لگایا جارہا تھا۔ صدر جمہوریہ کے الیکشن میں نتیش کمار کے رویہ سے بدلاﺅ کے آثار نظرآنے لگے تھے۔
نتیش کمار کا استعفیٰ ،بلاتاخیراس کی منظوری اوراس کے فوراً بعد کرپشن کے خلاف لڑائی میں ساتھ جڑنے کےلئے نریندر مودی کی مبارکباد، صرف دو گھنٹہ میں بی جے پی کی حمایت اور جے ڈی ےو ،بھاجپا کے ارکان قانون سازیہ کا مشترک لیڈر نتیش کمار کو بنانے کا اعلان، رات ہی میں نئی حکومت سازی کا دعویٰ اور صبح صبح ہی حلف برداری۔ سب کچھ پہلے سے طے ہونے کے شک کو تقویت پہچاتا ہے۔ سشیل کمار مودی نائب وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے 13-13 ممبران کو وزیر بنانا طے ہوا ہے۔ حلف لینے کا وقت جلدی جلدی میںپہلے شام پانچ بجے طے ہوا تھا لیکن بعد میںاسے صبح دس بجے کردیاگیا۔ خبر یہ آرہی تھی کہ شرد یادو بیس بائس ممبران اسمبلی کو توڑ سکتے ہیں۔ حلف برداری کی رسم رکوانے کےلئے عدالت کا سہارا لےا جا سکتا ہے۔ شاید اسی لئے حلف لینے میں اتنی جلد بازی کی گئی۔
راشٹریہ جنتا دل کے بہار اسمبلی میں80،کانگریس کے27، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی(مالے)کے3، آزاد4، بی جے پی کے58اور جے ڈی یو کے71 ممبران ہیں۔ قاعدے میں آرجے ڈی ہاﺅس میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔ جے ڈی یو سرکار کے استعفیٰ دینے کے بعد اسے سرکار بنانے کا موقع دیا جانا چاہئے تھا۔ اس سے پہلے کہ گورنر کوئی فیصلہ لیتے، ان کے سامنے بی جے پی کی مدد سے سرکار بنانے کا دعویٰ پیش کردیا گیا۔ پھر بہار میں گورنر بھی وہ صاحب ہیں جو بھاجپا کی توسیع پسند پالیسی میں یقین رکھتے ہیں۔ انہوںنے تو مغربی بنگال میں بھاجپا کے پیر جمانے کےلئے عہدے کا بھی خیال نہیں کیا اور ریاستی سرکار کی ناک میں دم کردیا۔
استعفیٰ کے بارے میں پوچھے جانے پر نتیش کمار نے میڈیا سے کہا کہ انہوںنے کرپشن کے خلاف ضمیر کی آواز پر اخلاقی ذمہ داری کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکاربنانے کے بارے میں انہوںنے بتایاکہ اس سے ریاست کی ترقی ہوگی ان کایہ فیصلہ عوام کے حق میں ہے۔ آئےے ان دونوں باتوں کا جائزہ لیا جائے۔ پہلی یہ کہ کرپشن کے خلاف نتیش جی نے ضمیر کی آواز سنی۔ ضمیر کی آواز سننااور اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کرسی چھوڑ دینا بہت ہمت کا کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ جیتن رام مانجھی اب ان کے ساتھ وزیر ہوںگے تو کیا نتیش جی نے ان کی ایمانداری چیک کرلی ہے۔ یاد دلا دیں کہ جب وہ وزیر ریل تھے تو ریلوے میں کئی بڑے حادثے ہوئے تھے تو کیا اس وقت انہوںنے اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کی تھی۔ بہار میں باڑھ کے دوران ہزاروں لوگ بے گھر اور برباد ہوگئے تھے تو کیا اس وقت اخلاقی ذمہ داری کا انہیں احساس ہوا تھا۔ رہا سوال صوبے کی ترقی اور لوگوں کے حق میں فیصلہ لینے کا توآنے والا وقت اس کو بتادے گا۔
دراصل نتیش کمار کے اس قدم کا2019 سے سیدھا تعلق ہے۔ حزب اختلاف کا پارلیمانی انتخاب کےلئے و فاق تیار ہو رہا تھا۔ اس کودھکا لگا ہے۔ ایسا مانا جارہا تھا کہ یوپی میں سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس مل کر لڑیںگے تو 40-50 سےٹےںحاصل کرلیںگے۔ وہیں بہار میں مہا گٹھ بندھن کو 30-35 سیٹیں مل جائیںگی۔ راجستھان،مدھیہ پردیش اور گجرات میں کانگریس کے کچھ بہتر کرنے کی امید ہے۔ اس طرح 2019 میں این ڈی اے کو سخت ٹکر دی جاسکے گی۔ نتیش کمار کے مہا گٹھ بندھن سے ناطہ توڑنے کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور حزب اختلاف کےلئے مشکلیں بڑھیںگی۔ نتےش کمار تجربہ کار سےاست دا ں ہےں اور وہ بی جے پی کی پے در پے کامےابےوں کو دےکھ رہے ہےں ۔جس وقت انہوں نے مودی کے نام پر خود کو بھاجپا سے الگ کےا تھا اس کے پےچھے ان کی وزےر اعظم بننے کا لالچ اور اقلےتی ووٹوں کی فکر تھی۔ موجودہ حالات مےں انہوں نے محسوس کےا ہوگا کہ کوئی مضبوط مہا گٹھ بندھن 2019کےلئے اےسا بننے والا نہےں ہے جو بھاجپا کو چنوتی دے سکے ۔اگر بن بھی گےا تو ےہ ضروری نہےں کہ عوام اسے قبول بھی کرے اس لئے انہوں نے سوچا ہوگا کہ اگر وزےر اعلیٰ ہی رہنا ہے تو کےوں نہ اےسی پارٹی کے ساتھ رہا جائے جو اگلی مےقات مےں بھی انہےں وزےر اعلیٰ بنوا سکے ۔ اب اگست میںہونے والی لالو پرساد یادو کی ریلی پر اب سب کی نگاہیں ٹکی ہیں کہ اس میں اپوزیشن کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ بہار کے عوام نے نتیش اور لالو کو بھاجپا کے خلاف چنا تھا۔ اب وہ عوام کے درمیان جاکر کیا کہیںگے۔ کیا یہ عوام کے جذبات سے کھلواڑ نہیں ہے۔ کیا سیاست دانوں کی اسی حرکت کی وجہ سے عوام کا ان سے بھروسہ اٹھا ہے۔ لوگوں نے ذات، برادری، مذہب سے اوپر اٹھ کر ان کا ساتھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ سیمانچل کے لوگوںنے توایم آئی ایم کے امیدوار وں کو بھی مستردکر دیا تھا۔ اگر عوام کو اپنا فائدہ بی جے پی کے ساتھ لگتا تو پھر وہ اسی کو چنتے۔ مہاگٹھ بندھن کو ووٹ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ جے ڈی یو کے ممبران اسمبلی اپنے حلقہ میں جاکر بی جے پی کے ساتھ جانے کے بارے میں کیا کہیںگے؟ بھاجپا تو زیادہ سے زیادہ ریاستوں میں اپنی سرکار چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے منصوبہ کو بروئے کار لاسکے۔ ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کے سپریمو موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مودی ہندوراشٹر کے سچے علمبردار بن کر ابھرے ہیں۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ وہ ایک بڑے مشن کےلئے کام کررہے ہیں۔ مشن یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریاستوں پر مرکز کی پکڑ مضبوط ہو ےا پھر رےاستےں مرکز کے سامنے دست نگر رہےں اسی کےلئے جی اےس ٹی کو لاگو کےا گےا ہے ۔ساتھ ہی ےہ بھی اےجنڈا ہے کہ رےاستوں مےں سرکار ہونے پر وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ دستور بدل کر ہندو راشٹر کے ایجنڈے پر عمل کرسکےں جنوب کی رےاستوں نے ہندو تو (برہمنےت ) کو کبھی قبول نہےں کےا لےکن وہ بھی ہندو راشٹر کے نام پر بھاجپا کے ساتھ دکھائی دے رہی ہےں۔ نام نہاد سیکولر لوگوں کی مفاد پرستی کی وجہ سے ہی بھاجپا اتنی مضبوط ہوئی ہے۔ اس میں نتیش کمار جیسے سیاستدانوں کے رول کا بھی بڑا دخل ہے۔
بہار میں سیاسی اتھل پتھل اس وقت ہوتی ہے جب ملک کا آدھا حصہ باڑھ سے متاثر ہے۔ چین کے ساتھ سرحد پر تناﺅ ہے۔ پاکستان بار بار سیز فائر کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ ملک میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے اور بھیڑ کے ذریعہ دلتوں اور اقلیتوں پر حملے ہورہے ہیں۔ باڑھ اور بارش کی وجہ سے فصلیں برباد ہورہی ہیں اور کسانوں کے احتجاج جاری ہیں۔ سرکار ایک طرح سرحدوں کو لے کر پریشان ہے تودوسری طرف مہنگائی ،ساری کوششوں کے باوجود کسانوں کی بے چینی دور نہیں ہوپارہی ہے۔ بھاجپا ملک کے حالات پر فکر مند ہونے کے بجائے توسیع پسندی پر زور دے رہی ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب پورے ملک اور تمام پارٹیوں کو ایک جٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ اب نتیش کمار کو یہ سوچنا ہے کہ انہوںنے کس کے حق میں فیصلہ لیا ہے ملک کے، بہار کے یا اپنے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں