عدالت عظمی میں مودی حکومت کو ایک اور شکست کا سامنا ،رائٹ ٹوپرائیویسی معاملے پر سرکاری موقف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ

نئی دہلی(ملت ٹائمزعامر ظفر)
سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے آج کہاکہ بنیادی حقوق، یعنی رائٹ ٹو پڑائیویسی بنیادی حقوق کا حصہ ہے ، نو ججوں کی بینچ نے 1954 اور 1962 کے فیصلے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ رائٹ ٹو پرائیویسی بنیادی حقوق کے تحت دی گئی زندگی کے حق کا حصہ ہے، یہ بنیادی حقوق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت آتے ہیں، اب عوام کی ذاتی معلومات عوامی نہیں ہوگی، تاہم آدھار کارڈ کو منصوبے کے ساتھ جوڑنے کیلئے پانچ ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گی ۔
اس معاملے میں، عرضی گزار اورسینئر وکیل پرشانت بھوشن عدالت سے باہر آنے کہ بعد کہاکہ عدالت نے رائٹ ٹو پرائیویسی کو ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیاہے اور کہاہے کہ یہ آرٹیکل 21 کے تحت آتا ہے،تاہم آدھار کارڈ کے تعلق سے کورٹ نے کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے ، آدھار کارڈ کا معاملہ5 ججوں کی بینچ کو بھیجا گیا ہے، بھوشن نے کہا کہ اگر حکومت ریلوے یا ایئر لائن بکنگ کے بارے میں معلومات طلب کرتی ہے تو ایسی صورت حال میں شہریوں کی رازداری کا حق سمجھا جائے گا۔
این ڈی ٹی وی کی رپوٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر کل 21 درخواستیں دائر کی گئی تھیں،کورٹ نے 7 دن کی سماعت کے بعد 2 اگست کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا، 1950 میں 8 ججوں اور1962 میں 6 ججوں کی بینچ نے یہ فیصلہ دیاتھا کہ رائٹ ٹو پرائیویسی بنیادی حق یعنی فنڈا مینٹل رائٹ نہیں ہے، سپریم کورٹ کی بینچ میںچیف جسٹس جے ایس کھیر، جسٹس جے چےلامےشور، جسٹس اے آر بوبڈے، جسٹس آر کے اگروال، جسٹس روہنگٹن نریمن، جسٹس ابھے منوگر سپرے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس عبدالنذیر شامل ہیں۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں ججوں نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ بیڈر وم میں ہوں تو یہ ‘پرائیویسی کا حصہ ہے، ایسی صورت حال میں، پولیس میرے بیڈروم میں داخل نہیں ہوسکتی، ہاں اگر میں بچوں کو اسکول بھیجتا ہوں تو یہ پرائیویسی کے تحت نہیں آتا ہے، کیونکہ یہ”رائٹ ٹو ایجوکیشن“ کا معاملہ ہے، کورٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ آپ بینک کو اپنی معلومات دیتے ہیں، اپنے ڈیٹا کوہیلتھ انشورینس اور قرض کے لئے دیتے ہیں، یہ سب قانون کے تحت ہے،یہ چیز ٹھیک نہیں ہے،آج کی ڈیجیٹل دنیا میں ڈیٹا کی حفاظت بہت اہم مسئلہ ہے ، رائٹ ٹو پرائیویسی کے تحت ڈیٹا کو محفوظ رکھنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے ، حکومت کی طرف سے رائٹ ٹو پرائیویسی کو ختم کرنے کی یہ ایک پالیسی ہے۔
عدالت نے کہامیں ایک جج کے طور پر مارکیٹ جاتا ہوں اور آپ ایک وکیل کے طور پر مال میں جاتے ہیں،ٹیکسی مجموعی طور معلومات کو استعمال کرتے ہیں،رائٹ ٹو پرائیویسی مکمل طور پرمحفوظ نہیں ہے،حکومت کو رائٹ محفوظ رکھنے کے حق میں ڈیٹا کا تحفظ فراہم کرنا ہے،رائٹ ٹو پرائیویسی خود مکمل نہیں ہے،حکومت کو مناسب پابندیاں عائد کرنے سے روکا بھی نہیں جاسکتا، کیا سرکار کے پاس ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کیلئے کوئی مضبوط نظام ہے ؟ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ میرے ٹیلی فون یا ای میل کو سروس فراہم کرنے والے کے ساتھ کیوں شیئر کیا جائے؟ جب فون میرے ٹیلی فون پر آتا ہے تو اشتہارات بھی آتے ہیں، لہذا میرا موبائل نمبر سروس فراہم کرنے والے کے ساتھ کیوں ہونا چاہئے؟ کیا مرکزی حکومت کے پاس ڈیٹا کی حفاظت کے لئے ایک ٹھوس نظام ہے؟ تفصیلات کی حفاظت کے لئے حکومت کے پاس ایک ٹھوس سسٹم ہونا چاہئے۔
کورٹ نے کہا، ہم جانتے ہیں کہ حکومت فلاحی منصوبوں کے لئے ذاتی معلومات جمع کرہی ہے، لیکن یہ بھی یقینی ہونا چاہئے کہ ڈیٹا محفوظ رہے،کیا عدالت رازداری کی وضاحت کرسکتی ہے؟ آپ یہی کیٹلوگ نہیں بنا سکتے کہ کن عناصر پر مشتمل پرائیویسی بنتی ہے، رازداری کا سائز بہت بڑا ہے کہ وہ ہر مسئلے میں ملوث ہے، اگر ہم پرائیویسی کی فہرست سازی کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔
اگر رائٹ ٹو پرائیویسی آئین میں شامل ہے تو اسے کہاں ڈھوندھیں،؟ ہمارے ساتھ دقت یہ ہے کہ کیا اسے ایک سے زیادہ آئین کے دفعات میں تلاشا جائے؟ اس آئین کے آرٹیکل 21 میں اسے تلاش کم تکلیف دہ ہوگا، لیکن اگر یہ آرٹیکل 19 میں ہے، تو ہمیں معلوم کرنا ہوگا کہ یہ کس کے اعتبار سے ہے اور کہاں درست ہے ، مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل (AG) کےکے وینو گوپال نے دلیل دی کہ پرائیویسی کو مکمل طور بنیادی حق نہیں سمجھا جا سکتا، اگرچہ کورٹ کو پرائیویسی کی درجہ بندی کرنی چاہئے اور اس کے کچھ حصوں کو بنیادی حقوق کے تحت تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
اے سی جی تشتار مہتا نے کورٹ کو بتایا کہ یہ ڈیٹا مکمل طور پرمحفوظ ہیں،، ڈیٹا پروٹیکشن کو لے کر حکومت قانون لا رہی ہے اور اس کے لئے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی ہے۔