سیلاب سے بے حال لوگوں کا ایک بڑا سوال، حکومت اور تنظیم بڑے شہروں سے دلچسپی لیتی ہیں لیکن بہار سے کیوں نہیں؟ آخر بہار سے اتناسوتیلا پن کیوں؟

ملت ٹائمز ،محد قیصر صدیقی

سیلاب نے بہار میں جو تباہی مچائی ہے اور خاص طور پر ارریہ ضلع کو تباہ کر دیا ہے اور واهاں کے عوام کی پریشانی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، ہر چھوٹے بڑے پل ٹوٹ چکے ہیں، سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں، فون سروس ختم ہو چکا ہے، کافی دنوں سے بجلی غائب ہے، دکانیں بند پڑی ہوئی ہیں، کھانے پینے کے سامنے وہاں کے لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے،

اور اگر مل بھی جائے تو جیب میں اتنے پیسے نہیں ہیں جن سے وہاں کے عوام خریداری کر اپنی پیٹ کی آگ بجھا سکے چولہے میں آگ کی جگہ پانی دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے بچے بھوک سے بے حال ہیں، ماں اور بہنوں کے جسم پر اتنے کپڑے نہیں ہیں جن سے آپنی جسم کو ڈھنك سکے، پلتے ان بچوں کے لئے اتنا بھی دودھ نہیں ہے جو انہیں پلایا جا سکے،

انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے اب تک بہار میں سیلاب سے 60 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں یہ تو ان مردہ  افراد کی تعداد ہے جن کا شمار کیا گیا ہے لیکن کچھ لوگ تو اسی پانی کے بہاؤ کے ساتھ نہ جانے کہاں بہہ گئے یہ تو خدا کو ہی معلوم ہے اور جتنے لوگ اب بھی موجود ہیں وہ تو بےموت مر رہے ہیں لہذا ان کے پاس رہنے کے وہ تمام چیزیں جو ضروری ہوتی ہیں وہ کھو چکے ہیں سیلاب اسے اپنا لقمہ بنا چکی ہے، لیکن بہار حکومت کی جانب سے اب ت کوئی انتظام نہیں کیا جار ہا، یہ سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے

لیکن گزشتہ دنوں ایک خبر کانوں میں پڑی تھی کہ بہار کے وزیر اعلی ہیلی كپٹر کے ذریعے ان علاقوں کا دورہ کئے ہیں جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے بھلا بتلائے کہ ہواؤں میں اڑنے سے پانی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کا کیا بھلا ہو سکتا ہے بھلا تبھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ان کے کھانے کے لئے سامان دیا جائے، پہننے کے لئے کپڑے دیے جائیں، اور رہنے کے لئے اب اگر کچھ کر سکتے ہیں تو کم از کم اتناپلاسٹك ہی دیں دے جن سے وہ اپنے سر چھپا سکے کیوں کہ نیچے کے پانی کے ساتھ اوپر سے پانی کا سیلاب ہے لہذا بھائیوں آپ سے درخواست کرتا ہوں کے اس خبر کو جتنا ہو سکے توسیع کریں تاکہ ہمارے اور آپ کی وجہ سے پریشان بھائیوں کی زندگی بچ سکے