ڈاکٹر ر احت مظاہری، قاسمی
آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں اگر کسی رہنما نے اپنی قوم میں بطور خاص جدید تعلیم کی جوت جگائی تو وہ سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کی شخصیت ہے، یا اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں ماضی قریب میں تعلیم کا بیڑا اٹھانے والی دو اہم شخصیات گذری ہیں، آزادی سے پہلے بابائے قوم علامہ سرسید مرحوم بانی علی گڈھ مسلم یونیور سٹی اور آزادی کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین۔ نیز ڈاکٹر صاحب نے تعلیم کواسی معنیٰ و مفہوم میں لیا جو اسلام کو مطلوب ہے یعنی علم نافع، جیساکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے علم نافع کا سوال کیا اور علم غیر نافع سے پناہ مانگی ہے، علم نافع کی تعریف بعض اہل علم نے اس طرح کی ہے”ہر وہ چیز جو زندگی میں محنت و کسبی و اجتہادی ، تعلیمی یامحنت کے راستہ سے آئے اوراس سے ہماری نجی یااجتماعی زندگی کو کوئی مثبت سمت حاصل ہو تو وہ علم نافع ہے، زندگی ایک مدرسہ اور ہم اس کے طالب علم ہیں، لہٰذا اس کے لئے ہمیں پہلے سے کوئی ہدف طے کرناہوتاہے تاکہ ہم اپنے حقیقی مقصد تعلیم و تعلّم تک پہنچ سکیں، ورنہ ہرچیز کاحصول ہمیں دنیا یا آخرت کی زندگی کے لئے مفید ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ علم نافع کے تعلق سے پڑوسی ملک کی سند قمر جو کہ ہلیتھ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (HNEF) کی چیئرپرسن ہیں انھوں نے بڑے پتے کی بات کہی ہے”علم وہی بہتر ہے جواللہ کی مخلوق کےلئے نفع بخش ہو، قومیں اسی صورت بدلتی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں مگر اس کے لئے طالب علموں کو کٹھن مراحل اور دشوار گذار راستوں سے ہوکر کامیابی کی منزل مقصود تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ضرورت ہے اسی فلسفہ کو ہمارے ملک کے طلبہ کے علاوہ ماہرین تعلیم بھی اپنے اندر اتارلیں تو ان کو اپنے میدان کار میں کام انجام دینے میں بڑی سہولت رہے گی اور مشکل سے مشکل ترین مرحلہ بھی آسان اور سہل محسوس ہوگا، ورنہ پھر وہی ہوگا جو ہو رہاہے کہ ایک بڑے افسر کے لئے بھی بوڑھے ماں باپ اسی طرح بوجھ ہیں جس طرح ایک ناخواندہ جاہل بد دماغ نالائق پر۔
جب ہم ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ تعلیم پر نظر ڈالنے سے تین چیزیں بڑی اہم دکھائی دیتی ہیں یعنی انھوں نے بنیادی طور پر طریقہ تعلیم کو تین خانوں میں تقسیم کیا ہے (ا) معلومات کا جمع کرنا (ب) معلومات میں آئے مواد کے لب لباب کو مرتب کرنا (ج) اس کے مفید اجزا سے شخصیت کی تعمیر و ترقی۔ دانشوروں کا ماننا ہے کہ تحصیل علم کا مقصد تلاش حق ہے، اورتلاش حق کا مدعا خدمت خلق ہے، اسی لئے ڈاکٹر ذاکر صاحب کے نظریہ تعلیم میں خدا کے وجود، اس کی اطاعت، اوراس کی مخلو ق کی خدمت کی طرف رہنمائی بدرجہ اتم موجود ہے، اسی لئے ہم ان کی سیاسی زندگی میں بھی جھانکیں تو جیسے جیسے وہ ملک و ملت کے اہم کلیدی عہدوں پر فائز ہوتے رہے ان کے اس وصف میں باوجود ہزار مشاغل کے کمی آنے کے بجائے مزید نکھارہی آیا۔
معاصرین نے وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت تعلیم کو تین کر مرحلوں میں بانٹاہے (ا) پرائمری تعلیم (ب) ثانوی تعلیم (ج) اعلیٰ تعلیم ۔ جس میں میڈیکل، انجینئرنگ، وکالت، قانون، وغیرہ بہت سارے شعبے ہوسکتے ہیں، مگر چونکہ ان سب کی اساس پرائمری تعلیم پر ہی ہے، لہٰذا ڈاکٹر ذاکر حسین نے تنوں اور پتیوں کے بجائے جڑوں کو پانی دینے کی زیادہ کوشش کی یعنی بچوں علمی شعور پیدا کرنے کےلئے وہ ادب اطفال پر آخرت تک اپنا قلم چلاتے رہے جس کے عمدہ نمونوں میں ابو کی بکری، کابلی والا، اور کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کی مشہور کہانیاں ہیں، مگر مؤخرالذکر ان کی اپنی طبع زاد تخلیق تو نہیں مگر انھوں نے ایک پرانی کہانی کو اصل کہانی سے زیادہ خوبصورت اور دل چسپ پیرائے میں ڈھالنے کا کام انجام دیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکرحسین کے حوالہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے موجودہ وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر طلعت احمد کا وہ خطبہ جو موصوف نے مرحوم کی ۰۲۱ویں سالگرہ کے موقع پر دیا اس کا اقتباس مرحوم کے اوصاف حمیدہ پر اچھی روشنی ڈالتاہے، ” سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس میدان میں جو خدمات ہیں اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، اور ان کے تعلیمی نظریات ہمیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو آگے لے جانے میں مددگار ثابت ہونگے۔ موصوف نے نہ صرف تعلیمی میدان میں ملک کی رہنمائی کی بلکہ ملک کے سیکولرازم کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا نیز اقلیتوں اور خصوصاََ مسلمانوں کی ترقی اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے انتہائی محنت کی اور کئی جگہ تعلیمی ادارے قائم کئے جس میں رانچی کا تعلیمی ادارہ بھی شامل ہے،اس کے علاوہ ملک میں بھائی چارہ کی فضا قائم کرنے میں بہت محنت کی ۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکرحسین نے ملک اور مسلمانوں کی ا سوقت رہنمائی کی جب مسلمان مشکل حالات سے دوچار اور مایوسی کی حالت میں تھے،اسی کے ساتھ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جس طرح آج ملک کی فضا میں فرقہ پرستی کا بول بالا ہے ڈاکٹر ذاکرحسین ملک کے تمام باشندوں کو ایک ہی نظرسے دیکھنے کے عادی تھے، وہ ہندو مسلمان کے فرق کے قائل نہ تھے جیسا ان کے وائس چانسلری کے دور سے ظاہر ہے کہ وہ سب طلبہ کو برابر سمجھتے اور ذات، مذہب اور برادری کی تفریق کے قائل نہیں بلکہ اس کے سخت دشمن تھے، وہ ہرطالب علم کی ترقی کے برابر خواہاں تھے۔ ڈاکٹرصاحب کی تعلیمی فکر کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان کی تحریروں کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے، جن سے ان کا اصل نظریہ تعلیم سمجھ میں آتا ہے، اس کے لئے میں آپ کے سامنے بھارت کے پہلے یوم آزادی کے موقع پر آل انڈیا ریڈیو سے ان کی نشر شدہ تقریر کا ایک اقتباس پیش کرتاہوں ۔
”ہم ایسا سماج بنائیں گے جس میں سیاسی اور معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ تعلیم کا ایسا نظام ہوگا کہ ہر فرد کی صلاحتیں پوری طرح اجاگر ہوسکیں آگے لکھتے ہیں ”یہ سیرتی ںشخصیت کے بلند مرتبہ کو پہنچیں کہ آزادی کے درخت کا پھل یہی اخلاقی شخصیت ہوتی ہے ، اس پر کائنات فخر کرتی ہے،، فرشتے رشک کرتے ہیں ہم نے اپنی آزادی میں یہ کرلیا تو گویا آزادی کی ترقی اور اس کی حفاظت کا پورا انتظام کر لیا (ڈاکٹر ذاکرحسین کی منتختب تحریریں)
ڈاکٹر ذاکرحسین کی صاحبزادی محترمہ سعیدہ بیگم کی مرتب کردہ سوانح ”ڈاکٹر ذاکر حسین کی کہانی سعیدہ کی زبانی،میںتحریر خاکہ کے مطابق ان کے والد صاحب نہایت مرنجاں مرنج اور بہت خوش طبیعت کے مالک تھے عام پڑھے لکھوں اور اعلیٰ منتظمین کی طرح خشک مزاج، چڑچڑے اور روکھے نہیں بلکہ بہت خوش مزاج اور ظریف الطبع بھی تھے ، اسی لئے وہ عام آدمیوں سے بڑے خلوص و تپاک سے ملنے کے عادی تھے، ان کے دوستوں میں اعلیٰ درجہ کے سیاست داں، ایڈمنسٹریٹر اور عوام سب ہی تھے، عام طور سے لوگ پھولوں میں رغبت رکھتے ہیں مگر ان کو خوبصورت اور نادر قسم کے پتھر جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔ اسی طرح وہ میٹھے کے شوقین تھے، ایک بار عہدہ صدارت کے زمانے میں راشٹرپتی بھون کی لائبریری میں مطالعہ کےلئے گئے ، کچھ دیر بعد بیگم کسی ضرورت سے ان کے پاس گئیں تو ڈاکٹر صاحب نظر نہیں آئے ، انھوں نے سنا کہ کتابوں کی ریگ کی قطاروں سے ’کُڑم، کُڑم، کی آواز آرہی ہے۔ ،سوچا کہ بلّی گھُس آئی ہوگی ہے اور وہ یہاں کچھ کھارہی ہے، جب آگے بڑھیں تو دیکھا کہ ذاکر صاحب شوگر کے مریض ہونے کے باوجود سردی کے زمانے میں کتاب میں منھ دئے گُڑ سے بنی ریوڑیاں چبارہے ہیں۔ اسی طرح ایک غیرملکی سفر کے وقت ان کے ایک دوست نے فرمائش کی جس ملک کا آپ کا دورہ ہے وہاں کے گلاب بہت مشہور ہیں، لوگوں نے واپسی پر دیکھا کہ راشٹرپتی اپنی فلائٹ سے اتررہے اور گلاب کا پودا ان کے ہاتھ میں ہے۔
یہ وہ صفات ہیں جو عام طور پر لوگ بڑے عہدوں پر پہنچنے سے پہلے ہی پرانے کپڑوں کی طرح اتار پھینک جاتے ہیں، بہرحال ذاکر صاحب کی زندگی ہمارے لئے نمونہ اسلاف ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کی پیدائش /8فروری 1897 حیدرآباد میں ہوئی، جہاں ان کے والد جناب فداحسین خاں اپنے وطن اصلی قصبہ قائم گنج فرخ آباد یوپی سے جاکر مقیم ہوگئے تھے۔ دہلی، علی گڈھ اور اور جرمن میں تعلیم حاصل کی، تحریک ترک موالات و خلافت میں حصہ لیا، جب جامعہ ملیہ علی گڈھ سے دہلی منتقل ہوئی تو اس کے پہلے ناظم اعلیٰ بنے، آزادی کے بعد اے ایم یو کے وائس چانسلر بنے، 1948میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر رہے، ۷۵۹۱ میں بہار کے گورنر بنے،
1962 میں آزاد بھارت کے نائب صدر جمہوریہ اور 1967 میں صدر جمہوریہ بنے، ان کی وفات /3 مئی 1969 کو عہدہ صدرات پر رہتے ہوئے ہوئی۔ جس کے لئے قوم نے چار دن کا سوگ منایا۔
(مضمون نگار مولانا آزاد ایجوکیشنل اینڈ میڈیکل آرگنائزیشن دہلی کے جنرل سکریٹری ہیں)
dawat.tableegh@yahoo.in