سلیم شوق پورنوی
اگر یہ کہا جائے کہ سال رواں ہندوستانی عوام کے لیے سیاسی شعبدہ بازیوں میں پھنسائے جانے اور سیاسی مداریوں کے لیے سیاسی بندر نچانے کا سال رہا تو اس میں نہ کوئی مبالغہ اور نا ہی جھوٹ ۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سال 2017 مختلف طبقات کے لیے مختلف حیثیت کا حامل رہا ، سیاسی جماعتوں کے لیے ووٹ بینکنگ ، تاجروں کے لیے خسارے ، کسانوں کے لیے جانی و مالی نقصان، ٹی وی چینلز کے لیے ٹی آر پی ، اینکروں اور صحافیوں کے لیے ڈر و خوف ، اقلیتوں کے لیے مایوسی ، امت ساہ کے بیٹے جئے ساہ کے لیے نفع اور گئو رکشک غنڈوں کے لیے غنڈہ گردی کا سال رہا ۔
سال رواں کا آغاز لائنوں میں لگے غریب عوام کی اموات سے ہوا ، اس کے بعد انہی گھسے پٹے بیجا سوالات بلکہ الزامات و اتہامات کو لے کر سال رواں کا کارواں آگے بڑھا جو کہ کئی سالوں سے مسلسل کیے جارہے ہیں ، اور کیے کیا جارہے ہیں؟ بس ہندوستانی مسلمانوں کے سر زبردستی ڈالے جارہے ہیں ، کہ قومی ترانہ کے نام پر مسلمان شرکیہ کلمات کیوں نہیں کہتے؟
اس کا مطلب ہے شرکیہ الفاظ نہ کہنے والا ہر بھارتی پاکستانی ہے، کم ازکم پکا ہندوستانی تو نہیں ہے ۔
دیش بھکتی کے سرٹیفکٹ بانٹنے والے چند سیاسی مداریوں اور گودی اینکروں نے ٹی وی شوز پر “ترانہ” کے نام وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ سنجیدہ سیکولر عوام بھی چکرا گئے ،اور اپنے برادران وطن پر شک کرنے لگے ۔
ابھی اس پر سوال و جواب ہو ہی رہے تھے کہ یکا یک ” طلاق ثلاثہ” کے نام سے بی جے پی سرکار کی بوتل کا جن باہر آیا اس نے بھی کافی لوگوں کے دماغ خراب کیے، تا آں کہ یوپی الیکشن کا بھوت لوگوں کے اعصاب سوار ہوا ، اس نے بھی اپنی بساط کے مطابق ہر سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو پریشان کیے رکھا یہاں تک کہ رام مندر کی بلی تھیلے سے باہر آگئی ، اس نے جو ہڑکمپ مچایا وہ کچھ اور ہی کیفیت کا تھا ،پھر اس کے پردے کے پیچھے سے کئی بنیے سامنے آئے جن میں وسیم رضوی اور شری شری روی کے چہرے بھی دکھے ۔
پھر یکا یک “گئو رکشا” کے نام پر انسانی شکل میں کچھ درندے جنگل سے سڑکوں پر نکل آئے انہوں نے اقلیتوں کا خوب خون پیا اور ابھی تک پی رہے ہیں، انہوں نےجمہوریت کا گلہ اتنا کس کر گھونٹا کہ سیکولر عوام بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئے ،
ابھی تھیلی سے بلی اور بوتل سے جن نکلنے کا سلسلہ جاری تھا کہ یک بیک روحانی بابا کی صورت میں ایک بھیڑیا دبوچ لیا گیا ، جس کے بدلے میں کئی بے گناہ مارے گئے ، کئی صحافیوں کی گاڑیاں جلا دی گئیں اور بیچاری کچھ پولس بھی ماری گئیں ۔
ابھی ان تمام ایشوز پر بحث و مباحثے چل ہی رہے تھے کہ گورکھپور کے بی آر ڈی ہسپتال سے 80 معصوم بچوں کی لاشوں کا دھواں اٹھا جس کے حبس و گھٹن نے بہت سے سنجیدہ لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ،
پھر اس کے چند دن بعد ہی مدھیہ پردیش سے یہ خبر آئی کہ ہسپتال میں کئی مرداروں کے نصف سے زائد جسموں کو کتوں نے کھا لیا اور ڈاکٹروں کو پتا ہی نہیں چلا کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ،
ابھی یہ آگ پوری طرح بجھی بھی نہیں تھی کہ ایم پی سے ایک اور دل دہلانے والی خبر آئی کہ اشوک چوہان کے کتوں نے اپنے حقوق کی مانگ کرتے کسانوں کو بری طرح کاٹ لیا جس کی وجہ سے کئی لوگ جاں بحق بھی ہوگئے،
ابھی یہ سب خبریں چل رہی تھیں اور رونے والے رو ہی رہے تھے آنسو خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ ہٹلر کے نام سے شہرت پانے والے ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے ہٹلرانہ فیصلہ کردیا جو اب جی ایس ٹی کے نام سے لوگوں کو خون رلا رہا ہے ،
اسی بیچ کانوں نے یہ بھی سنا کہ امت ساہ کے بیٹےجئے ساہ کی کمپنی نے پچاس ہزار سے 80 کروڑ روپے کما لیے ، اس پر بحث ہونی تھی ، سوال اٹھائے جانے تھے مگر گودی میڈیا نے عوام کو اس پر سےتوجہ ہٹانے کے لیے امرناتھ یاترا کی جانب بحث کا رخ موڑ دیا پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، مسیحا رہزن ٹھہرایا گیا ، کئی ہندؤں کی جانیں بچانے والے ڈرائیور سلیم پر ہی شک کی سوئی گھومنے لگی جیسا کہ پہلے دانستہ ڈاکٹر کفیل پر گھمائی گئی تھی ۔
ہندوستانی سیاست اور گردو پیش کے احوال سے واقف کوئی بھی شخص یہی کہے گا کہ سال رواں ہندوستانی عوام اور بالخصوص اقلیتوں کے لیے انتہائی مایوس کن رہا،
آغاز جنوری سے آج 27 دسمبر تک ہندوستانی مزدور و درمیانی طبقے لوگ دکھ ، بھوک ، کرب ، بے چینی ، قتل و غارت گری اور ماب لنچنگ جیسے حادثات کی لپیٹ میں ہیں ،
کہنے کو تو سال رواں رواں دواں ہے اور کچھ ہی دنوں میں اپنا چکر پورا کرکے اپنی ڈیوٹی مکمل بھی کرلے گا ، مگر اس کے دامن پر جو داغ ہیں یا یوں کہہ لیجئے اس کی پیشانی پر منحوسیت کی جو نشانیاں ہیں وہ بہت جلدی بھلائی نہیں جاسکے گی ۔
بی جے پی حکومت کے بھی تین سال مکمل ہوگئے مگر جہاں اک طرف عوام لائنوں میں لگ کر اپنی جان گنواتے رہے وہیں دوسری طرف ہندوستانی حکومت ووٹ بینک بڑھاتی رہی ،
اک طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا تو دوسری طرف این ڈی اے کانگریس مکت بھارت کا ایجنڈا تیار کرتی رہی ،
اور کانگریس و دیگر ملکی اور صوبائی سطح کی سیاسی پارٹیاں اپنی روٹیاں سینکتی رہیں ۔
لائنوں میں کھڑے مفلوک الحال عوام کی کمریں ٹوٹتی رہیں ، بچے اسپتالوں میں سہولیات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے مرتے رہے، کسان اپنی محنت کی کمائی مانگتے مانگتے موت کے گلے لگتے رہے ، بے قصور مسلم نوجوان انسانی بھیڑیوں کے پنجہ استبداد میں پھنستے رہے ، عمر خان ، پہلو خان ، جنید خان اور افرازل کے پریوار خون کے آنسو روتے رہے اور ہندوستانی میڈیا ٹی آر پی بڑھاتا رہا ۔
سال رواں( 2017 ) کے آغاز سے تا ہنوز اب تک جتنے موضوعات پر بحث و مباحثے کرائے گئے ،
اور جتنے مسائل پر سیاسی و سماجی مبصرین نے اظہار خیال کیا ہے ان میں سے اکثر مسائل کی گھتیاں بظاہر سلگنا ناممکن سا ہے ، وجہ یہ ہے کہ ان مسائل اور ایشوز پر ہی بہت سی سیاسی جماعتوں کے سیاسی محل قائم ہیں، اور ٹی وی چینلز کی ٹی آر پی کی بنیادیں بھی ۔
ویسے امسال بہت سے ایشوز پر بحث و مباحثے ہوئے ، ان میں کچھ بحثیں تو بہت ضروری تھیں ، ضروری بحثوں پر بات جیسی ہونی چاہئے تھی ویسی تو نہ ہوسکی مگر اس کی جگہوں پر گائے کے گوبر و پیشاب پر خوب جم کر ڈبیٹس کیے گئے،
تین طلاق ، بابری مسجد رام مندر ، گئو رکشا ، قومی ترانہ کے پڑھنے نہ پڑھنے وغیرہ وغیرہ پر بھی خوب بحثیں کرائی گئیں، گودی اینکروں کے چیختے چیختے گلے پھٹ گئے،ہندوستانی عوام کے سنتے سنتے کان سن ہوگیے ، مبصرین و باحثین کے بولتے بولتے آنتے سوکھ گئے ۔
مگر جن موضوعات پر بحث ہونی چاہئے تھیں اور خوب ہونی چاہیئے تھیں ان پر بحث نہ ہونے کے برابر ہوئی بعض ٹی وی چینلز نے بحث کرائی بھی تو ان کی آواز نقار جانے میں طوطے آواز ثابت ہوئی
گورکھپور کے معصوم بچوں کی اموات ، مدھیہ پردیش کے ہسپتال کی لاشوں کو کتوں کے کھانے کے حادثات ، نوٹ بندی سے 100سے زائد بے گناہوں کے بینکوں کی لائنوں میں کھڑے کھڑے جانیں دینے کی سانحات ،
جی ایس ٹی سے تاجروں کے کاروبار ٹھپ کر دیئے جانے کے واقعات ، ہندو بنارس یو نیورسٹی میں پیش آئے حادثات ، بے گناہ مسلمانوں کے قتل وغیرہ ان پر بحث ہونی چاہئے تھیں ، ان پر یا تو بحث ہوئی نہیں یا ہوئی بھی تو نا کے برابر، وجہ صاف ظاہر ہے۔
(مضمون نگار دارالعلوم دیوبند کے جواں سال فاضل ہیں۔ ادب سے خصوصی دلچسپی ہے حالات حاضرہ پر مستقل لکھتے ہیں )