والدین کے تئیں گھٹتے اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات اور ان کا حل

انظر حسین قاسمی
انسانی زندگی میں رشتے کی بڑی اہمیت ہے، یہ رشتے ناطے ہی تو ہیں، جو انسان کو اس کی خوشی کے موقع پر مسرت وشادمانی کا احساس دلاتے ہیں، اور غم واندوہ کے موقع پر کندھے سے کندھا ملا کر غم کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور سہارا بنتے ہیں، گویا انسان کی زندگی ایک تناور درخت کی طرح ہے اور اس سے جڑے رشتے ہری بھری شاخوں جیسی ہیں، اگر یہ شاخیں ٹوٹ جائے یا مرجھا جائے تو درخت بھی ایک دن سوکھ جاتا ہے،اسی طرح انسانی رشتے ہیں جب تک آپس میں ایک دوسرے کے تئیں خلوص وایثار، محبت والفت اور اپنائیت کے جذبات پائے جاتے ہیں تو یہ تناور درخت کی طرح خوشنما اور مضبوط لگتے ہیں؛ لیکن جیسے ہی ایک دوسرے کے تئیں غلط فہمی پیدا ہو جائے تو یہ ریشم کی ڈور کی طرح کمزور سےکمزور تر ہوجاتے ہیں، ٹوٹنے اور بپھرنے لگتے ہیں۔
اب یہ رشتہ بھی مختلف طرح کا ہوتا ہے، کچھ رشتے تو وہ ہوتے ہیں جنہیں ہم خود نہیں بناتے، بلکہ ہم دنیا میں اللہ کی طرف سے ان رشتوں کی ڈور میں پرو کر بھیجے جاتے ہیں، اور یہ وہ رشتے ہیں جن کے ساتھ حسن سلوک اور خیر خواہی کا حکم دنیا کا ہر مہذب سماج ومعاشرہ اور ہر مذہب وملت دیتی ہے، جیسے ماں باپ کارشتہ، بھائی بہن کا رشتہ اور اولاد کا رشتہ وغیرہ۔
مذکورہ رشتوں میں ایک انسان کا اس کے ماں باپ سے رشتہ سب سے اہم اور بنیادی رشتہ ہے؛ اس لئے مذہب اسلام نے اس رشتہ کو نباہنے کی پوری تاکید کی ہے، قرآن مجید جو اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل کیا ہوا صحیفہ ہدایت ہے، اس میں ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اللہ تعالٰی کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس طرح دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ کے اعمال میں اپنے معبود کی عبادت کے بعد اہم درجہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کرنا ہے، ارشاد باری ہے:اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو تم ان کو ہون تک نہ کہو !(سورہ بنی اسرائیل:23)یعنی صرف ظاہری ادب واحترام کافی نہیں، کہ بظاہر تو تو ادب سے پیش آؤ اور دل میں بوجھ محسوس کرو؛ کیوں کہ پروردگار عالم دل کے احوال سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔
حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا :کہ حضرت! اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں. (سنن ابن ماجہ :3660)یعنی اگر تم اپنے ماں باپ کی خدمت کروگے اور ان کو راضی رکھوگے تو جنت پالوگے اور اگر ان کو ناراض کروگے ان کی نافرمانی کروگے اور ان کا دل دکھاؤگے تو پھر تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا:کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :تمہاری ماں کا ، صحابی نے پوچھا :اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :تمہاری ماں کا، صحابی نے پھر دریافت کیا :اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا :تمہاری ماں کا، صحابی رسول نے جب چوتھی مرتبہ یہی سوال کیا:تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مرتبہ جواب میں فرمایا :اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے، اس کے بعد جب تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں، پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں. (بخاری شریف :5626/مسلم شریف :2548)
یہ آیت وآحادیث تو والدین کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق ایک نمونہ ہیں، ورنہ بہت سی آیات اور بیشمار آحادیث ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیتی ہیں، لیکن جیسا کہ اس زمانے میں ہر چیز کی قدر بدلتی جارہی اور سوچنے کا پیمانہ بدلتا جارہا ہے، ماں باپ کے متعلق بھی ہماری سوچ بدلتی جارہی ہے، آج ہم میں سے اکثر کا اپنے ماں باپ سے بس ایک رسمی تعلق رہ گیا ہے، جو ماں باپ کئی کئی بچوں کی پرورش، ان کی فرمائش، ان کی تعلیم، حتی کہ ان کی دکان ومکان ہر ضرورت پوری کرتے ہیں، ان تمام بچوں سے مل کر بھی والدین کی ضرورت پوری نہیں ہوتی، اور ان کو ایک طرح کا بوجھ سمجھا جاتا ہے، یہ صورت حال صرف ناخواندہ گھرانے میں ہی نہیں ہے، بلکہ تعلیم یافتہ اور مہذب گھرانے میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے، راقم کے ملنے والوں میں ایک شخص ہیں، جو ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں، ان کو دوبیٹی اور ایک بیٹا ہیں، سب شادی شدہ ہیں، بیٹا بھی ماشاءاللہ سرکاری ملازم ہیں اور ان کی ڈیوٹی آبائی گاؤں سے صرف ایک کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے، لیکن یہ برخوردار اپنی فیملی کے ساتھ شہر میں رہتے ہیں جبکہ ڈیوٹی کرنے اپنے گاؤں کے متصل ہی ایک جگہ ہر دن آتے ہیں، لیکن بڑی مشکل سے ہفتہ میں کسی ایک دن تھوڑا سا وقت نکال کر اپنے اس والدین سے ملنے جاتے ہیں، جن کا یہ اکلوتا بیٹا ہیں اور جن کے والدین سخت بیمار بھی رہتے ہیں، برخوردار گھر سے باہر شہر میں رہنے کا سبب کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ گاؤں میں رہ کر میرے بچوں کا مستقبل تاریک ہو جائے، یہ آگے نہیں بڑھ پائیں گے اور یہ زمانہ کی رفتار کے ساتھ نہیں چل پائیں گے، ایک مرتبہ تو ان کا بےسہارا باپ راقم کے پاس یہ کہ کر رونے لگے :کہ مولانا! یہ عالشی مکان میں نے جس کے لئے تعمیر کرایا، آج یہ مکان اور یہاں کی تنہائی مجھے ڈسنے کو دوڑتی ہے۔
کیا ایسے ماں باپ کے آنسو رائگاں جائیں گے؟ یا ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم تو ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کریں گے، لیکن ہمارے بچے مطیع و فرمانبردار اور ہمارا خدمت گزار ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم اپنے سماج میں اس پہلو پر دھیان دیں، اس کے لیے ائمہ کرام مساجد میں اس حساس موضوع پر خطاب فرمائیں! اور انفرادی طور پر بھی ہم نوجوان نسل کو والدین کی خدمت اور ان کی فرمانبرداری کی فضیلت بتائیں! کہ نصیحت مسلمانوں کے لئے نفع بخش ہوتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے کردار اور اپنے عمل سے بھی دوسروں کے لیے سیکھنے کے مواقع پیش کرنا چاہئے، کہ یہ زیادہ مفید اور کارگر ہے۔