خبر در خبر (657)
شمس تبریز قاسمی
کسی کا نام بدلنے سے اس کی اصلیت نہیں بدل سکتی ہے ۔ اگر کوئی شخص ایک بچہ کو گود لے لیتاہے تو وہ اس بچہ کیلئے سب کچھ بن سکتاہے لیکن اس کا حقیقی باپ کبھی نہیں بن سکتا ۔ یہی معاملہ تاریخ کا ہے ۔ تاریخ کبھی بھی نہیں بدل سکتی ہے ۔ نہ تاریخ میں کسی کی مرضی اور منشاء کا دخل ہوتا ہے ۔ یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آرہی ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ کسی عمارت اور کسی شہر کا نام بدلنے سے تاریخ بدل جائے گی ۔ یہ حقیقت ختم ہوجائے گی کہ مسلمانوں نے بھارت پر 800 سو سالوں تک حکومت کی ہے ۔ لال قلعہ ، تاج محل ، قطب مینار اور اس طرح کی سیکڑوں شاندار عمارتوں کو جنہوں نے بنایا ہے اس کی جگہ کسی اور کا نام لکھ دیا جائے گا اور لوگ اسے مان لیں گے ۔۔۔۔ اس گمان میں انہوں نے کئی عمارتوں اور شہروں کا نام بدلنے کے بعد آج ایک اور عمارت کا نام تبدیل کردیا ہے جو مغلوں کے نام پر تھا ۔ کیا ہے پورا معاملہ اور اب کس چیز کا نام تبدیل کیا ہے یوگی نے اور کیا برٹش ایمپائر کی طرح مغل بادشاہت بھی غلامی کا زمانہ ہے؟
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھارت کی تاریخ ، یہاں کی تہذیب اور ثقافت سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کیلئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ اقدام کرتے رہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کی تاریخ سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹ جائے ۔ تاریخ کا یہ چیپٹر مٹادیا جائے کہ بھارت پر آٹھ سو سالوں تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے ۔ پوری دنیا یہ بات بھول جائے کہ لال قعلہ ، تاج محل ، قطب مینار اور اس جیسی ہزاروں عمارتوں کے بنانے والے بادشاہ مسلمان تھے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ تاریخ اس طرح لکھی جائے کہ پہلے چند موریہ گپتا کا تذکرہ ہو ۔ اس کے بعد راجہ داہر کی حکومت کا ذکر ہو ۔ اس کے بعد پرتھوی راج چوہان کا اور پھر نریندر مودی کی حکومت کا تذکرہ کردیا جائے ۔ بیچ میں سبھی کو حذف کردیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت مین کبھی مسلمانوں نے حکومت نہیں کی ۔ محمد بن قاسم ، قطب الدین ایبک ، شمس الدین التمش ، رضیہ سلطانہ ، علاءالدین خلجی ، ابراہیم لودھی ، ظہیر الدین بابر ، ہمایوں ، جہاں گیر ، شاہ جہاں ، اورنگزیب عالمگیر ، بہادر شاہ ظفر اور ا س کے بعدانگریزوں کی حکومت، ان سبھی کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ کبھی یہاں کے حکمراں بنے ہی نہیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔ کیوں کہ یہ سوال ہر حال میں ہوگا اور ہر کوئی کرے گا کہ مسلمانوں ، مغلوں اور انگریزوں نے بھارت پر راج نہیں کیا تو پھر ایک ہزار سال تک یہاں کا راجہ اور بادشاہ کون تھا ۔ کس نے حکومت کی ، بھلے ہی سرکار ایسے سوال کرنے والوں کو دیش دروہی قرار دے دے لیکن سوال برقرار رہے گا ۔ اسی طرح کسی عمارت اور شہر کا نام بدلنے سے تاریخ نہیں بدلے گی ۔
یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے آگرہ کے قریب ایک میوز یم کا نام تبدیل کردیا ہے ۔ میوزیم ابھی تیار نہیں ہوا ہے بلکہ وہ اس کا کام چل رہا ہے ۔ یوپی کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے 2016 میں اپنی حکومت کے زمانے میں آگرہ کے قریب ایک میوزیم کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس کا نام مغل میوزیم رکھا گیا ۔ اس میوزیم کی تعمیر کا مقصد مغلوں کے دورحکومت اوراس زمانے کے تاریخ کی نمائش تھی ۔ آگرہ مغلوں کے زمانے میں پایۂ تخت تھا ۔ لمبے عرصہ تک یہاں سے انہوں نے پورے بھارت پر راج کیا ۔ اس لئے آگرہ میں مغلوں کے بہت سارے آثار ہیں ۔ ان کے بنائے قلعے ہیں ۔ مکانات ، عمارتیں اور دیگر چیزیں بہت زیادہ ہیں ۔ مغل بادشاہوں کے مقبرے ہیں ۔ پرکشش عمارتیں ہیں اور سب سے اہم یہ کہ دنیا کا ساتواں عجوبہ اور بھارت کا شان امتیاز تاج محل بھی یہیں ہے۔
اسی بنیاد پر حکومت نے منصوبہ بنایا کہ یہاں میوزیم سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے گا ۔ یقینی طور پر وہ تاج محل بنانے والوں کی تاریخ اور ان سے جڑی ہر شے کو جاننا چاہیں گے اور اس طرح اس میوزیم کے ذریعہ سرکاری کی آمدنی ہوگی ۔ حکومت کی معیشت بہتر ہوگی ۔ اس لئے میوزیم بنانے کا کام شروع ہوا ۔ یہ میوزم تاج محل کے بالکل قریب اور اس کے شمالی گیٹ کے سامنے ہے ۔
یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مغل تاریخ کی نمائش کے لیے زیر تعمیر اس مغل میوزیم ‘ کا نام چھترپتی شیواجی سے تبدیل کردیا ہے ۔ ان کا کہناہے کہ ‘مغل ہمارے ہیرو نہیں ہوسکتے ۔’ ہماری حکومت قوم پرستی کے جذبہ کو فروغ کے لیے کام کرتی رہی ہے اس لیے آگرہ میں تاج محل کے لیے قریب زیر تعمیر ‘مغل میوزیم’ کا ناقابل برداشت ہے ۔ ہم اس کا نام چینج کررہے ہیں ۔ اب اس میوزیم کا نام ہوگا ۔ چھترپتی شیواجی مہاراج میوزیم ۔
یو پی حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا موقف ہے کہ غلامی اور ماتحتی کی جتنی بھی علامتیں ہیں، حکومت ان سب کو ختم کرکے رہے گی۔ ” آخر مغل ہمارے ہیرو کیسے ہوسکتے ہیں؟ ” اسی لیے انہوں نے آگرہ کے مغل میوزیم کا نام تبدیل کرکے چتھرپتی شیوا جی مہاراج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ نام عوام میں، ”قوم پرستی اور خود اعتمادی کے جذبات کو جنم دے گا۔’ بیان کے مطابق، ” وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے واضح کردیا ہے کہ حکومت نے ہمیشہ قوم پرست نظریات کو فروغ دیا ہے اور کوئی بھی ایسی چیز جو غلامی یا ماتحت رہنے کی علامت ہو اسے ختم کیا جائے گا “۔
یوگی آدتیہ تین سالوں سے یوپی کے وزیر اعلی ہیں ۔ اس مدت میں انہوں نے اپنا سب سے اہم کارنامہ یہی انجام دیا ہے کہ مغلوں اور مسلمانوں کے نام سے منسوب عمارت ، جگہ اور شہر کا نام بدل دیا ہے ۔ مشہور ریلوے اسٹیشن اور جنکشن مغل سرائے کا نام بدل کر انہوں نے دین دیال اپادھیائے رکھ دیا ۔ انگریزوں کے زمانے میں مغل بادشاہوں کی یاد میں اسٹیشن کا نام مغل سرائے رکھا گیا تھا ۔ الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کردیا ۔ الہ آباد کو مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے آباد کیا تھا اور سولہویں صدی میں اس شہر کی بنیاد رکھی تھی ۔ یوپی کے ایک شہر فیض آباد کا نام بدل کر یوگی آدتیہ ناتھ نے اجودھیا رکھ دیا۔ لکھنو کے مشہور شہر حضرت بل کابھی نام بدل دیا ۔ اور اب مغل میوزیم کا نام انہوں نے تبدیل کردیا ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ” آپ کے نئے اترپردیش میں غلامی کی ذہنیت کی کوئی علامت نہیں رہے گی۔ ”
یوپی حکومت اور یوگی آدتیہ ناتھ نے میوزیم کا نام تبدیل کر دیا ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر اب اس میوزیم میں نمائش کن چیزوں کی ہوگی ۔۔۔۔ میوزیم کا نام چھتر پتی شیواجی ضرور رکھ دیا گیا ہے لیکن ان سے متعلق چیزیں نمائش کیلئے آگرہ میں کچھ بھی نہیں ہے اور اگر شیواجی کی تاریخی نمائش وہاں ہوئی تو صرف ذلت اٹھانی پڑے گی ۔ رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں کہ چھتر پتی شیوا جی کا تعلق مہاراشٹر سے تھا ۔ آگرہ سے ان کا کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ نہ وہاں ان کی کوئی یادگار ہے ۔ دوسری طرف آگرہ شہر مغلوں کی تاریخ سے بھرا پڑا ہے، اس کے ہر ذرے پر مغلوں کی یادگاریں اور تاریخیں موجود ہے ۔
مشہور مؤرخ ہر بنس مکھیا کے مطابق چھتر پتی شیوا جی کا آگرہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ اپنی زندگی وہ میں صرف ایک بارآگرہ گئے تھے اور وہ بھی مغلوں کی فوج سے شکست کھاکر آگرہ میں اورنگ زیب سے ملنے گئے تھے۔ مہاراشٹرا میں مغلوں کے فوجی جنرل اور راجہ جے سنگھ انہیں بدترین شکست دی ۔ کئی سارے قلعہ پر قبضہ کرلیا ۔ اس کے بعد جے سنگھ شیواجی کو اورنگ زیب کے پاس لے گئے تاکہ صلح ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہو پایا ۔ اورنگ زیب کے دربار میں انہیں دوسری صف میں کھڑا کیا گیا ۔ شیواجی اس سے غصہ اور ناراض ہوگئے اور وہیں پر ناراضگی ظاہر کی۔ اس کے بعد انہیں اسی جگہ گرفتار کر لیا گیا ۔ بعد میں اورنگ زیب نے رحم کرتے ہوئے شیواجی کو آزاد کردیا ۔
اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ میوزیم میں نمائش مغلوں کی ہی ہوگی ۔ مسلم بادشاہوں کی ہی ہوگی ۔ مغلوں کی تاریخ ہی وہاں بتائی جائے گی ۔ جلال الدین اکبر کی ہسٹری لکھی جائے گی ۔ شاہ جہاں کی نمائش ہوگی ۔ اورنگ زیب عالمگیر کی نمائش ہوگی ۔ جو سیاح اور وزیٹرس وہاں جائیں گے انہیں دیکھنے کو جلال الدین اکبر کا قلعہ ہی ملے گا ۔ تاج محل کی تاریخ ملے گی ۔ مغلوں کا فرمان ملے گا ۔ مغل بادشاہوں کا لباس ملے گا ۔۔۔۔ میوزیم میں وہ یہی دیکھیں گے کہ اکبر اس طرح کا کرتا پہنے تھے ۔ اورنگ زیب کی ٹوپی یہ والی تھی ۔ شاہجہاں کی پگڑی یہ تھی ۔ یہ تلوار اکبر کی ہے ۔ یہ بندوق اورنگ زیب کے زمانے میں استعمال ہوئی تھی ۔ اسی توپ کا استعمال کرکے بابرنے پانی پت کی جنگ جیتی تھی ۔
معروف مؤرخ ہربنس مکھیا نے اس پورے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ۔۔۔ یوگی کا یہ عمل بھی ایک سیاسی قدم ہے جس کا مقصد بھارتی ” مسلمانوں کو غیر بتانا ہے۔ ” یوگی کی سیاست مرکزی پوائنٹ مسلمانوں سے نفرت کا اظہار ہے ۔ ان مسلمانوں سے بھی جو ابھی موجود ہیں اور ان سے بھی جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔ وہ مسلمانوں کو ہم میں سے ایک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ ایسی قوم پرستی کی بات کرتے ہیں جس میں مسلمان شامل نہ ہوں اور مغلوں کا نام لیکر وہ دراصل مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔ ایسا کرنے کے لیے وہ اب ہر روز اس طرح کی کوئی نہ کوئی حرکت کر رہے ہیں اور میڈیا کا بھی ایک طبقہ ان کے ساتھ ہے۔”
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں کئی محاذ پر سرکار کو شدید بحران کا سامنا ہے ۔ سرحد پر چین کے ساتھ جنگ جیسے حالات ہیں ۔ اکنامک کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہے ۔ جی ڈی پی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اتنی کم ہوئی ہے اس لئے اپنے ووٹروں اور میڈیا کا دھیان بھٹکانے کیلئے اس طرح کے غیر ضرروی ایشوز پر فوکس کیا جارہا ہے اور نام بدلنے کی سیاست ہورہی ہے۔
مغلوں اور مسلم بادشاہوں کے دور کو آر ایس ایس اور بی جے پی غلامی کا زمانہ بتاتی ہے جس طرح ہم برٹش ایمپائر کو غلامی کا دور کہتے ہیں لیکن یہ سراسر غلط ہے ۔ تاریخ کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی ہے ۔ مغلوں اور اس سے پہلے کے مسلم بادشاہوں خاص طور پر قطب الدین ایبک کے بعد سبھی نے ہندوستان پر مستقل حکومت کی ۔ اس کو انہوں نے کسی دوسری سلطنت کا حصہ نہیں بنایا ۔ یہاں سے حاصل ہونے والی دولت کو انہیں یہیں کے عوام پر خرچ کیا ۔ باہر کی فوجوں سے ہندوستان کی حفاظت کی ۔ یہاں کے عوام کے روزگار دیا ۔ یہاں کے لوگوں کو وزیر ، مشیر ، فوجی ، ایڈوائز، حکام ، گورنر سب کچھ بنایا ۔ وہ یہیں رہے ۔ اسے سرزمین پر دفن ہوئے ۔ ان کا خاندان یہیں کا بن کررہا ۔ حکومت کے تمام عہدوں میں انہوں نے ہندو اور مسلمان دونوں کو شریک کیا ۔کئی مسلم بادشاہوں نے بھارت کے ہندو عوام کا دل رکھنے کیلئے ان کی تہذیب کو اپنانے پر زور دیا ۔ ان کے گھروں میں شادیاں کی ۔ دوسری طرف انگریزوں کا معاملہ ہے ۔ انگریزوں نے برطانیہ سے بھارت پر حکومت کی ۔ بھارت کی عوام سے مغلو ں کے مقابلہ میں چار گنا زیادہ ٹیکس وصول کیا ۔ یہاں سے لئے گئے پیسوں کا استعمال انگریزوں نے برٹش ایمپائر کی ترقی میں لگایا ۔ اس کے مصارف میں خرچ کیا ۔ حکام ، گورنر انہوں نے انگریزوں کو بنایا ۔سبھی محکموں عہدہ انہوں نے برطانیہ کے لوگوں کو دیا بھارتیہ عوام کو حکومت ، سیاست ، ایڈمنسٹریشن ۔ جوڈیشری سب کچھ سے دور رکھا ۔ اورنگزیب کے زمانے میں بھارت کی اکنامی کی پوزیشن وہی تھی جو آج کے امریکہ کی ہے ۔ جس طرح آج امریکہ سب سے مالدار ملک کہلاتا ہے ۔ فوج اور دیگر معاملوں میں طاقتو ر اور سپر پاور ہے ۔ مغلوں کے زمانے میں یہی پوزیشن بھارت کی تھی ۔ بھارت جتنی دولت اس وقت دنیا کی کسی بھی سلطنت کے پاس نہیں تھی ۔ طاقت اور قوت میں پہلے نمبر پر خلافت عثمانیہ تھی ۔ پورے عالم اسلام پر اس کی حکومت تھی لیکن دولت میں مغل ایمپائر اس سے بھی بڑھی ہوئی تھی ۔ انگریزوں نے اسی دولت کیلئے دھوکہ کا راستہ اختیار کیا اور بھارت پر قبضہ کرکے یہاں کے لوگوں کو غلام بنادیا ۔
بھارت کے مسلمان اور مغل حکمرانوں نے اپنی زندگی میں بھی بھارت اور یہاں کے عوام کیلئے کا م کیا۔ معیشت کو بہتر بنایا ۔ روزگار دیا اور آج وہ اپنی موت اور سلطنت کے خاتمہ کے بعد بھی بھارت کی معیشت ، عوام کے روزگار اور دنیا کی توجہ کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ بھارت کی آزادی کا جشن لال قعلہ سے منایا جاتا ہے ۔ اس کی فصیل پر ہمارا ترنگا لہرایا جاتا ہے ۔ دنیا بھر کے لوگ تاج محل ، ہمایوں کا مقبرہ ، آگرہ کا قعلہ ، فتح پورقلعہ ، قطب مینار اور اس جیسی بے شمار عمارتوں کی خوبصورتی دیکھنے آتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ہمارے ملک کے خزانے میں کڑروں روپیہ کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے ۔ لوگوں کو روزگا ملا ہوا ہے اور بیرونی ممالک سے ہمارے رشتہ اچھے بنے ہوئے ہیں ۔ جن بادشاہوں نے بھارت کیلئے اتنا کچھ کیا آج انہیں کایہ نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
یوگی آدتیہ ناتھ کہتے ہیں کہ یوپی میں غلامی کی سبھی علامتوں کو مٹانا چاہتے ہیں لیکن وہ مٹا نہیں سکتے ہیں ۔ 24 فروری کو انہیں غلامی کی یہ علامت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی پیش کرنا پڑا ۔ سوشل میڈیا پر یہ تصویر بہت وائرل ہوئی تھی ۔
عزت مآب یوگی آدتیہ ناتھ صاحب آپ نے سوالیہ لہجہ میں کہا ہے کہ مغل ہمارے کیسے ہوسکتے ہیں ؟۔ جواب بھی سن لیجئے ۔
مغل ہمارے ہیرو ہیں ، ہمارا قابل فخر سرمایہ اور قیمتی اثاثہ ہیں ۔ مغلوں کی بغیر بھارت کا وجود اور اس کی تاریخ نامکمل ہے ۔
(مضمون نگار مل ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں )