ہندوستان کے تاریک مستقبل کو جاننے کیلئے مزید کیا ثبوت چاہیئے ؟

خبر درخبر(538)
شمس تبریز قاسمی
ملک کی جمہوریت خطرے میں ہے ،آئین پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں،ملک کا دستور کبھی بھی تبدیل کی جاسکتاہے ،عدلیہ اب آزاد نہیں رہ گئی ہے ،ملک کی سب سے بڑی عدالت کے فیصلے بھی اب حکومت کے اشارے پر آرہے ہیں اس طرح کی باتیں اب تک عدلیہ سے باہر ہورہی تھی،دانشوارن ،مفکرین ،جرنلسٹ ،علماءاور ملک کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین قانون کہ رہے تھے لیکن اب سپریم کورٹ کے ججز نے بھی ملک کی عدلیہ پر سوال کھڑا کردیاہے ،عدالتی نظام میں حکومت کے دباﺅں کا اعتراف کیا ہے ، عوام کو انہوں نے یہ بتادیاہے کہ عدلیہ کی آزادی بھی اب محفوظ نہیں رہ گئی ہے ،جمہوری اصولوں کے مطابق عدلیہ کا نظام نہیں چل رہاہے ،ملک کی جمہوریت خطرے میں ہے اورہندوستان کا سیکولر ڈھانچہ بگاڑا جارہاہے ۔
پریس کانفرنس کرنے والے چاروںجج جسٹس چیلامیشور ، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس لوک±ر اور جسٹس کورین جوزف نے چار اہم باتیں کی ہیں (۱) سپریم کورٹ میں آنے والے سبھی اہم مقدمے صرف اسی بنچ میں جا رہے ہیں جس کے سربراہ چیف جسٹس دیپک مشرا ہیں۔ اس طرح دوسرے سینئر ججوں کی قیادت والی بنچوں کو اہم مقدمات اور معاملات سے دور رکھا جا رہا ہے۔(۲)چاروں ججوں کا کہنا ہے کہ ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں جب ان مقدموں میں چیف جسٹس نے منمانے طریقے سے بنچ کا انتخاب کیا جن کا وسیع پس منظر میں غلط اثر پڑ سکتا ہے اور ان کے دور رَس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ منمانے طریقے سے بنچ کا انتخاب کرنے سے کام کی نوعیت اثرانداز ہوتی ہے۔ ججوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے عمل کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے(۳)پریس کانفرنس کرنے والے چاروں ججوں کا اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ جج بی ایم لویا کی پراسرار موت کی جانچ کا مطالبہ کرنے والی بنچ کی سماعت کورٹ نمبر 10 کے سپرد کی گئی جب کہ چیف جسٹس کی قیادت کے بعد پہلی چار سینئر بنچوں کو یہ معاملہ نہیں سونپا گیا۔ (۴)میڈیکل کالج ایڈمیشن گھوٹالے کی جانچ والا معاملہ چیف جسٹس نے کورٹ نمبر 7 کو بھیج دیا جب کہ جسٹس چیلامیشور کی قیادت والی بنچ نے یہ معاملہ 5 ججوں کی اس بنچ کو بھیجا تھا جس میں جسٹس چیلامیشور کے علاوہ چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس گوگوئی، جسٹس لوک±ر اور جسٹس جوسف شامل تھے۔ میڈیکل ایڈمیشن گھوٹالے میں کچھ موجودہ اور کچھ سبکدوش ججوں کے شامل ہونے کا الزام تھا۔(۵) ججز نے یہ بھی کہاکہ چیف جسٹس کا ایک چھوٹی بنچ کی قیادت کرنا غلط ہے، کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کی بنچ میں 5 جج ہوا کرتے تھے۔ جسٹس دیپک مشرا پر اس سے قبل نومبر 2017 میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے بھی منمانی کرنے اور عدلیہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایاتھا۔

سپریم کورٹ کے خلاف بغاوت کرنے والے چار ججز

ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے جب سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز نے میڈیا کا سہارا لیاہے ،پریس کانفرنس کرکے عدلیہ میں چل رہی ہے گربڑی سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے کہاہے کہ عدلیہ میں جو کچھ چل رہاہے وہ ملک کے جمہوری نظام کیلئے بہتر نہیں ہے ،جسٹس جے چیلامیشور، رنجن گوگوئی، مدن لوک±ر اور کورین جوسف سپریم کورٹ کے بیحد سینئر ججز ہیں،چیف جسٹس کے بعد انہیں کا نمبر آتاہے ،یہ اگر عدلیہ کے موجودہ نظام سے تنگ آگئے ہیں ،چیف جسٹس منمانی کررہے ہیں ،کورٹ کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے بجائے اپنی مرضی چلارہے ہیں تو اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ،یہ صرف عدلیہ کی تاریخ کیلئے سیاہ دن نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور اس جانب اشارہ بھی ہے کہ ملک کی جمہوریت اور آئین کے بارے میں جن خطرات کا اظہار کیا جاتاہے وہ مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے ،ابھی صرف چیف جسٹس دیپک مشرا آر ایس ایس مائنڈ ہونے کی وجہ سے نظام بدل رہے ہیں اگر چند اور اسی ذہنیت کے پہونچ گئے تو آئین کے تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگے گا ۔
سپریم کورٹ کے ججز کی پریس کانفرنس کے بعد ملک کے سیکولر طبقہ بالخصوص مسلمانوں کو اچھی طرح بیدا ر ہوجا نا چاہیئے کہ اب وہ عدلیہ بھی آزاد نہیں ہے جس پر ہمارا مکمل اعتماد تھا،موجود ہ حکومت مقننہ ،انتظامیہ اور میڈیا کے ساتھ عدلیہ کی آزادی پر شب خون مارچکی ہے ،جمہوریت کا کوئی بھی ستون حکومت کے تصرف سے محفوظ نہیں رہ گیا ہے ۔
( کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com