خبر در خبر (658)
شمس تبریز قاسمی
بہار اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھاتیہ سیاست میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسلمان تنہا نہ تو کسی کی سرکار بناسکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اقتدار سے اکھاڑ پھینک سکتے ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک آپشن یہ موجود ہے کہ وہ کچھ اچھے اور جیتنے والے امیدواروں کو فتحیاب کرسکتے ہیں اور اس مرتبہ سیمانچل کے مسلمانوں نے اسی نہج پر ووٹ دیا ہے۔ جمہوریت میں حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور مسلمان اپوزیشن بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر سیمانچل میں یہی جوش اور جذبہ برقرار رہا تو مسلمان اس سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھریں گے۔
بہار اسمبلی انتخابات کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ بیشتر علاقوں میں میرا جانا ہوا جہاں میں نے دیکھا کہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی زبان پر نریندرمودی ہیں۔ نتیش کمار کو نہیں جانتے تھے لیکن مودی سے واقف تھے۔ ان کے دل کی بات جاننے کیلئے میں نے اکثر آف دی کیمرہ بات کیا کیونکہ کیمرے پر بات کرنے سے وہ کتراتے تھے۔ انہیں وجوہات کی بنیاد پر میں نے ہمیشہ کہا کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی اور اقتدار کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہوگی کیونکہ بی جے پی کا 30فیصد ووٹ بینک ابھی برقرار ہے بلکہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اور یہی ہوا صرف ایک سیٹ کے فرق سے بی جے پی دوسرے نمبرپر ہے لیکن ووٹ فیصد اور سیٹ شیرنگ کا جائزہ لیا جائے تو بی جے پی سب سے آگے ہے کیونکہ بی جے پی صرف 110 سیٹوں پر چناؤ لڑرہی تھی اور آر جے ڈی 144 سیٹوں پر۔
ریلیوں میں بھیڑ ووٹ بینک میں تبدیل ہونے کی علامت نہیں ہے لیکن اسے دیکھ مسلمانوں کو لگاکہ تیجسوی چیف منسٹر بننے جارہے ہیں۔ عرب ممالک اور دوسری جگہوں پر بیٹھے نوجوان اسی طرح کی ویڈیوز اور رپورٹ کو دیکھ کر بہت زیادہ پرجوش ہوگیے تھے۔ سیمانچل کی 6سیٹوں کے علاوہ ہرجگہ مسلمانوں نے تقریباً یکطرفہ ووٹ بھی گٹھبندھن کو کیا ہے۔ مجلس کی وجہ سے کہیں بھی بی جے پی کی جیت نہیں ہوئی ہے۔ کشن گنج میں بی جے پی کی جیت کا خدشہ تھا لیکن وہاں بھی کانگریس جیت ہوچکی ہے۔ لیکن دوسری طرف یادوں اور دوسری ذاتوں کا ووٹ گٹھبندھن کو نہیں ملا۔ آر جے ڈی اور گٹھبندھن کے جن امیدواروں کی جیت ہوئی ان میں 80فیصد ووٹ مسلمانوں کا ہے ۔ یادوؤں اور دوسرے سماج کے لوگوں نے امید وار دیکھ کر ووٹ کیا۔ کہیں بی جے پی اور کہیں گٹھبندھن کے امیدواروں کو۔ جہاں کہیں بھی مسلمان امیدوار تھے وہاں یادوؤں نے یکطرفہ طور پر این ڈی اے امیدوار کوووٹ کیا۔ یادوؤں کی اسی ٹیکٹیکل ووٹنگ کا نتیجہ ہے کہ کیوٹی سے آر جے ڈی کے قدآور رہنما عبد الباری صدیقی ، بسفی سے آر جے ڈی امیدوار ڈاکٹر فیاض احمد ، جالے سے کانگریس امیدوار مشکور عثمانی ، سرسنڈ سے آر جے ڈی امیدوار سید ابودجانہ ، ڈھاکہ سے فیصل رحمان اور اس طرح کیی مسلمان امیدوار شکست کھا گئے۔
بہار اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کیلئے تسلی کی بات یہ ہے کہ اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن ہوگی۔ مجلس کی نمائندگی سے بھی تقویت ملے گی۔ ایم آیی ایم بہار کے صدر اختر الایمان کی اسمبلی میں موجود گی مسلمانوں کو حوصلہ دے گی۔ بی جے پی کے پاس زیادہ سیٹیں ہونے کے باجود نتیش کمار سی ایم بنیں گے۔ این ڈی اے اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود نتیش کمار کی شبیہ ایک سیکولر لیڈر کی رہی ہے اور ان کے پندرہ سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں ہوا۔ یہ امید کی جانی چاہیے کہ نتیش کمار پہلے کی طرح ہی اپنی سیکولر شبیہ برقرار رکھیں گے اور سبھی کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ آر جے ڈی اور کانگریس کیلئے یہ انتخاب واضح پیغام ہے کہ ابھی بھی ان کے ساتھ مسلمانوں کے علاوہ دوسرا ووٹ بینک نہیں ہے جس پر انہیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ ہمیشہ آرجے ڈی کا ووٹ بینک ہی بن کر رہیں گے یا کچھ اور متبادل پر غور کریں گے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں)