ایک زمانہ تھا جب فلموں میں کام کرنا یا فلموں سے وابستگی رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور ہمارے ہندوستانی معاشرے میں ایسے لوگوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتاتھا، جو کسی طور سے فلموں سے تعلق رکھتے ہوں۔ بیسویں صدی کی اس عظیم ایجاد سے اس قدر نفرت یا بے تعلقی کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی، بلکہ ہمارے معاشرے کا نظام اور اس کی اخلاقی قدریں ایسی ہی تھیں کہ ہمارے سماج کا ایک بڑا طبقہ سنیما کو معیوب سمجھتا تھا۔ 1931سے باقاعدہ مکالماتی سنیما کا آغاز ہوجانے سے اس طرف لوگوں کی توجہ آہستہ آہستہ بڑھنے لگی اور پھر جب رنگین فلموں کا دور شروع ہوا تو لوگوں میں اس فن سنیما گری کی طرف رجحان زیادہ ہی بڑھ گیا، اور آج یہ عالم ہے کہ فلمیں ہماری زندگی کا ایک ضروری حصہ بن گئی ہیں۔
آج سنیما انسانی جذبات اور اس کی سوچ کا ایک زبردست ذریعہ بن چکاہے۔ اپنے ابتدائی دور سے ہی سنیما کے مختلف شعبوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی جو یا تو باکمال تھے یا گہری سوچ رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں نے نہ صرف یہ کہ اچھی فلمیں بنائیں بلکہ نئے عہد کے اس سب سے بڑے اور طاقتورمیڈیا میں نت نئے تجربات کرکے اس فن کو آج اس مقام پر پہنچادیاہے کہ سنیما ہمارے معاشرے کا آئینہ اور لازمی حصہ بن گیا۔ آج ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہورہاہے، اس کی بہترین عکاسی ہماری فلموں میں کی جارہی ہے اور وہی سب کچھ ہمارے معاشرے میں بھی اپنی جڑیں گہری کرتی جارہی ہےں۔ عریانی، تشدد، بے راہ روی، رشتوں کی توڑ پھوڑ، کرپشن، سیاست کے نام پر غنڈہ گردی، بے ایمانی اور نت نئے گھوٹالے وغیرہ کے منفی اثرات بہت حد تک فلموں کے ذریعہ ہمارے معاشرے پر پڑے ہیں اور جس تیزی سے اور جتنے بڑے پیمانے پر مرتسم ہوئے ہیں، اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی بہت سی فلمیں تجارتی نقطہ¿ نظر سے کافی کامیاب بھی رہی ہیں۔
فیچر فلم ایک ایسا میڈیم ہے جو دیکھنے والے کے مزاج، طبع اور اس کی نفسیات پربراہ راست اثر ڈالتی ہے اور اس کے اثرات کی گہرائی اور گیرائی کہاں تک ہے، اس کا دارومدار ہر انسان کی اپنی ذہنی اور دماغی کیفیت پر ہے، لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ جس ملک اور جس خطے میں فلموں میںجیسے رجحانات کی عکاسی کی جائے گی، وہاں کے کلچر اور تہذیبی اقدار پر بھی ویسے ہی اثرات مرتب ہوں گے۔ فلم جیسے ذریعہ¿ ابلاغ کا رول اس لحاظ سے دوسرے میڈیا سے زیادہ اثرانداز اور ہمہ گیر ہے کہ یہ ڈھائی تین گھنٹے تک تماشائی کو مصروف رکھتاہے اور ہمہ تن گوش ہوکر اپنے بنائے ہوئے جال میں الجھائے ہوئے رکھتاہے۔ اس صورت حال کا انتہائی خطرناک پہلو یہ ہے کہ آج کل فلموں میں تشدد، مار کاٹ، قتل وغارت گری اور عریانیت کو نہ صرف کہانی کا موضوع بنایاجارہاہے بلکہ اسی قسم کے جرائم کی وارداتوں کو فلم میں لمحہ بہ لمحہ اس انداز سے دکھایاجارہاہے کہ کوئی بھی انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں میں تشدد اور عریانیت کے رجحانات افسوسناک حدتک تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں اوراس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان رجحانات سے نوجوان طبقہ، بلکہ کم عمر طبقہ اس سے زیادہ سے زیادہ اثر لے رہاہے اور اس طرح ان ممالک کی ثقافت اور تہذیب میں تشدد اور عریانی کا رجحان رچ بس گیا ہے۔ ہمارے یہاں بھی آزادی سے قبل بہت کم فلم ساز تھے، مگر ان میں معاشرے کے لیے ایک ذمہ داری تھی، ایک جذبہ تھا کہ ہم ایسی فلمیں بنائیں جن میں اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی پیغام ہونا چاہیے، چاہے ہماری فلم پر لگائی گئی رقم ہی کیوں نہ ڈوب جائے۔ اب یہ نظریہ بدل گیاہے۔ آج کا فلمساز صرف اپنا منافع دیکھتاہے۔ چاہے معاشرے میں غلاظت کے ڈھیر ہی کیوں نہ لگ جائیں۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد55برسوں میں ہماری فلمی صنعت مخصوص کلچر سے جڑی ہونے اور اپنے وسائل پر انحصار کرنے کی وجہ سے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتی رہی ہے۔ 1950کے بعد ہمارے سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کی پیچیدگی، روایات، ذات پات، نسل اور مذہب، عصری جدید طاقتوں کے ٹکراﺅ اور بدلتی ہوئی شہری اور درمیانہ طبقے کی قدروں اور رویوں کا عکس بہت حد تک ہمارے سنیما میں دکھائی دیتاہے۔ اس وقت کے فلم ساز وہدایت کار معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی محسوس کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے پانچویں، چھٹی دہائی تک اور کسی حدتک ساتویں دہائی کے نصف تک ہمارے سنیما نے سماج کو بہترین فلمیں پیش کی ہیں۔ بمبئی میں سہراب مودی، وی شانتا رام، محبوب خان، بمل رائے، کمال امروہی، خواجہ احمد عباس، گرودت، بی آرچوپڑہ اور یش چوپڑہ وغیرہ نے معاشرے کو تہذیب وثقافت سے سجی ہوئی اور غریبی اور استحصال پسند سماجی نظام کی خرابیوں کو اجاگر کرتی ہوئی فلمیں پیش کیں، وہیں کلکتہ میں نیو تھیٹرز نے پی سی براو کی دیوداس جیسی بہت سی کلاسیکل فلمیں تیار کیں۔ ستیہ جیت رے نے پاتھیرپانچالی، اپراجیتو اور اپورن سنسار جیسی فلموں کے ذریعہ فلمساز کا ایک الگ روپ پیش کیا۔ ہندوستانی سنیماکو نئی جہت بخشنے والے اس عہد کے فلمساز گرودت نے فلم ”پیاسہ “اور ”کاغذ کے پھول“ جیسی فلموں میں رومانیت، المیہ اور شاعری کا حسین امتزاج پیدا کرکے معاشرے پر مثبت اثرات قائم کرنے میں بہترین کردار ادا کیاہے۔ اسی دوران محبوب خان کی فلم مدر انڈیا نے ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیااور ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کی سوچ معاشرے کو دی، جس میں نہ صرف جدید ٹکنالوجی کو اپنانے کی بات کہی گئی ہے بلکہ کسانوں کے تعلق سے ایک نئے نظام کی نوید بھی سنائی دیتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ 70کی دہائی تک بامقصد سنیما کے مثبت اثرات ہمارے سماج پر بھی دکھائی دے رہے تھے۔
70کی دہائی ہی سے ہماری فلموں کی ترجیحات میں تبدیلی رونما ہوئی اور جرائم پر مبنی موضوعات کو نہایت تڑک بھڑک اور گلیمر کے ساتھ پیش کیا جانے لگا۔ تشدد اور عریانیت کی راہ پر ہماری فلمیں گامزن ہوگئیں۔حالانکہ فلموں میں فحاشی اور عریانیت کا الزام صرف ہیروئینوں کو ہی نہیں دیا جاسکتا، اس کے ذمہ دار فلم ساز وہدایت کار اور ڈسٹری بیوٹرز وغیرہ بھی اتنے ہی ہیں، اور وہ فلم بین طبقہ بھی جوان فلموں کو بڑی تعداد میں دیکھ کر ان کی سرپرستی کرتاہے اور وہ بھی جو ایسی فلموں کو سخت ناپسند کرتے ہیں، مگر ان کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا عریانی اور تشدد کے ساتھ ہی ہماری فلموں کا موضوع جرائم پر مبنی کہانیوں کے اطراف میں طواف کرنے لگا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تکنیکی سطح پر ہمارے سنیما نے جتنی ترقی کی ہے، معیاری سنیما اس سے کہیں زیادہ پیچھے چلا گیاہے اور ہمارے معاشرے پر سب سے طاقتور میڈیا کی منفی اثرات غالب آتے جارہے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری نئی نسل کے فلمسازاور ہدایت کار معیاری ادب کا مطالعہ کرکے اپنی فلموں کے موضوعات طے کریں اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو دل سے محسوس کریں، جس کا معاشرے پر مثبت اثرپڑے۔
ریسرچ اسکالر ، ڈی ۔یو
نئی دہلی
hrazadu@gmail.com