خبر درخبر ۔(543)
شمس تبریز قاسمی
بابری مسجد پہلے بھی ویران تھی ۔مسلم محلے میں ستر اسی ایکڑ زمین ہمیں دے دی جائے ،ہم مسلمان وہاں ذوق وشق سے ایک شاندار مسجد کی تعمیر کریں گے ۔بابری مسجد کی جگہ پر آپ نے مندر بناہی رکھی ہے ،چاہیں تو اور بہتر اسے بنا لیں وہ مندر کی جگہ ہوگی ۔اسلام کے چار فقہی مسالک میں سے ایک میں اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ ضرورت کے پیش نظر مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے ،یعنی اس ڈیل میں شرعی نقطہ نظر سے بھی کوئی قباحت نہیں ہے ۔رام ایک قابل احترام شخصیت کا نام ہے ،اسلام میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم ،حضرت نوح ،حضرت یوسف علیہم السلام کی طرح ایک پیغمبر تھے ،رام ،کرشن یا دیگرکسی عظیم شخصیت کی یادگار کے طور پر کوئی عمارت بنتی ہے تو ہم مسلمانوں کو خوشی ہوگی ،رام مند ر میں بھی ایک ایشور کی پوجا ہوگی ،ہم مسلمان بھی ایک ہی ایشور کے قائل ہیں اس لئے رام مندر کی تعمیر پر تنازع کا کوئی سوال نہیں اٹھتا، ہم چاہتے ہیںکہ بابری مسجد کی اراضی رام مندر کو سونپنے کیلئے ہماری ہونے والی یہ جدوجہد پور ی دنیا تک پہونچے ،امریکہ ا ور یورپ کی عوام بھی اسے جان لے ،سپریم کورٹ کے ججز کو بھی ہماری اس عظیم کوشش کی خبر مل جائے اور پھر آخری ملاقات وزیر اعظم نریندر مودی سے کرکے انہی تمام تفصیلات سے آگاہ کریں کہ جو کام برسوں میں نہیں ہوسکا اسے ہم نے انسانیت کے علمبردار شری شری روی شنکر کی قیادت میں مل کر لیاہے ۔ہاں اس سودے کے عوض ہم ایک معاہد نامہ بھی بنائیں گے جس میں یہ وضاحت ہوگی کہ اب آئندہ ہماری کسی مسجد ،درگاہ ،قبرستان اور مدرسہ پر قبضہ نہیں کیا جائے گا ،قصورواروں کو سزا دینے کی بھی بات کی جائے گی اور مسلمانوں کیلئے ایک یونیورسیٹی کے قیام کا بھی وعدہ ہوگا کیوں کہ ہم مسلمان تعلیم میں بہت پیچھے ہیں ۔
یہ تمام جملے مفکر ملت ،عظیم خانوادہ کے بیباک لیڈر ،دارالعلوم ندو ة العلماءلکھنو کے موقر استاذ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے رکن تاسیسی مولانا سلمان الحسینی ندوی کے ہیں ،اگر آپ کو ذرہ برابربھی تردد ہے ،یا مجھ پر کسی غلط بیانی کا شبہ ہورہا ہے تو براہ کرم یہاں دیئے گئے یوٹیوب کے لنک پر جاکر آج 8 فروری کو بنگلور میں شری شری روی شنکر سے ہونے والی میٹنگ میں ان کی 22 منٹ کی یہ تقریر سن لیں ،اگر آپ کے پاس وقت کم ہے تو 6 منٹ پر مشتمل ویڈیو ملت ٹائمز کے فیس بک پیج پر جاکر دیکھ لیں ۔
مولانا سلمان ندوی ایک عظیم عالم دین ہیں ،ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ان کی بیباکی ،حق گوئی،بہادری اور جرات مندی کو سلام کیا جاتاہے ،ان کے ہزاروں عقیدت مندوں میں میرا بھی نام شامل ہے ،ان کی طرح کئی اور شخصیت سے مجھے عقیدت ہے لیکن ہم اس عقیدت کے ساتھ حق بات کہنے اور لکھنے کا جذبہ اور حوصلہ بھی رکھتے ہیں،ایک صحافی کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ قلم کو عقیدت اورجذباتیت کے رشتہ سے دور رکھیں ۔جب ملت نازک دور سے گزر نے لگے ،امت میں اختلاف وانتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں حقائق پیش کریں ،صحیح اور غلط کا فیصلہ عوام کے سپرد کردیں ۔
بابری مسجد ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے حساس اور سنگین مسئلہ ہے ،اس کی بنیاد پر 1992 اور 1993 میںکئی فسادات رونما ہوئے ہیں ،مسلمانوں کے جان ومال کا شدید ضیاع ہواہے لیکن اس کے بعد اس نام پر کوئی اور فساد نہیں ہوا ہے ،ہر سال 6 دسمبر آتاہے ،مسلمان یوم سیاہ مناہ لیتے ہیں اور پھر حسب معمول اپنے کام پر لگ جاتے ہیں،ستمبر 2011 میں جب الہ آباد ہائی کورٹ سے فیصلہ آیاتھا اس وقت بھی پورے ہندوستان میں کوئی فساداور پرتشدد واقعہ پیش نہیں آیا۔اب 2018 میں اسی بنیاد پر مولانا سلمان ندوی بابری مسجد کی اراضی رام مندر کو سونپا چاہتے ہیں ۔ا ن کا مانناہے کہ ایسا کرنے سے گﺅتحفظ ،لوجہاد ،حب الوطنی جیسے الزامات کے تحت مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ رک جائے گا ۔محمد اخلاق ،حافظ جنید اور افرازل جیسے واقعات رونما نہیں ہوں گے ؟؟۔
مولانا شرعی نقطہ نظر سے بھی اسے درست ٹھہرا تے ہوئے فرماتے ہیں کہ فقہ حنبلی میں اس کی اجازت ہے ،جبکہ وہاں تبادلہ کی بات ہے مسجد کو مندر بنانے کا ہر گز کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی مفتی یہ فتو ی دے سکتاہے کہ مسجد کی جگہ مندر کیلئے دی جاسکتی ہے ۔
مولانا اور ان کے بھکت کہ رہے ہیں کہ عدالت سے ہمیں جیت نہیں مل سکتی ہے اگرکچھ حصہ مسجد کی تعمیر کیلئے دیا بھی گیا تو ہم مسجد تعمیر نہیں کرپائیں گے اور اس طرح دنیا بھر میں مسلمانوں کی رسوائی ہوگی اس لئے بہتر یہی ہے کہ سر بسجود ہوتے ہوئے ہم مسجد کہیں اور بنالیں ۔بصد احترا م عرض ہے کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ بابری مسجد کی ملکیت کا ہے،اصل فیصلہ اس بارے میں ہوناہے کہ یہ جگہ مسجد کی ملکیت ہے یا مندر کی ۔دلائل او ردستاویزات کی بنیاد پر یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کا موقف عدلیہ میں مضبوط ہے ،اگر ایسا نہیں ہوتاتو الہ آباد ہائی کورٹ سے ہی رام مندر کے حق میں مکمل فیصلہ صادر کردیا جاتا،مسلمانوں کے دلائل اگر کمزور ہوتے تو اتنا وقت نہیں لگایا جاتا،جب ایک مسجد شہید کی جاسکتی ہے تو پھر اس سلسلے میں کوئی فیصلہ سنانے میں کیا پریشانی ہوسکتی ہے ۔طلاق کے مسئلہ پر فیصلہ سنا یاجاچکاہے ،شریعت میں مداخلت پر مبنی قانون پارلیمنٹ کے ایک ایوان سے پاس ہوچکاہے لیکن مسلمانوں نے کہیں کوئی ہنگامہ ،فساداور توڑ پھوڑ نہیں کیا ہے اس لئے یہ بات بے معنی ہے کہ بابری مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہ آنے پر فساد ات ہوجائیں گے ۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ بات بابری مسجد کی تعمیر کی نہیں بلکہ حق ملکیت کی ہے ،عدلیہ سے اگر بابری مسجد کے حق میں فیصلہ آجاتاہے اور مسجد نہیں بنا نے دی جاتی ہے تو دنیا کے سامنے ہندوستان خود بخود بے نقاب ہوجائے گا خدانخواستہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہیں بھی آتاہے تو کم ازکم ہم پر جدوجہد نہ کرنے کا الزام عائد نہیں ہوگا ،دنیا بھی جان لے گی کہ فیصلہ حقائق کی بنیاد پر ہواہے یا آستھا کو بیس بنایاگیا ہے ۔جہاں تک دوسری جگہ مسجد تعمیر کرنے کا مسئلہ ہے تو اس کیلئے ہمیں کسی طرح کے سمجھوتہ کرنے کی کوئی ضروت نہیں ہے ،شری شری روی شنکر سے معاہدہ اور ڈیل کئے بغیر ہی ہم ہندوستان کے جس خطے میں چاہیں علاقائی قانون کے مطابق مسجد بناسکتے ہیں اور الحمد مساجد کی تعمیر کا سلسلہ ملک کے طول وعرض میں جاری ہے ۔کسی مسلم محلے میں مساجد بنانے کیلئے ہمیں بابری مسجد کا سودا کرنے کی ضرورت ابھی پیش نہیں آئی ہے اور خد ا نہ کرے کہ کبھی ایسا دن آئے ۔مولانا کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ اگر مقصد امن کا فروغ اور سیکولزم کا ثبوت پیش کرناہے تو پھرمکمل وسعت ظرفی کاثبوت پیش کیجئے ،کچھ لئے بغیر ہی مسجد کی جگہ رام مند ر کیلئے دینے کی بات کیجئے ۔
مفکر ملت مولانا سلمان ندوی سے ایک اور سوال ہے کہ اگر حنبلی مسلک کے مطابق بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے دی جاسکتی ہے تو مسجد اقصی کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟،رام مندر کے بارے میں ہمار ا یہ یقین ہے کہ یہ مسجد کی جگہ ہے مندر کا دعوی فرضی ہے اورنہ ہی اس بارے میں کوئی ثبوت ہے ۔لیکن مسجد اقصی کے بارے میں یہودیوں کا دعوی ہے کہ اس کے اصل حقدار ہم ہیں ،عسیائیوں کا مانناہے کہ اصل میں ہماری عبادت گاہ ہے اور مسلمان خود کو اس کا مستحق مانتے ہیں،سب کے اپنے اپنے دلائل ہیں ،تاہم اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ تینوں آسمانی مذاہب کا اس سے رشتہ جڑاہے یہ الگ بات ہے کہ مذہبی ،شرعی ،تاریخی،جغرافیائی اور دیگر حوالوں سے اب مسلمان ہی اس کے اصل حقدار ہیں۔ بہر حال مسجد اقصی کا مسئلہ پوری دنیا میں زیر بحث ہے ،لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں کو مسجد اقصی کے تحفظ کیلئے اپنی جان کی شہادت پیش کرنی پڑی ہے، فلسطین تباہ برباد ہوچکاہے ، خوداس مسئلہ پر حضرت مولانا عربوں کی غیر ت کو للکارتے ہیں حالاں کہ ان کے موجودہ نظریہ کے مطابق مسجد اقصی سے بھی مسلمانوں کو دستبردار ہوجانا چاہیئے ؟۔
بابری مسجد پر مولانا سلمان ندوی کا منتازع بیان، امت مسلمہ کے متفقہ موقف سے انحراف ،بورڈ کی قیادت سے اختلاف ،شری شری شنکر سے ملاقات ایک سنگین خطرے کی گھنٹی ہے اور ایک بڑی سازش رچنے کی منصوبہ بندی ہے ،سب سے اہم مسئلہ ٹائمنگ کا ہے ،169 سالہ پرانے معاملہ کو عدلیہ سے باہر سلجھانے کیلئے روی روی شنکر اس وقت سامنے آتے ہیںجب عدلیہ میں اس کیس کی سماعت کی تاریخ طے ہوجاتی ہے ، پہلے وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی قیادت سے ملاقات کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جب کامیابی نہیں ملتی ہے تو وسیم رضوی کے ساتھ ملکر ایک تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب یہ لگتاہے کہ مسلم معاشرہ میں وسیم رضوی کی کوئی حیثیت نہیں ہے تو پھرایک عظیم خانوادہ کے عظیم فرد مولانا سلمان ندوی سامنے ابھر کر آتے ہیں اور اسی ڈبل شری سے مل کر بابری مسجد کی اراضی مند رکیلئے سونپنے کی ڈیل کرتے ہیں جن کے مودی سے قریبی تعلقات ہیں اور سخت گیر ہندو پنڈٹو میں سے ہیں ۔روی شنکر اگر واقعی انسانیت کے علمبردار اور مسجد مندر کا جھگڑا نہیں چاہتے ہیں تو وہ کیوں یہ پیشکش نہیں رکھتے ہیں کہ رام مندر کی تعمیر کہیں اور ہوجائے گی ،بابری مسجد جہاں تھی وہیں رہے گی ،بابری مسجد انہدام کرنے والے مجرموں کو سزا کی بات بھی آج تک انہوں نے کی ہے ۔
آئیے روی شنکر کی کوششوں کے پیچھے کی کہانی بھی ہم آپ کو بتاتے ہیں،بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر بی جے پی کا اہم انتخابی وسیاسی ایجنڈاہے ،عدلیہ کے بغیر وہاں وہ رام مندر کی تعمیر نہیں کرسکتی ہے ،عدلیہ میں فیصلے حقائق اور دستاویزات کی بنیاد پر ہوتے ہیں،اب تک کے تمام واقعات سے یہی ثابت ہواکہ مسلمانوں کا پلرا دلائی کی روشنی میں بھاری ہے ،حکومت کو بھی یقین ہوچکاہے کہ عدلیہ سے رام مند کے حق میں فیصلہ نہیں آئے گا اسلئے شری شری روی شنکر کو اس کا م کیلئے مامور کیا گیا ہے ۔سوئے اتفاق ہمارے ایک عظیم عالم دین مودی سرکار کی اس خفیہ مہم کا حصہ بن رہے ہیں ،حکومت کے ذریعہ استعمال ہورہے ہیں ،کیوں ہورہے ہیں ؟اس کی بھی ایک وجہ ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے ورنہ یہ کہاں ممکن ہے کہ جس شخصیت نے1992 میں حکومت کے اہم ذمہ داروں کو للکار اتھا وہ آج 26 سالوں بعد مودی کے سامنے سر بسجود ہوجائے گی جبکہ حالات بدل گئے ہیں ۔
آخری بات ہم مولانا کے عقیدت مندوں کیلئے لکھنا چاہتے کہ انہیں بابری مسجد کے سودے بازی کے اس عظیم کارنامہ کیلئے مولانا سلمان ندوی کے ساتھ شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی کی بھی ستائش کرنی چاہیئے کیوںکہ حالیہ دنوں میں سب سے پہلے انہوں نے ہی کھل کر بابری مسجد کی جگہ رام مند تعمیر کرنے کی بات کی ہے ،کسی کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر شری شری روی شنکر سے ملاقات کی ہے ۔اسی کے بعد مولانا ندوی کو کھل کرے اس مسئلے پر بولنے کی جرات وہمت ہوئی اور دو خفیہ ملاقات کے بعد تیسرے ملاقات سے پہلے انہوں نے اس عظیم کوشش کے بارے میں ملت اسلامیہ کو اطلاع دی ۔
( کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com